امام شافعی 198 ہجری میں مصر آئے اور وہاں چار سال قیام کیا۔ اس زمانے میں جو لوگ ان کے شاگرد ہوئے ان میں یوسف بن یحییٰ اور ابن عبدالحکم بھی تھے۔ امام شافعی کے انتقال کے بعد یہ سوال ہوا کہ مصر میں ان کے حلقہ درس کا مسند نشین اور ان کا قائم مقام کون ہو۔ امام شافعی اپنے تمام شاگردوں میں یوسف بن یحییٰ کو زیادہ مانتے تھے۔ بلکہ ان کو اپنی جانشینی کیلیے نامزد بھی کر چکے تھے۔ تاہم امام شافعی کے انتقال کے بعد جب یوسف بن یحییٰ نے امام شافعی کی مسند پر بیٹھنا چاہا تو ابن عبدالحکم نے دعویٰ کر دیا کہ اس مسند کا زیادہ حقدار میں ہوں۔اس وقت مصر میں امام شافعی کے مکی شاگرد امام حمیدی موجود تھے۔ انہوں نے یوسف بن یحیی کے حق میں فیصلہ دیا۔ امام حمیدی نے کہا: امام شافعی نے مجھ سے کہا تھا کہ میری مجالس کا حقدار یوسف بن یحییٰ سے زیادہ حقدار کوئی نہیں اور نہ میرے ساتھیوں میں یوسف بن یحییٰ سے زیادہ کوئی صاحب علم ہے۔ ابن عبدالحکم نے یہ سن کر امام حمیدی سے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ حمیدی نے جواب دیا: جھوٹ بات تم نے کہی، تمہارے باپ نے کہی، تمہاری ماں نے کہی۔ ابن عبدالحکم اس بات پر سخت ناراض ہوئے۔ وہ اس سے پہلے اپنے باپ کے مسلک کے مطابق مالکی مسلک رکھتے تھے پھر شافعی مسلک اختیار کر لیا۔ اس واقعہ کا اثر ان کے اوپر اتنا زیادہ ہوا کہ انہوں نے شافعی مسلک چھوڑ دیا اور دوبارہ مالکی مسلک اختیار کر لیا۔
ابن عبدالحکم یہ چاہتے تھے کہ شافعی مسلک کی مسند درس پر بیٹھیں۔ مگر جب ان کو درس کی مسند نہ ملی تو انہوں نے خود اپنے لیے بھی اس مسلک کو پسند نہ کیا جس کیلیے وہ دوسروں کے سامنے نمائندہ بننے پر اصرار کر رہے تھے۔ یہی اکثر لوگوں کا حال ہے۔ وہ اسلام یا کسی ادارہ کے حامی بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر حقیقتاً ان کی ساری دلچسپی اس اسلام یا اس اسلامی ادارے سے ہوتی ہے جو انہیں ایک شان دار اسٹیج پر بیٹھنے کا موقع دے، جو ان کیلیے عوام کے درمیان ایک امتیازی مسند فراہم کر رہا ہو۔ اگر شاندار اسٹیج نہ ملے تو ایسے اسلام کی خدمت کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایک شخص صدارت کی کرسی سے یہ تقریر کرتا ہوا سنائی دے گا کہ اس عظیم مقصد کیلیے چپڑاسی کی حیثیت سے خدمت کرنا بھی اپنے لیے فخر سمجھتا ہوں لیکن اگر وہ خود کو صدارت کی کرسی پر بیٹھا ہوا نہ پائے تو اس وقت اس مقصد کے میدان میں اس کیلیے کرنے کا کوئی کام نہ ہوگا۔ اسلام کی صدارت کرنے کیلیے ہر آدمی بیقرار ہے۔ مگر اسلام کی خدمت کرنے کیلیے کوئی بھی تیار نہیں۔