ایک عرب خطیب نے اپنے والد کے ساتھ بیتا ہوا ایک سچا واقعہ سنایا: سنیئے اور لطف لیجیئے۔
''ہم عصر کے بعد مسجد سے ملحقہ پتھارے پر باہر بیٹھے سبق یاد کر رہے تھے، اس مجلس میں اس وقت کے چند علماء بھی تشریف فرما تھے۔ اسی اثناء میں وہاں سے بندوق کندھے پر لٹکائے ایک دیہاتی کا گزر ہوا اور یہ بالکل وہ وقت تھا جب مسجد میں مغرب کی اذان دی جا رہی تھی۔ میرے ابا نے اس دیہاتی کو آواز دیکر اپنے پاس بلایا اور کہا: نماز تو پڑھتے جاؤ۔ اس دیہاتی نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا: نہیں پڑھنی آتی مجھے نماز۔ دیہاتی کے انکار پر ابا نے دوستانہ لہجے میں بات بڑھانے کے لیے دیہاتی سے پوچھا: یہ بندوق کدھر سے لی ہے؟
دیہاتی نے کہا: میرے بہنوئی کی ہے۔ دیہاتی شکل سے سادہ انسان اور غریب دکھائی دیتا تھا۔ (جبکہ اس کا بہنوئی مسجد کا ہمسایہ اور سرکاری اہلکار تھا)۔ ابا نے دیہاتی سے اس کے بہنوئی کا نام پوچھ کر تسلی کر لی۔
ابا نے پوچھا: تیرے بہنوئی نے تیرے اوپر بڑی مہربانی کی ہے۔ اگر وہ اس بندوق کے بدلے میں تجھ سے کچھ مانگے تو کیا دے گا اُسے؟دیہاتی کہنے لگا: بہنوئی ہے میرا۔ میری آنکھیں مانگے گا تو نکال پیش کر دوں گا۔ابا نے دیہاتی کو اپنی انگلی دکھا کر اس کی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: اچھا تجھے یہ والی انگلی کس نے دی ہے جس سے تو بندوق کا گھوڑا کھینچ کر گولی چلاتا ہے؟ دیہاتی نے فورا جواب دیا: اللہ کی عطا ہے۔
ابا نے پھر پوچھا: اچھا تجھے یہ بازو کس نے دیا ہے جس پر بندوق لاد کر تو اپنے گاؤں سے ادھر تک پہنچا ہے؟ دیہاتی نے اس بار بھی فوراً کہا: میرے رب میرے اللہ کی دین ہے۔ ابا دیہاتی سے اس کے ایک ایک عضو کی عطا کا پوچھتے رہے اور وہ جواب میں اللہ سبحانہ و تعالی کی ملک و عطا کا بتاتا رہا۔ بالآخر ابا نے کہا: کمال ہے بھئی تیرا۔ تیرے بہنوئی نے تجھے ایک بندوق لے کر دی ہے اور تو کہتا ہے کہ تیری آنکھیں مانگے تو تو اسے نکال کر دینے میں دیر نہ لگائے۔ تجھے اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے اُسے کیا دینا چاہتا ہے؟دیہاتی کہنے لگا: جو مانگے گا دوں گا۔ابا نے کہا: ٹھیک ہے، پھر آ مل کر اُس اللہ کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ دیہاتی نے کہا: مجھے پڑھنی ہی نہیں آتی تو میں کیا کروں؟ابا نے آواز دیکر ایک شاگرد کو بلایا اور اسے کہا: اسے ساتھ لیکر جاؤ اور وضو کرنا سکھا کر لاؤ۔ دیہاتی اپنی زندگی میں پہلی بار وضو کر کے مسجد پہنچ چکا تھا۔ ابا نے امامت سنبھالنے سے پہلے کہا: اسے میرے پاس اور میرے پہلو میں دائیں طرف کھڑا کر دو۔ متقدیوں نے اسے کھڑا کر دیا۔ ایک تو بیچارے کی سادگی، اوپر سے اس کا دیہاتی لباس اور دیہاتی رویہ۔ بیچارہ ابا کو دیکھ کر رکوع و سجود کرتا رہا۔ دو رکعتوں کے بعد ابا تشہد کے لیے بیٹھے تو اسے بھی قمیض سے پکڑ کر ساتھ بٹھائے رکھا۔ تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو دیہاتی نے ابا کو حیرت سے دیکھا: ابا کو ہاتھ ہلا کر پوچھا، کیا چاہتے ہو میں بھی کھڑا ہو جاؤں؟نمازی حالت نماز میں اس کی اس بآواز حرکت پر ہنسی روکے بے حال ہو رہے تھے۔ ابا نے بھی جوابی ہاتھ ہلا کر اسے کہا: ہاں ہاں اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ۔نماز کے بعد ابا نے اسے انتہائی محبت اور لطافت کے ساتھ اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ تسبیح و تہلیل سے فارغ ہو کر لوگوں سے بآواز بلند کہا: اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے اس سادہ بندے کو آج ہدایت دی ہے اور اسے نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اللہ کرے گا اب یہ آئندہ ہمیشہ کے لیے نماز پڑھتا رہے گا۔ ابا نے دیہاتی سے کہا: اللہ تبارک و تعالی تیری کمیاں کوتاہیاں معاف کرے اور تجھے تیرے مال میں تیرے رزق میں تیرے اہل میں تیری اولاد میں برکت دے۔ آئندہ تو جب بھی کبھی شہر آیا کر تو ادھر آ کر اسلام کے بارے میں مزید سمجھ جایا کر۔ ہم سب اور میرے سارے شاگرد تجھے و ضو نماز قران اور دین کے بارے میں سمجھائیں بتائیں گے۔ دیہاتی نے ان شاء اللہ کہا اور مسجد سے نکل کر چلا گیا۔
کیا آپ یقین کریں گے کہ اس بندے نے اس دن کے بعد کبھی بھی نماز ترک نہ کی!!
ایسا کیوں؟ کیونکہ: (پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے پس انہیں معاف کر دے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے (آل عمران - ۱۵۹)
دیکھیئے: عمامہ دیکھنا ہو تو لوگ مجھ سے اور
آپ سے پانچ گنا بڑا باندھا ہوا بھی مل جائیں گے، انگوٹھی گھڑی اور کپڑے بھی آپ سے اور ہم سے اچھے ہوں گے مگر ہمیں ان سب کی نہیں آپ کے ان کے اخلاق بلکہ نبوی اخلاق جیسے اخلاق کی ضرورت ہے تاکہ آپ کے کہنے سے کوئی بھٹکا ہوا راستے پر آ جائے مزید بدک کر دور نہ چلا جائے۔