۱۔اخلاصِ نیت
دین میں کسی بھی کام کے عنداللہ مقبول ہونے کے لیے اولین شرط اخلاصِ نیت ہے ۔نیت خالص نہ ہو تو بڑے سے بڑا عمل بھی بے کار جاتا ہے ۔ حدیث میں اس کے لیے عالم ، شہید اور سخی کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اتنے بڑے اعمال والے بھی خالص نیت نہ ہونے کی بنا پر جہنم واصل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح داعی کا اجر بھی خالص نیت پر منحصر ہے یعنی دعوت سے اس کی نیت صرف رضائے الہی کا حصول ہو۔ نام و نمود ، شہر ت ، دکھاوا یااپنی علمیت کے اظہارکی نیت داعی کے کام کے لیے اورخود اس کے لیے بھی آخرت کے اعتبار سے زہر قاتل ہے ۔
قرآن مجید کی درج ذیل آیت اور بخاری کی حدیث اس ضمن میں بین دلیل ہیں۔قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ و بذلک امرت وانا اول المسلمین(۶:۶۲ا۔۶۳ا)‘‘کہہ دو میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔اس کا کوئی ساجھی نہیں اور مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں پہلا مسلم ہوں۔’’انما الاعمال بالنیات و انمالکل امری ما نوی‘‘اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر انسان کو نیت کے مطابق ہی اجر حاصل ہوتا ہے ۔’’
۲۔علم وعمل
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم و عمل کی صفت سے آراستہ ہو۔اور ظاہر ہے عمل سے پہلے علم کا سیکھنا ضروری ہے داعی عمل سے مزین ہو لیکن اسے دین کا ضروری علم حاصل نہ ہو تو اس کی دعوت جاندار نہ ہوگی اور اگر علم ہو لیکن عمل نہ ہو تو اس کی دعوت بالکل ہی بے جان ہو گی۔ فذکر بالقرآن من یخاف وعید‘‘پس اس قرآن کے ذریعے سے ان لوگوں کو یاددہانی کر دو جو میری وعید سے ڈرتے ہوں’’۔
قرآن سے نصیحت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کا علم حاصل کرے ۔مزید برآں دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ کتاب وسنت ، ان کے معاون علوم اور عصری علوم میں بھی راسخ ہوتا کہ اس کی دعوت ہر جگہ موثر ہو البتہ اگر اس نے اپنی دعوت کا مخاطب کسی خاص طبقے کو بنایا ہے تو دین کے علم کے ساتھ ساتھ اس طبقے کے بارے میں تفصیلی معلومات کا ہونا بھی ضروری ہے داعی اگر علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کرے تو اس کے قول وفعل میں تضاد اس کی دعوت کو بے جان کر دے گا۔اس کی طرف قرآن مجید نے یوں اشارہ کیا ہے أتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم‘‘کیاتم لوگوں کو نیکی کاحکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ۔’’
۳۔درد مندی اور خیر خواہی
داعی کے لیے نہایت اہم وصف جس کے بغیر اس کی دعوت محض ایک عام گفتگو بن کر رہ جائے گی، وہ الدین النصیحۃ کے مصداق مدعو کی خیر خواہی ،اس کی اخروی نجات اور کامیابی کے لیے درد مندی ہے ۔ اس کے لیے راتوں کو اٹھ کے روناہے۔ یہاں بھی نبی کریم ﷺ کا اسوہ ہی اس میں ہمارے لیے بہترین مثال ہے بعض اوقات آپ سجدے میں رات کا ایک پہر گزار دیتے اور بعض اوقات قیام میں اور اس میں امت کے لیے رو رو کر دعائیں مانگتے ۔ایک رات صرف یہ ایک آیت پڑھتے گزار دی۔ ان تعذبھم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔
فی زمانہ دعوت کی تکنیک سکھانے پر تو بہت زور ہے لیکن اس دردمندی کو پیدا کرنے کی اہمیت پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ انبیائے کرام کی زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ ان کی زندگی اسی درد مندی سے عبارت ہے ۔ ایک ایک انسان کی فکر اور ایک ایک انسان کی نجات اور خیرخواہی کی طلب ان کو نہ دن کو چین لینے دیتی تھی اورنہ راتوں کو سونے دیتی تھی ۔دعوت صرف ایک communication skill نہیں بلکہ ایک درد ہے، ایک فکر ہے اور ایک جذبہ ہے اور جس داعی میں یہ چیز مفقود ہو گی اس کی دعوت دریا کی سطح پر ایک حباب تو بن سکتی ہے مگر ایک گوہر بن کر دریا کے دل میں اتر جائے یہ ایسے داعی کے ذریعے ممکن نہیں۔ داعی.اگر کسی شخص کو گمراہی کے آخری درجے پر بھی دیکھتا ہے تو اس کے لئے کڑھتا ہے فکرمند ہوتا ہے اسے آگ سے بچانے کی سعی کرتا ہے۔ فتوی نہیں لگاتا،خود کش حملہ نہیں کرتا، مبادا توبہ کئے بغیر مر جائے اور جہنم کا ایندھن بن جائے۔
۴۔نرم خوئی
داعی کے لیے ضروری ہے کہ نرمی اس کی طبیعت کا حصہ ہو۔ وہ لوگوں پر مہربانی کرنے والا اور ان کی خطاؤں کو معاف کرنے والا ہو نیز اپنی بات کو نہایت نرم اسلوب میں بیان کرنے پر قاد رہو۔ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے اللہ نے یہ تاکید کی کہ اس کے ساتھ نرمی سے بات کریں۔فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر أو یخشی اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے فرعون جیسے ظالم کو دعوت دینے کے لیے بھی نرم خوئی کی تاکید کی گئی توعام انسان تو بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں کہ ان سے نرمی سے بات کی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ اگر آپ نرم خو نہ ہوتے تو یہ لوگ آپ سے بھاگ جاتے ۔فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک فاعف عنہم واستغفر لہم ‘‘یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ تم ان کے لیے نرم خو ہو۔ اگر تم درشت خو اور سخت دل ہوتے تو تمھارے پاس سے یہ منتشر ہو جاتے، سو ان سے درگزر کرو، ان کے لیے مغفرت چاہو ۔’’
۵۔توکلِ کامل
داعی کے لیے ضروری ہے کہ اسبا ب و وسائل استعمال کرتے ہوئے بھی اس کا کامل بھروسا اللہ کی ذات پر ہو ۔ نہ تو وہ اپنی صلاحیتوں پر اعتمادرکھے اور نہ ہی اسباب و وسائل کو موثر بالذات سمجھے بلکہ اس کا کامل یقین ہو کہ میرا کام صرف محنت کرنا ہے اس کا پھل اللہ کے اختیار میں ہے ۔ اللہ تعالی پر کامل بھروسا اس کو معیت الہی کے احساس سے سرشار کر دے گا اور وہ دعوت کے کسی میدان میں بھی جانے سے نہیں گھبرائے گاکیونکہ اسے یہ علم ہو گا کہ وہ جس کا پیغام پہنچانے جا رہا ہے وہ سب سے زیادہ طاقتور اور قابل بھروسا ہے ۔ انبیائے کرام کا یہی احساس انہیں سخت سے سخت حالات میں بھی ڈگمگانے نہیں دیتا تھا۔ غار ثور میں یہی وہ احساس تھا جس کے تحت حضور ﷺ نے فرمایاتھا کہ لاتحزن ان اللہ معنا اور اسی احساس کے ساتھ حنین کے دن آپ تن تنہا کھڑے یہ فرما رہے تھے کہ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب ‘‘یاد رکھو میں جھوٹا نبی نہیں ہوں میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں’’۔داعی پر جب تک معیت الہی کا احساس غالب نہ ہو اس کے اندر جھجک اور ڈر باقی رہے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بے خوف ہو کر فرعون کے پاس جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ قال لا تخافااننی معکمااسمع و اریٰ۔اللہ نے فرمایا کہ ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا اور دیکھتاہوں۔
۶۔صدق بیانی
سچائی کی صفت داعی کے لیے ناگزیر اہمیت کی حامل ہے ۔ نبی ﷺ جو سب سے بڑے داعی ہیں ان کی قوم نے آپ کو ساحر ، کاہن ، شاعر وغیر ہ سب کچھ کہا مگر جھوٹا کہنے کی جرأت نہ کر سکی بلکہ اس کے برعکس آپ کو صادق کے لقب سے نوازا۔ حتی کہ ابو جہل جیسے دشمن اسلام نے کہا،ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ جو آپ لائے ہیں اس کی تکذیب کرتے ہیں۔خود اللہ تعالی نے سچوں کے ساتھ رہنے کی تاکید کی ۔یا یہا الذین أمنو اتقواللہ وکونوا مع الصادقین۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔سچائی کی صفت داعی کی دعوت میں جان او ر داعی پر لوگوں کا اعتماد پیدا کرتی ہے اور یہی اعتماد داعی کی دعوت کو آگے بڑھاتا ہے۔ داعی جب تک لوگوں کی نظر میں قابل اعتماد نہ ہو اس وقت تک نہ تو وہ اس کی بات موثر طریقے سے سنیں گے اور نہ ہی اس پر غور کے لیے آمادہ ہو ں گے ۔
۷۔ستایش ،صلے اور اجر سے بے نیاز
داعی کسی دنیاوی مقصد ، کسی صلے یا اجر کے لیے تبلیغ و دعوت کا کام نہیں کرتا اور اگر ایسا کرتا ہے تو ایک تو اخلاص نیت کے خلاف ہے جو کہ عنداللہ مردود ہے اور دوسرے جلد یا بدیر اس کی اصل نیت آشکار ہو جائے گی اور اس کی دعوت بے اثر ہو کر رہ جائے گی ۔ عام طور پر لوگ پہلے پہل یہی سمجھتے ہیں کہ شاید اس داعی کا کوئی دنیاوی مقصد ہے جسے یہ دین کی آڑ میں پورا کرنا چاہتاہے ۔ مکہ کے قریش کے ہاں بھی یہ سوچ موجود تھی اسی لیے انہوں نے حضور ﷺ کو مال و دولت ، بادشاہت اور شادی وغیر ہ کی پیش کش کی جسے حضور نے بغیر کسی تردد کے رد کر دیا۔ او ردوسری طرف اپنے چچا سے کہا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں تو میں اپنے مشن سے باز نہیں آؤں گا ۔یا تو میں ختم ہو جاؤں گا اور یا اللہ میرا مشن غالب کر دیں گے ۔انبیائے کرام کے اس رویے کو سورہ ہود میں اللہ کریم نے یوں بیا ن فرمایا۔و یقوم لا أسئالکم علیہ مالا ان اجری الا علی اللہ اے میری قوم میں تم سے اس (تبلیغ) پر مال نہیں مانگتامیر ا اجر تو اللہ پر ہے ۔داعی کے لیے دنیا سے بے نیازی ایک ایسا زادِ راہ ہے جس کے بغیر اس کا سفر کٹنا محال ہے حضور کا ارشاد گرامی ہے ازہد فی الدنیایحبک اللہ وازہد فیمافی ایدی الناس یحبوک دنیا سے بے نیازی کروتو اللہ تم سے محبت کرے گااور لوگوں کی چیزوں سے بے نیاز ہو جاؤتو لوگ تمہارے ساتھ محبت کریں گے۔ ہرنبی نے تو حید کی دعوت کے ساتھ یہ ضرور کہا کہ ا س سے میرا کوئی مادی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ جہاں بھی دینی دعوت، مادی مفادات کا زینہ ہو وہاں اصل میں کاروبار ہوتا ہے دعوت نہیں۔
۸۔مردم شناسی ، موقع شناسی
داعی کے لیے ضروری اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے پاس مردم شناسی اورموقع شناسی کا ملکہ ہو، تا کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ کس موقع پر کس سے کیا بات کرنی ہے اور کب کرنی ہے اور کب نہیں کرنی ہے۔ اگر داعی موقع ،بے موقع بات کرتا رہے گا تو لوگ اس سے بیزا ر ہو جائیں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ نہ صرف اس سے اجتناب کرنے لگیں گے بلکہ متنفر بھی ہو جائیں گے ۔داعی جن لوگوں یا طبقے سے بات کرنا چاہتاہو ان کی علمی استعداد، ان کی روایات اور ان کی معاشرت سے واقف ہونا اس کے لیے ضروری ہے ان تمام چیزوں کا علم اس کی دعوت کو موثر بنائے گا اوروہ ان کی سطح پر جا کر ان سے بات کر سکے گا اس سے داعی اور مدعو کے درمیان کوئی barrier نہیں رہے گا۔امام بخاری نے حضرت علیؓ کا یہ قول تعلیقاً نقل کیا ہے کہ لوگوں کی معرفت کے مطابق ان سے گفتگو کروکیا تم چاہتے ہوکہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے اسی طرح ایک قول امام مسلم نے مقدمہ میں حضرت عبداللہ ابن مسعود کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اگر تم کسی قوم کی ذہنی استعداد سے بالا گفتگو کروتو ان میں سے بعض فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے۔
۹۔تالیف قلبی اور میل جول
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماحول میں لوگوں کے دکھ درد میں شامل رہے ، ان سے میل جول رکھے ، ان کے کام آنے کی کوشش کرے ، ان کا اکرام کرے ، ان کی مہمان نوازی کرے اور جو بھی مدد اس کے لیے ممکن ہو اس کے لیے ہمیشہ دل کھلا رکھے۔ خصوصاً نادار اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات سے رابطہ رکھنا ایک تو ان کی دلجوئی میں معاون ہو گا اور دوسرا دعوت کے پھیلاؤ میں مددگار ہو گا۔نبی کریم ﷺ کا اسوہ یہاں بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔غلاموں ، کمزوروں ، مسکینوں اور ضعفا پر آپ خاص شفقت فرماتے تھے حتی کہ غیر مسلم بھی آپ کے حسن خلق سے محروم نہ تھے۔مکہ مکرمہ میں قریش کی ایذا رسانی کے باوجود آپ کاان کے ساتھ میل جول رکھنا اس بات کے لیے بین دلیل ہے کہ داعی کے لیے ہر ایک سے میل جول رکھنا دعوتی نقطہ نظر سے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
۱۰۔بادل بنے نہ کہ کنواں
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ بادل بن کر برسے نہ کہ کنواں۔ خود لوگوں کے پاس چل کر جائے نہ کہ اس انتظار میں رہے کہ لوگ اس کے پاس چل کر آئیں۔ خو د حضور ﷺ حج کے انتظار میں رہتے اور دوسرے علاقوں اور شہروں سے آئے عربوں سے خود جاکر ملتے۔ بیعت عقبہ اولی اور ثانیہ ایسے ہی ملاقاتوں کی مثالیں ہیں، انہی ملاقاتوں میں آپ کو مدینہ آنے کی دعوت ملی تھی جس نے ہجرت کی راہیں ہموار کیں۔آج کل کے زمانے میں اس کی بہترین مثال تبلیغی جماعت ہے جو شہر شہر ، قریہ قریہ خود چل کر جاتے ہیں او ر اپنا پیغام گھر گھر پہنچاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا نیٹ ورک پوری دنیا میں موجو د ہے اور کوئی رکاوٹ بھی ان کاراستہ نہیں روک سکتی۔ حضور ﷺ کے انتقال کے بعد صحابہ نے یہی طرز عمل اختیار کیا اور جہاد کے علاوہ صرف دعوتی نقطہ نظر سے بھی دوسرے ممالک میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں اسلام کے پیغام کو پہنچایا۔اگر صحابہ بادل نہ بنتے تو اسلام کے پھیلاؤ کی وہ تاریخی رفتا ر ہر گز وجود میں نہ آتی جس کا ریکارڈ آج بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
۱۱۔پروٹو کول کی دیواریں
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے رکھے اس سے میل جول میں نہ توکوئی رکاوٹ ہو اور نہ ہی پروٹوکول کی کوئی دیوار ۔ فی زمانہ مشائخ عظام ، پیران کرام ،حتی کہ دعوت وتبلیغ کے لیے وقف جماعتوں کے علمائے کرام تک پہنچنے کے لیے بھی پروٹوکول کی بہت سی دیواریں عبور کرنا پڑتی ہیں ۔جو کہ دلوں کو توڑنے کا باعث بنتی ہیں حالانکہ داعی کا کام جوڑ ہے نہ کہ توڑ۔اسوہ رسول ﷺبتاتا ہے کہ بسا اوقات مدینے کی کوئی لونڈی بھی حاضر خدمت ہوتی اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کام کے لیے لے جاتی حضور ﷺ سے ملنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔جو بھی چاہتامسجد نبوی میں حاضر ہوتا اور مل لیتا اس کے لیے نہ تو کوئی ضابطے تھے اور نہ ہی کوئی پروٹوکول۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی دعوت ہر طبقے اور ہر طرح کے لوگوں میں موثر تھی۔
۱۲۔داعی، ھادی نہ بنے
داعی کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسے اپنا دائرہ کار یاد رہے کہ اس کا کام صرف دعوت دینا ہے ہدایت دینا نہیں ۔ ہدایت اللہ کے ذمے ہے ۔اللہ جسے چاہتا ہے اپنی حکمت کے مطابق عطا فرماتا ہے ۔ خود حضور ﷺ سے کہا گیا کہ انک لا تہدی من احببت ولکن اللہ یہدی من یشاء و ہو اعلم بالمہتدین‘‘تم جن کو چاہو، ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔’’
کوئی ایک بھی دعوت قبول نہ کرے لیکن داعی کامیاب ہے ۔جب یہ وصف داعی کے ذہن سے اوجھل ہوتا ہے تو لوگوں کے دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ سے وہ غصے اور جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور بعض اوقات دعوت کا راستہ گم کر بیٹھتا ہے لیکن اگر یہ بات ذہن میں پختہ رہے تو وہ نتیجے سے بے نیاز کا م کرتا رہتا ہے ۔اللہ کریم جہاں جتنا چاہے نتیجہ ظاہر فرمادیتے ہیں۔اور اسی پس منظر میں فرما دیا گیا کہ ما علی الرسول الا البلاغ
۱۳۔باطل سے compromise نہ کرے
حق اور باطل میں کشمکش ایک فطری امر ہے۔اگر اہل حق اپنے مشن میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خوشخبری دے دی ہے کہ حق ہی غالب آئے گااور باطل مٹ جائے گا ۔ألَا اِنَّ حِزبَ اللَّہ ہمْ المْفلِحْونَ ‘‘سن رکھو کہ اللہ کی پارٹی ہی فلاح پانے والی ہے!’’جَاء الحَقّْ وَزَہَقَ البَاطِل انَّ البَاطل کانَ زَہْوقًا ‘‘حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا اور باطل نابود ہونے والی چیز ہے۔’’
حق وباطل کی کشمکش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ اصول ملتا ہے کہ حق ،باطل کے ساتھ ساز گاری اور "کچھ لو،کچھ دو" کا معاملہ نہ کرے۔قرآن مجید نے باطل کے ساتھ ساز گاری سے بہت شدید الفاظ کے ساتھ منع کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حق والے اگر اہل باطل کے ساتھ سودے بازی کرسکتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ باطل سے مل کر رہنے کو تیار ہیں جبکہ حق،حق ہے اور باطل اس کے بالکل برعکس۔ان دونوں گروہوں کا شیروشکر ہوکر ایک جگہ بیٹھنا اسی طرح غیر فطری ہے جس طرح آگ اور پانی کا یکجا ہونا۔اس طرح حق اور باطل میں ساز گاری غیر فطری ہے۔حق والوں کاباطل کے ساتھ مل بیٹھنا در حقیقت حق اور باطل کو ملا جلا کرایک ملغوبہ تیار کرنا ہوتاہے اس صورت میں حق کی اثر پزیری متاثر ہوتی ہے جوایک بڑا جرم ہے۔
اہل باطل نے کئی مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سودے بازی کی جسارت کی لیکن انہیں ہر مرتبہ منہ کی کھانی پڑی۔کفار مکہ نے سر توڑ کوششیں کیں کہ آپ ہمارے خداؤں کو برا نہ کہیں ،ہم آپ کے خدا کوبرا نہیں کہتے۔ اسی طرح کبھی باطل نبی کی جانب سے پیش کش آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک علاقے کے نبی بن جائیں اور مجھے دوسرا علاقہ دے دیں،کبھی بہترین خاندان میں شادی،مکہ کی سرداری اور مال ودولت کے ڈھیروں کی پیش کش کی گئی ،کبھی آپ کے چچا ،ابوطالب کو درمیان میں لا کر سفارش کی گئی کہ آپ باطل سے ساز گاری پیدا کرلیں۔لیکن زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جواب ا نہیں ملا وہ عزیمت کی سنہری مثال ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں تو بھی میں اپنا مشن نہ چھوڑوں گا۔