مولانا اصلاحی ؒ نے اپنی کتاب ‘‘دعوت دین کی اہمیت اور تقاضے ’’ میں دعوت کے کچھ شرائط بیان کیے ہیں ۔ ہم انہی شرائط کا خلاصہ یہاں کیے دیتے ہیں۔
پہلی شرط ==جو تبلیغ کرنی ہے پہلے خود صدق دل سے اس پر ایمان لائیں
مولانااصلاحیؒ کی رائے میں دعوت کے لیے ضروری ہے کہ داعی پہلے خود اس بات پر صدق دل سے ایمان لائے جس کی دعوت وہ دینے جا رہا ہے ۔ مولاناکہتے ہیں کہ داعی کو خود دریا میں اترناپڑے گا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خود تو دریا کنارے کھڑا رہے اور دوسروں کو دریا میں اترنے کی دعوت دے ۔ اس کی تائید میں وہ سورہ بقرۃ کی آیت ۲۸۵ پیش کرتے ہیں۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْن ‘‘رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس پر اس کے رب کی جانب سے اتاری گئی اور مومنین ایمان لائے ’’
تدبر میں لکھتے ہیں کہ ‘‘یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ کتابِ الٰہی پر ایمان لانے والوں میں سب سے پہلے جس کا ذکر ہوا ہے وہ خود رسول کی ذات ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں قانون کی فرماں برداری اور اطاعت کے معاملے میں پیغمبربھی اسی سطح پر ہے جس پر عام اہل ایمان ہیں۔ دنیوی بادشاہ اپنی رعایا کو جو قانون دیتے ہیں وہ خود اس قانون سے بالا تر ہوتے ہیں لیکن خدا کے قانون میں خود اس قانون کا لانے والا نہ صرف یہ کہ اس کے تحت ہوتا ہے بلکہ اسے سب سے آگے بڑھ کر اَنَا اَوَّلْ المْؤمِنِینَ اور اَنَا اَوَّلْ المْسلِمِینَ کہتے ہوئے اس کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالنا پڑتا ہے۔’’ (اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ا ، ص ۶۴۸، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
گویا داعی کودعوت سب سے پہلے خود اپنی ذات کو پیش کرنی ہے اور خود اس رنگ میں رنگنا ہے جس رنگ کی دعوت وہ لوگوں کو دے رہا ہو۔
دوسری شرط ==آدمی جس حق پر ایمان لایا ہے اس کی زبان سے شہادت دے
مولانا کی رائے میں جس حق پر انسان ایمان لایا ہے زبان سے اس کی شہادت دے یعنی دعوت دے اور اگر باوجود قدرت رکھنے کے وہ یہ دعوت نہیں دیتا تو گویا وہ ‘‘گونگا شیطان ’’ ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں اگر کوئی مصلحت پیش نظر ہو تو وہ بھی حق کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ اپنے مفاد کے لیے ۔مثلاً کوئی انسان اس لیے خاموش ہے کہ وہ صحیح موقع محل یا صحیح مخاطب کے انتظار میں ہے تو یہ تو ٹھیک ہے وگرنہ بغیر کسی حقیقی دینی مصلحت کے اگر وہ دعوت نہیں دتیا تو پھر یا تو منافق ہے اور یا بے غیر ت اور بے حمیت۔ مولانا نے اس شرط کی دلیل درج ذیل آیت سے دی ہے
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ (آل عمران ۳ :۸۷ا)‘‘اور یاد کرو جب کہ اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا جن کو کتاب دی گئی کہ تم لوگوں کے سامنے اس کتاب کو اچھی طرح ظاہر کرنا، اسے چھپانا مت’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲ ، ص ۲۰۶، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
تیسری شرط ==شہادت صرف قول سے ہی نہ دی جائے بلکہ عمل سے بھی دی جائے
مولانا کے خیا ل میں یہ بھی دعوت کے شرائط میں سے ہے کہ انسان جس چیز کی دعوت دے رہا ہے اس کا عمل اس کے مطابق ہو یعنی اس کا عمل اس کی دعوت کی شہادت دے رہا ہو۔ اس کی مثال میں انہوں نے منافقین کا ذکر کیا ہے جو حضور کی مجلس میں آتے اور قسمیں کھا کھا کر بیان کرتے کہ ہم آپ کو تسلیم کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں لیکن اللہ نے ان کو جھوٹے اور منافق قراردیا۔اس کی مثال درج ذیل آیات ہیں اذا جاء ک المنافقون قالوا نشہد انک لرسول اللہ واللہ یعلم انک لرسولہ واللہ یشہدان المنافقین لکذبون(۶۳:ا)‘‘جب منافق تمہارے پاس آتے ہیں، کہتے ہیں، ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک تم اس کے رسول ہو اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین بالکل جھوٹے ہیں۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۸ ، ص ۳۹۶، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخروما ہم بمومنین۔ یخدعون اللہ والذین امنواوما یخدعون الا انفسہم وما یشعرون(۲:۸۔۹)
‘‘اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔یہ لوگ اللہ کو اور ایمان لانے والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکا دے رہے ہیں اور اس کا احساس نہیں کر رہے ہیں۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ا ، ص ۱۱۷، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
چوتھی شرط==شہادت ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر دی جائے
دعوت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے جماعتی ، گروہی ، قومی اور مسلکی تعصب سے بالا تر ہو کر دی جائے اور صرف اسی خالص حق کی دعوت دی جائے جسے اللہ کے رسول لے کر آئے ہیں نہ کسی کی حمایت کا جذبہ اسے حق سے منحر ف کر سکے اور نہ ہی کسی کی دشمنی اس سے خلافِ حق بات کہلوا سکے۔اس کی دلیل یہ آیات ہیں۔یا یہاالذین آمنوا کونو ا قوامین للہ شہدا بالقسط ولا یجر منکم شنان قوم علی الا تعدلوا۔( ۵:۸)‘‘اے ایمان والو، عدل کے علم بردار بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲ ، ص ۴۶۸، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْتُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا (۴:۱۳۵)
‘‘اے ایمان والو، حق پر جمے رہو اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے۔ اگرچہ یہ شہادت خود تمھاری اپنی ذات، تمھارے والدین اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کا سب سے زیادہ حق دار ہے تو تم خواہش کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ اور اگر کج کرو گے یا اعراض کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ، جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲ ، ص ۴۰۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)مولانااس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مجرد اس پر(انصاف) قائم رہنا ہی تمھاری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ تم دنیا کے سامنے اللہ کی طرف سے اس کے داعی اور گواہ بھی ہو جیسا کہ فرمایا ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (اور اسی طرح ہم نے تم کو وسط شاہراہ پر قائم رہنے والی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہی دے)مولاناکی رائے میں اس حق اور عدل کی دعوت اور شہادت پر مسلمان مامور کیے گیے ہیں۔
پانچویں شرط==اس پورے حق کی شہادت دی جائے جو خدا کی طرف سے اترا ہے
مولانا کی رائے میں دعوت دین کی یہ اہم شرط ہے کہ پورے کے پورے دین کی دعوت دی جائے ۔ یہ نہ ہو کہ دعوت ادھور ی ہو یا دین میں اپنی من پسند باتوں کی ہو ۔ اور اس عمل میں کسی ملامت یا مخالفت کی پروا نہ کی جائے۔اور اس شرط کی دلیل مولانا ان آیات سے لاتے ہیں جن میں خو د نبی ﷺ کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ آپ اللہ کا پورا پیغام پہنچانے کے مکلف ہیں اور اس میں کسی کمی بیشی کے مجاز نہیں۔یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس(۵:۶۷)‘‘ اے رسول، تمہاری طرف جو چیز تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اس کو اچھی طرح پہنچا دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ لوگوں سے تمہاری حفاظت کرے گا۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۲ ، ص ۵۶۰، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
الذین یبلغون رسالۃ اللہ و یخشونہ ولا یخشون احدا الا اللہ (۳۳ : ۳۹)‘‘وہ اللہ کے پیغاموں کو پہنچاتے تھے اور اسی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔’’(اصلاحی، امین احسن، ‘‘تدبر قرآن’’، ج ۶ ، ص ۲۳۱، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
چھٹی شرط==جب ضرورت ہو تو اللہ کے دین کی شہادت جان دے کر دی جائے
اس شرط کے تحت مولانا کی رائے یہ ہے کہ اگر کبھی دعوت و تبلیغ کی راہ میں یہ مرحلہ آجائے کہ جان بھی قربان کرنی پڑ جائے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے اور یہی داعی حق کے سچ اور حق پر ہونے کی علامت ہے کہ وہ اس کے لیے جان قربان کرنا بھی آسان ہوتا ہے ۔