نظمیں او رغزلیں

مصنف : مصطفی زیدی

سلسلہ : شاعری

شمارہ : فروری 2021

برصغیر کی تقسیم کے صرف دس سال بعد 1957ء میں مصطفیٰ زیدی نے کیا شاہکار نظم کہی تھی، لگتا ہے کہ جیسے وقت رک سا گیا ہو اور یہ آج کے حالات کا نوحہ ہو.... طبقاتی تضادات و عذاب اور جبر کے احساس پر مبنی اس نظم کا عنوان ہے....... 
'' بنامِ وطن '' 
کون ہے آج طلبگارِ نیاز و تکریم؟
وہی ہر عہد کا جبروت، وہی کَل کے لئیم
وہی عیّار گھرانے، وہی فرزانہ حکیم
وہی تم لائقِ صد تذکرہ و صد تقویم
تُم وہی دُشمنِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں
تم نے ہر عہد میں ہر نسل سے غدّاری کی 
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی خودداری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
آج تم مجھ سے مِری جنسِ گراں مانگتے ہو؟
حَلَفِ ذہن و وفاداریِ جاں مانگتے ہو؟
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو 
طائفے والوں سے، ڈھولک کی صدا سے مانگو
اپنے دربانوں سے بدتر فُقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو
مجھ سے پوچھو گے تو خنجر سے عُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے، تو لہو بولے گا
تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے 
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیئے
اپنی آسائشِ یَک عُمرِ گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے، مگر تم نہ جیئے
عِلم نے خونِ رگِ جانِ دیا اور نہ مَرا
عِلم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مَرا
عِلم! سقراط کی آواز ہے، عیسےٰ کا لہو
عِلم! گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو
عِلم! عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
عِلم! بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسوُ
وادیِ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
جو ان اشکوں پہ ہنسے گا، وہ جھلس جائے گا
تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں؟
عصمتِ حرف کا، یا دار کا غمخوار بنوں؟
مشعلوں کا، یا اندھیروں کا طلبگار بنوں؟
کس کے خرمن کے لیے شعلہِ اسرار بنوں؟
کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں؟
قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں؟
صُبحِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
بالِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے
یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی؟ بولو!
کس قفس سے مری پرواز رُکے گی؟ بولو!
کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک؟
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتارِ فلک؟
کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک؟
کس کی دیوار سے سِمٹی ہے چنبیلی کی مہک؟
دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے؟
کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے؟
با وفاداریِ رہوار و با تکریمِ عَلَم
با گُہر باریِ الفاظِ صَنادیدِ عَجَم
با صدائے جرسِ قافلہِ اہلِ قلم
مجھ کو ہر قطرہء خُونِ شُہدا! تیری قسم
منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
جُھک پڑے گا درِ زنداں مرے سر سے پہلے
آج تم رام کے مونس، نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں، نہ مُسلمان کے دوست
نہ تم الحاد کے حامی ہو، نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو، نہ قرآن کے دوست
تم تو سِکُّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اُٹھا لاتے ہو بازاروں میں
ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والو!
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والو!
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والو!
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والو!
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رَگیں ٹوٹیں گی؟
کونپلیں آج نہ پُھوٹیں گی، تو کل پُھوٹیں گی
کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہو گی باہم 
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم؟
رزق برتر ہے کہ یہ شعلہ بداماں ایٹم؟
گھر کے چُولہے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کَلی اچھی ہے؟
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے؟
ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے؟ 
ایک اِک خوشہِ گندم تمہیں کیا کہتا ہے؟
ایک اِک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے؟
آگ اچھی ہے کہ دستورِ نَمُو اچھا ہے؟
محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
تم کو کیا کہہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟
بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو!
تمغہِ مَکر سے سینوں کو سجانے والو!
کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والو!
برچھیوں والو! کماں والو! نشانے والو!
دل کی درگاہ میں پِندار مِٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جُھکا کر آؤ
کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے 
مصر میں جلوہءِ یوسف کی دکاں جلتی ہے
عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
بھیم کا گُرز اور اَرجُن کی کماں جلتی ہے
چُوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح
صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں 
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے عُمرِ خضر مانگتے ہیں
اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں
تُو ہی بول اے درِ زنداں، شبِ غم تُو ہی بتا
کیا یہی ہے مِرے بے نام شہیدوں کا پتا؟
کیا یہی ہے مِرے معیارِ جنوں کا رستا؟
دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا؟
اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کیساتھ
اک نہ اک خوف گاہ بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
اتنی ویراں تو کبھی صبحِ بیاباں بھی نہ تھی
اتنی پُرخار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
اے وطن! کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں؟
کس شقی کے یہ طمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں؟
اے وطن! یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے؟
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے؟
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے؟
ایک اِک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے؟
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھا لی تجھ سے؟
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے؟
رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں؟
صنعتیں کیسی ہیں، تہذیب کے خم کیسے ہیں؟
اے ہڑپّہ! ترے مجبور قدم کیسے ہیں؟
بول اے ٹیکسلا! تیرے وہ صنم کیسے ہیں؟
ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے؟
مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے؟
عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول؟
بولہب سچا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول؟
طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول؟
مسجدیں عِلم کا گھر ہیں کہ مِشَن کے اسکول؟
آج جو بیتی ہے، کیا کل بھی یہی بیتے گی؟
بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی؟
٭٭٭
ادا جعفری
دیپ تھا یا تارا، کیا جانے 
دل میں کیوں ڈوبا، کیا جانے 
گُل پر کیا کچھ بیت گئی ہے 
البیلا جھونکا کیا جانے 
آس کی میلی چادر اوڑھے 
وہ بھی تھا مجھ سا، کیا جانے 
رِیت بھی اپنی، رُت بھی اپنی 
دل رسمِ دنیا کیا جانے 
انگلی تھام کے چلنے والا 
نگری کا رستا کیا جانے 
کتنے موڑ ابھی باقی ہیں 
تم جانو، سایا کیا جانے 
کون کھلونا ٹوٹ گیا ہے 
بالک بے پروا کیا جانے 
ممتا اوٹ دہکتے سورج 
آنکھوں کا تارا کیا جانے
٭٭٭
جون ایلیا
تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
تیرے ساتھ تری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے
حسن سے عرض شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے
ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے
ہم کو اور تو کچھ نہیں سوجھا البتہ اس کے دل میں
سوز رقابت پیدا کر کے اس کی نیند اڑائی ہے
ہم دونوں مل کر بھی دلوں کی تنہائی میں بھٹکیں گے
پاگل کچھ تو سوچ یہ تو نے کیسی شکل بنائی ہے
عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
کیاری میں پانی ٹھہرا ہے دیواروں پر کائی ہے
حسن کے جانے کتنے چہرے حسن کے جانے کتنے نام
عشق کا پیشہ حسن پرستی عشق بڑا ہرجائی ہے
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے
ایک تو اتنا حبس ہے پھر میں سانسیں روکے بیٹھا ہوں
ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ہے
٭٭٭
مصطفی زیدی ، ادا جعفری، جون ایلیا