دعوت کی اہمیت
اللہ تعالی نے انسا ن کی رہنمائی کے لیے تین طر ح کے انتظامات کیے ہیں۔ایک ہے فطری رہنمائی یا innate guidance جو انسان کو اس کی پیدایش کے ساتھ ہی عطا کر دی جاتی ہے ۔قرآن مجید وہدینا ہ النجدین ۔۔۔۔(سورہ البلد آیت ۰ا)اور انا ہدینا ہ السبیل اما شاکرا و اما کفورا ( سورہ الدھر آیت ۳
میں اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔دوسری رہنمائی کائنات کی نشانیوں کی صورت میں عطا کی گئی ہے ۔انسان اگرکائنات کے بارے میں معمولی غور وفکر سے بھی کام لے تو اسے اس نتیجے تک پہنچنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں بلکہ ایک با مقصد تخلیق ہے اور کسی ایک ہی ہستی کی تخلیق ہے ۔ لو کا ن فیہا الہۃ الا اللہ لفسد تا(سورہ الانبیا آیت ۲۲) میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ایک ہی خالق ہے اور ایک ہی اس کائنات کا چلانے والا ہے ۔ تیسری قسم کی رہنمائی انبیا اور آسمانی کتابوں کی صورت میں عطا کی گئی ہے ۔تورات ، زبور ، انجیل اور قرآن مجید اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے نسیان کا شکار ہو جانے والی مخلوق ہے اس لیے اسے بار بار یادہانی کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ اس کی اپنی فطرت اور کائنات کی نشانیاں اسے مسلسل یاد دہانی کرواتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی یہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے ا س لیے اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے انبیا اور آسمانی کتابوں کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع فرمایاتا کہ انسان کے پاس کسی قسم کا عذر نہ رہے ۔ آسمانی کتابیں اور انبیا علیہم السلام بھی اصل میں وعدہ الست کی یاد دہانی کرواتے ہیں اور اس وعد ے کے تقاضے پورا کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اب چونکہ حضور ﷺ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم فرما دیا گیا اس لیے دعوت کی یہ ذمہ داری اس امت کی طرف منتقل ہو گئی ہے ۔
دعوت کی اہمیت اور قرآن مجید
ہمارے خیال میں قرآن مجید کی درج ذیل آیا ت ہر ہر مسلمان کے لیے دعوت کی اساس فراہم کرتی ہیں۔
والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق و تواصوا بالصبر( سورہ العصر)
‘‘زمانہ شاہد ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ بجز ان کے جو ایمان لائے ، اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کوصبر کی نصیحت کی’’ (‘‘تدبر قرآن’’، ج ۹ ، ص ا۵۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
اس سورۃ کی رو سے اسلام کا اپنے ماننے والوں سے صرف یہی تقاضا نہیں کہ وہ خود اس پر عمل کریں بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح بھی کی جائے۔اور اس مشن میں اگر کوئی ناگوار امر پیش آ جائے تو اس پر صبر بھی کیا جائے ۔
سورہ العصر کے بعد قرآن کا دوسرا مقام جو دعوت کو ہر ہر مسلمان کے ذمہ داری قرار دے رہا ہے وہ سورہ یوسف کی آیت ۰۸ا ہے ۔قْل ہٰذِہٰ سَبِیلِی اَدعْوآ اِلٰی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی۔۔۔۔
‘‘کہہ دو، یہ میری راہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور وہ لوگ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے ۔۔۔۔۔’’(تدبر قرآن’’، ج ۹ ، ص ا۵۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
فردکے علاوہ امت کو بحثیت امت بھی یہ ذمہ داری منتقل کی گئی ہے ۔جس کی طرف یہ آیات رہنمائی کرتی ہیں۔
وَلتَکْن مِّنکْم اْمۃَّ یَّدعْونَ اِلیٰ الخَیرِ وَیَامْرْونَ بِالمَعرْوفِ وَیَنہَونَ عَنِ المْنکَرِ۔ (آل عمران آیت۰۴ا )
‘‘اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے ۔’’(تدبر قرآن’’، ج ۹ ، ص ا۵۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
کْنتْم خَیرَ اْمٍَّۃ اْخرِجَت لِلنَّاسِ تَامْرْونَ بِالمَعرْوفِ وَتَنہَونَ عَنِ المْنکَرِ ۔۔۔۔ (آل عمران آیت۰اا)
‘‘تم بہترین امت ہو، لوگوں کی رہنمائی کے لیے مبعوث کیے گئے ہو، معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو ۔۔۔’’(تدبر قرآن’’، ج ۹ ، ص ا۵۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
لیکن چونکہ پوری امت کے لیے یہ ممکن نہ تھااس لیے ایک دوسرے مقام پر اس کو واضح کر دیا گیا کہ کم از کم ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جو دعوت دین ہی کو اپنا فل ٹائم مشغلہ بنائیں ، دین میں پوری طرح تفقہ حاصل کریں اور پھر عوام الناس کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے آخرت کی زندگی کے بارے میں خبردار کریں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشا د ہے۔
‘‘وَمَا کانَ المْؤمِنْونَ لیِنفِرْواکا فَّۃً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِ فِرقَۃٍ مِنہم طَائِفَۃلِیتَفَقہَّوا فیِ الدیِّنِ وَلیِنذِرْوا قَوَمہم اذَا رَجَعْوا الیہم لعلہم یحذَرْونَ’’۔ (التوبہ 9:122)
‘‘یہ تو نہ تھا کہ سب ہی مسلمان اٹھتے تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو بھی آگاہ کرتے جب کہ وہ ان کی طرف لوٹتے کہ وہ بھی احتیاط کرنے والے بنتے۔’’ (تدبر قرآن’’، ج ۹ ، ص ا۵۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
دعوت کی فضیلت اور قرآن مجید
دعوت کی فضیلت کے باب میں درج ذیل آیت ہی کا فی ہے کیونکہ اللہ کریم نے دعوت الی اللہ کو بہترین قول قرار دیا ہے اور جس کو اللہ خود بہترین قرار دے دے وہ کسی اور دلیل کا محتاج نہیں۔
‘‘ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ و عمل صالحاو قال اننی من المسلمین۔(فصلت؍حم السجدہ ۳۳)
‘‘ اور اس سے بڑھ کر اچھی بات کس کی ہو گی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں!’’ (تدبر قرآن، ج ۹ ، ص ا۵۳، فاران فاؤنڈیشن ،لاہور)
دعوت کی اہمیت اور احادیث نبوی ﷺ
من رای منکم منکراً فلیغیرہ، بِیَدِہٰ، فاِن لم یَستَطِع فبلسانہ، وان لم یستطع فبقَلبہٰ وذالک اضعف الایمان۔(صحیح مسلم ، کتا ب الایمان)
تم میں جو شخص بھی کوئی غلط کام ہوتا ہوا دیکھے ،ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اْسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اْسے زبان سے روک دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو وہ دل سے اْسے برا سمجھے۔ البتہ یہ کم زوریِ ایمان کادرجہ ہے۔
رواہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: کلکم راع، وکلکم مسؤل عن رعیتہ، فالامام راع وھو مسؤل عن رعیتہ، والرجل راع علی اھل بیتہ وھو مسؤل عن رعیتہ، والمراۃ راعیۃ فی بیت زوجھا وھی مسؤلۃ عن رعیتھا والرجل راع فی مال ابیہ وھو مسؤل عن رعیتہ، فکلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔(صحیح بخاری ، کتاب فی الاستقراض)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں ہر شخص راعی ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ وہ امام جو لوگوں کا راعی ہے، وہ اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ وہ مرد جو کہ اپنے گھروالوں کا نگراں ہے، وہ اپنے گھروالوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔ وہ عورت، جو اپنے شوہر کے گھر والوں کی ذمے دار ہے، وہ اپنے شوہر کے گھر اور آل اولاد کے بارے میں جواب دہ ہے۔ وہ فرد جو کہ ذمے دار ہے، اپنے باپ کے مال کا، وہ اپنے باپ کے مال اور رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔ پس تم میں کا ہر شخص نگراں وذمے دار ہے اور ہر شخص اپنی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔
بَلِّغْوا عَنِّی وَلَواٰیۃ۔(ریاض الصالحین ،ج۲، کتاب العلم)اگر تمھیں میری ایک حدیث بھی معلوم ہوتو اسے لوگوں تک پہنچادو
عَن نَافِعٍ، عَنِ ابنِ عْمَرَ، رَضیَِ اللّہَْ عَنہْ، قَالَ: اِنَّ رَسْولَ اللہَِّ صَلیَّ اللہَّْ عَلیہَِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَتَامْرْنَّ بِالمَعرْوفِ، وَلَتَنہَوْنَّ عَنِ المْنَکرِا َو لیَْسَلِّطَنَّ اللّہ َْ عَلیکَْم شِرَارَْکم، فَلََیسْومْنَْکم سْوء َ العَذَابِ، ثْمَّ َیدعْو خَِیارکْم فَلَا ْیستَجَابْ لَْہم، لَتاَمْرْنَّ بِالمَعرْوفِ، وَلَتَنہَوْنَّ عَنِ المْنکَرِ، َو لیََبعَثَنَّ اللَّْہ عَلَْیکم مَن لَا َیرحَمْ صَغِیرَْکم، وَلَا ْیوَقِّرْ کَبیِرکَْم (الامر بالمعروف والنھی عن المنکرلابن أبی الدنیا)
تم بھلائیوں کا حکم کرو، برائیوں سے روکو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تمھارے اوپر شریروں کو مسلط کردے۔ پھر وہ تمہیں براعذاب دیں پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہ ہوگی۔تم بھلائیوں کا حکم کرو، برائیوں سے روکو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ ایسے لوگ بھیج دے جو تمہارے چھوٹوں پر رحم نہ کریں اور تمہارے بڑوں کی عزت نہ کریں۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عم زاد وداماد اور دعوتِ حق کی راہ میں ہر طرح سے معاون ومددگار رہنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
فواللہ لان یھدی اللّٰہ بک رجلاً واحداً خیر من حمرالنعم۔(ریاض الصالحین ،ج۲، کتاب العلم)
اللہ کی قسم، اگر اللہ تمھارے ذریعے سے اگر ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو وہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔
یہ سب وہ چیزیں ہیں جن سے دعوتِ دین کی اہمیت وضرورت واضح ہوتی ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہر مسلمان کو اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق پوری تن دہی اور اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عائد کردہ اس ذمے داری میں لگ جانا چاہیے۔ بہ صورت دیگر اللہ تعالیٰ کی سخت باز پرس سے نہیں بچا جاسکتا۔اس کے علاوہ درج ذیل احادیث بھی اس ضمن میں شاہد ہیں کہ دعوت دین حسب استطاعت ہر مسلمان کے ذمے ہے۔
‘فلیبلغ الشاہد الغائب’’ (صحیح بخاری ، کتاب الحج )جو حاضر ہیں وہ غائب کو پہنچا دیں
الدین النصیحۃ ۔ دین تو خیر خواہی ہے (مسلم ،ج ا، کتاب الایمان،با ب بیا ن الدین النصیحۃ)