فکر ونظر
سیاست سے آگے
آصف محمود
ایک بات تو بتائیے، کیا آپ سیاست پر لمبی لمبی بحثیں کر کے تھکتے نہیں؟ کیا آپ کو کبھی اُکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی؟ کیا کبھی آپ کا دل نہیں چاہا کہ سیاست کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کر لی جائے؟ کیا زندگی صرف آسُودہ حال سیاسی اَشرافیہ کی ہم نِصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے اِبلاغ کا نام ہے یا اس کہکشاں میں کچھ اور رنگ بھی پنہاں ہیں؟
ایک سماج کے بہت سے رنگ اور متعدّد حوالے ہوتے ہیں۔ توازُن تبھی قائم رہتا ہے جب سب رنگوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ ہم اس توازن سے محروم ہو چکے۔ ہمارے ہاں اب سب کچھ صرف سیاست ہے۔ معلوم نہیں یہ خُوئے غلامی ہے، احساسِ کمتری یا ردِّ عمل کی غیر متوازن نفسیات کا آزار۔ لیکن ہم سیاست کے علاوہ کسی موضوع پر بات کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں زندگی کی ساری رنگینیاں گویا اس میں سمٹ آئی ہیں کہ صبح دم اپنے قائدِ انقلاب کے دو درجن قصیدے پڑھ لیے، سہ پہر قائدِ محترم کی بصیرت پر بغلیں بجا لیں اور شام ڈھلنے لگی تو دوسروں کے قائدِ انقلاب کی ہجو میں دو گرہیں لگا کر سو رہے۔ ہم نے اپنی ذاتی زندگیوں کو بھی سیاست زدہ کر چھوڑا ہے۔ ہمارے ادبی ذوق اور حسِّ لطیف کی ترک تازی کی حد بھی اب یہی ہے کہ مَن مچلا تو سیاست پر طبع آزمائی کر ڈالی۔ اسی کا نام اب مِزاح ہے۔ واٹس ایپ گروپ بن چکے ہیں لیکن وہاں بھی سیاست فرمائی جاتی ہے۔ہم فیس بک پر بھی صرف سیاست کرتے ہیں۔ سمّاج کے سُلگتے اور چِنگھاڑتے موضوعات پر بات کرنے کو کسی کے پاس فرصت نہیں۔ ہر قائد کے حصے کا بے وقوف شمشیرِ بے نیام لیے سر بکف پھرتا ہے کہ کسی سے الجھے اور پھر اس کی بلا سے کہ برسوں کا تعلقِ خاطر برقرار رہ پائے یا نہیں۔ آپ کسی جنازے میں چلے جائیے۔ ابھی لوگ قبر پر مٹی ڈال کر فارغ نہیں ہوئے ہوں گے کہ کوئی صاحب آ کر ارشاد فرمائیں گے: سنائیں جی پھر سیاست کیا کہہ رہی ہے آج کل؟ کسی ولیمے کی تقریب میں چلے جائیے، کسی کی عیادت کرنے چلے جائیے، دوستوں کی کسی محفل میں جا بیٹھیے، کسی دفتر یا کسی مارکیٹ میں چلے جائیے، ہر جگہ آپ کو سیاست پر بحث فرماتے افلاطون ملیں گے۔ جس کی بوڑھی ماں اور باپ کو ساری عمر کھانسی کی ڈھنگ سے دوا نہیں ملی ہو گی، وہ کلثوم نواز کی صحت جاننا چاہے گا اور جس کے اہلِ خانہ نے کسی ایک ساون کا حبس بھی اے سی میں نہیں گزارا ہو گا، وہ اس بات پر لڑنے مرنے پر اتر آئے گا کہ جیل میں میاں صاحب کو اے سی کی سُہولت تاخیر سے کیوں دی گئی ۔جس کے پاس بچوں کی فیس دینے کو پیسے نہیں ہوں گے وہ بلاول، مریم، حمزہ اور جنید صفدر کے سیاسی مستقبل پر لیکچر دے رہا ہو گا۔
عام آدمی کے پاس پینے کو صاف پانی ہے نہ کھانے کو خالص خوراک۔ ہردو ماہ بعد پتا چلتا ہے جو دوائی برسوں سے آپ کھاتے آئے ہیں، وہ تو زہر تھا۔ انصاف کا یہ عالَم ہے کہ کسی پر جھوٹا کیس بن جائے تو اس سے جان چھڑاتے چھڑاتے عمر بیت جاتی ہے۔ تعلیم کے نام پر کاروبار ہو رہے ہیں اور عوام کی رگوں سے لہو نچوڑا جا رہا ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ گوالے کی منت کرنا پڑتی ہے کہ دودھ میں جتنا چاہے پانی ملا لے لیکن یہ زہریلے کیمیکل نہ ڈالے۔ ایسے ایسے مسائل ہیں کہ لوگوں کے چہرے بے رونق ہو گئے۔ آپ سرِ راہ چلتے افراد کو کبھی غور سے دیکھیے۔ بشاشت اور رونق غائب ہے، آنکھوں میں اداسیوں کے ڈیرے ہیں۔ پریشانیوں نے ان سے مسکراہٹیں تک چھین لی ہیں۔ لیکن یہ جب اور جہاں اکٹھے ہوتے ہیں، ان کی بحث کا موضوع کوئی اور ہوتا ہے۔ یہ اپنے اپنے سیاسی آقا کے غم میں دُبلے ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ مل بیٹھیں تو اپنی محرومیوں پر بات کر لیں۔
اخبارات اور چینلز بھی اسی کارِ خیر میں مصروف ہیں۔ کیا صفحہ اول، کیا ادارتی صفحہ اور کیا ٹاک شو۔ ہر جگہ یہی سیاسی برہمن زیرِ بحث ہیں۔ سیاست زیرِ بحث آنا بری بات نہیں۔ اگر اس کا محور عام آدمی یا اس کے مسائل ہوں تو یہ خیر کی علامت بھی ہے لیکن ہمارے ہاں عصبیت کے آزار نے فرد اور اس کے مسائل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ندرتِ خیال نایاب ہے اور چاند ماری کو رستم قطار اندر قطار موجود۔ الا ماشاء اللہ، پڑھے بِنا اور سنے بغیر بتایا جا سکتا ہے کہ کس سینیئر تجزیہ کار اور معروف صحافی نے کس سیاسی آقا کی ترجمانی کی ہو گی۔ غیر مشروط اطاعت اور کامل تعصب کے طَوق گلے میں ڈال کر تجزیے فرمائے جاتے ہیں۔ خواہش اب خبر ہے اور دستِ سوال کو تجزیہ کہا جاتا ہے۔
بطور سماج ہمیں اب یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمیں صرف سیاست سے جی بہلاتے رہنا ہے یا سماج کے دیگر سنجیدہ اور اہم گوشوں کی طرف بھی دیکھنا ہے۔ اگر ہم توازُن قائم رکھ سکیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست ہی سب کچھ نہیں۔ ایک سماج کو اور بھی بہت سے پہلوؤں پر توجُّہ دینا ہوتی ہے اور سماجیات اس وقت ان میں سے اہم ترین پہلو ہے۔ ہمیں سماج کی تعمیر کرنا ہے تو فرد کی تربیت کرنا ہو گی۔
کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ پریس کانفرنس تو ایک آدمی کرتا ہے، یہ اس کے دائیں بائیں ایک لشکر کیوں کھڑا ہو جاتا ہے؟ آپ غور کریں تو معلوم ہو یہ عزتِ نفس سے عاری، وہ قابلِ رحم طبقہ ہے جو اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے اس سطح پر گر جاتا ہے۔ یہ عزتِ نفس کیسے آئے گی جو قوم کو بتائے گی کہ کسی مشہور آدمی کے ساتھ فوٹو بنوا لینے یا اس کے پیچھے سے سر نکال لینے سے بندہ معتبر نہیں ہو جاتا۔اس کام کیلیے دیگر میدان اس کی صلاحیتوں کے منتظر ہیں، اسے وہاں طبع آزمائی کرنی چاہیے۔ یہ کام فرد کی تربیت سے ہو گا۔ فرد کی تربیت ہو گی تو سماج کی تہذیب ہوگی۔
ابھی تو جو حال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ تربیت کے لیے ہم نے کوئی ادارہ باقی نہیں چھوڑا۔ تعلیمی ادارے کاروبار بن گئے اور مدارس اپنے اپنے مکتبِ فکر کے رضاکار پیدا کرنے تک محدود۔ کردار سازی کا عمل قصہ ماضی بن چکا۔ اب سطحیت کا ایک طوفانِ بد تمیزی ہے اور ہم۔ ابھی عید الاضحیٰ گزری کیا کسی ایک چینل پر بھی کسی نے سوال اٹھایا کہ سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟
ہر طرف سانڈوں اور بکروں کی ماڈلنگ تھی یا پکوانوں کے تذکرے۔ سب کچھ تھا اگر نہیں تھا تو یہ فلسفہ قربانی تھا۔ اس کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ کارپوریٹ میڈیا ایسے سنجیدہ موضوعات کا کم ہی متحمّل ہو سکتا ہے۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے اس کی رونق۔
اب عالَم یہ ہے کہ اہلِ علم اور سنجیدہ لوگ گوشہ نشیں ہو گئے۔ اب سیاست دان بچے ہیں یا خود اہلِ صحافت۔ دنیا کا کوئی بھی موضوع لے لیجیے، پندرہ بیس سینئر تجزیہ کار آپ کی رہنمائی کو ہر وقت موجود ہیں۔ یہ بھلے میٹرک میں فیل ہو کر سینیئر تجزیہ کار بنے ہوں لیکن اب یہ افلاکیات سے لے کر فارن پالیسی تک ہر معاملے میں قولِ فیصل جاری فرماتے ہیں۔
معاشرہ صرف سیاست کے سہارے زندہ نہیں رہتا۔ اسے کچھ اور لوازمات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاست پر بھی بات ہونی چاہیے لیکن توازن کے ساتھ۔ ہر شعبہ زندگی توجُّہ چاہتا ہے۔ چیزوں کی ترتیب بدل دینا سب سے بڑی انتہا پسندی ہے۔ اور ظلم بھی۔ ہم یہ ظلم مسلسل کیے جا رہے ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں۔
***