افغانستان کی قومی گلوکارہ کے عروج و زوال کی کہانی
قمر گلہ افغانستان کی قومی گلوکارہ تھیں۔ پاکستان کے پشتون علاقوں میں بھی وہ یکساں مقبول تھیں۔ 1970ء کی دہائی میں وہ پشاور آئیں تو ان کو سننے کے لئے اتنے لوگ جمع ہو گئے کہ گرینز ہوٹل کا وسیع و عریض ہال کم پڑ گیا۔ افغانستان میں انقلاب ثور کے بعد عام تقریبات میں ان کی شرکت محدود ہو گئی تھی مگر افغان ٹی وی اور ریڈیو کابل سے ان کے گیت نشر ہوتے رہے۔ انہی دنوں ان کے شوہر جو خود بھی ایک اچھے کمپوزر تھے اس دنیا فانی سے رحلت کر گئے اور پورے خاندان کی کفالت کا بوجھ قمر گلہ کے کندھوں پر آ پڑا۔ ڈاکٹر نجیب کی دستبرداری کے بعد انہوں نے بھی پاکستان ہجرت کر لی۔فن کی دنیا سے وابستہ لوگوں کی حالت قابل رحم تھی۔ کیمپوں میں ان کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔ عام آبادی میں ان کو کوئی گھر دینے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ سول کوارٹرز پشاور میں دو کمروں کے ایک مکان میں بائیس افراد کا یہ کنبہ ٹھہرا۔ مالک مکان کو جب معلوم ہوا کہ ان کے کرایہ دار گلوکاری کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں تو بھڑک اٹھا۔
قمر گلہ کی گردن دو وجوہات سے قابل زدنی تھی۔ یہ سب روسیوں کے حامی تھے۔ جس شعبے سے ان کا تعلق ہے وہ پشتون معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔قمر گلہ کو نوٹس دیا گیا فوراً گھر خالی کرو۔ انھوں نے مہلت مانگی۔ اس بڑے کنبے (جن میں عورتیں اور بچّے شامل تھے) کو میں کہاں لے جاؤں۔جواب ملا۔ ‘‘یہ میرا مسئلہ نہیں۔ اگر ایک ہفتے کے اندر گھر خالی نہیں کیا تو سامان سڑک پر پھینک دوں گا۔’’
میں اُن دنوں پشاور کا ڈپٹی کمشنر تھا۔ بڑے شہروں کی افسری بڑے آدمیوں کی آؤ بھگت میں گزر جاتی ہے۔ گورنر ہاؤس کے ہر اجلاس میں شرکت۔ وزیر اعلیٰ سے ہر روز ملاقات۔ ایئرپورٹ پر وی وی آئی پی (VVIP) کی آمد و رفت۔ یہی معمول کا ایجنڈا ہوتا ہے ۔کسی ہمدرد نے یہ بات مجھ تک پہنچائی۔ صد افسوس ہوا کہ سکھ اور عیسائی تو ہمارے محلوں میں رہ سکتے ہیں ایک مسلمان خاندان نہیں۔ کمشنر آفس کے ایک سینئر اہلکار جو سول کوارٹرز ہی میں رہائش پذیر تھے کے ذریعے مالک مکان کو پیغام بھیجا گیا کہ ایک ماہ کی مزید مہلت دیں ۔ ساتھ ہی قمر گلہ کو بتایا گیا کہ وہ اپنی ضروریات ہمیں لکھ کر بھیج دیں۔ ایک چھوٹی سی پرچی پر ایک شکستہ تحریر موصول ہوئی۔
پلاسٹک کی دو دریاں
ایک بڑی چینک چائے کی
کھانا پکانے کی دو دیگچیاں
پلاسٹک کی چھ پلیٹیں
چھ پیالیاں
بڑی مدت تک یہ پرچی میرے پاس محفوظ رہی۔ میں جب بھی اس کو دیکھتا،اداس ہو جاتا۔ یہ وہ خاتون ہے جس کو ظاہر شاہ اپنی مجلس میں مدعوکیا کرتا تھا۔ یہ وہ گلوکارہ ہیں جب گرینز ہوٹل آئی تھیں تو لوگوں نے سفارشوں کے ذریعے ہال میں داخل ہونے کے پاس لئے تھے۔
سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر میں نے اس کو ڈیفنس کالونی شفٹ کرا لیا۔ وہ چاربیڈ روم کے پوش فرنشڈ بنگلے میں آ گئیں جہاں ہم نے ایک ماہ کے لئے کچن کا پورا سودا سلف بھی ڈال دیا تھا۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔
بار بار پوچھتی رہیں۔ ہم اپنے گھر کب جائیں گے۔میں نے بتایا یہی آپ کا گھر ہے۔ گم صم ہو کر رہ گئیں۔ زبان نے ساتھ چھوڑ دیا۔ الفاظ نے آنسوؤں کی شکل اختیار کر لی۔
چند دن بعد میں نے قمر گلہ کو ڈپٹی کمشنر ہاؤس بلایا۔ اپنے بچّوں سے ملایا۔ نماز کا وقت آیا تو جائے نماز مانگی۔ دیر تک مصلے پر بیٹھی رہیں۔ معلوم ہوا پنج وقتہ نماز کی سخت پابند ہیں۔ کیا خبر یہی نماز ان کی پریشانیوں کا مداوا بنی ہو۔
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاھُ وَ یَکْشِفُ السُّوْءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْاَرْضِ ءَ اِلہٌٰ مَّعَ اللہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ
ترجمہ: بھلا کون پہنچتا ہے بے کس کی پکار کو جب اُس کو پکارتا ہے اور دُور کر دیتا ہے سختی اور کرتا ہے تم کو نائب اگلوں کا زمین پر اب کوئی حاکم ہے اللہ کی طرف تم بہت کم دھیان کرتے ہو۔(سورۃنمل:۲۶)
ڈنر کے بعد میری بیوی نے انہیں اور ان کے بچّوں کو ڈھیر سارے تحائف دے کر رخصت کیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انہوں نے چادر سے سلام کے لئے ہاتھ باہر نکالے۔ لب خاموش تھے۔ آنکھیں پھر اُبل پڑیں۔یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ آج کل وہ کینیڈا میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ مقیم ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں اللہ کے ایک نیک بندے کے پاس میں کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ شعبہ عربی کے پروفیسر، سیّد سلیمان ندوی کے تربیت یافتہ اور پاکستان مسلم لیگ صوبہ سرحد کی تقسیم کے وقت سیکریٹری جنرل۔ ایک صاحب نے اس واقعے کو طنزیہ انداز میں بیان کیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر آج کل گلوکاروں کی خدمت کر رہے ہیں۔
آپ نے ناراضی کا اظہار فرمایا۔ ‘‘کیا وہ گیت گانے کے لئے آئی تھی۔ حبیب اللہ خان نے ایک بے کس کی مدد کی۔ کبھی ٹوٹے ہوئے دِل کی دُعا بھی لیا کرو۔’’
مجھے ہمیشہ ایک بات کا قلق رہتا ہے کہ ہم اپنے مذہب کے لطف و مہربانی، جود و سخا اور محبت و اخوت کے رخ کو عمومی طور پر اپنے معاملات میں کیوں نمایاں جگہ نہیں دیتے۔
بشکریہ : انتخاب، عامر عبداللہ