دعوت کا مفہوم
دعوت (دعوۃ) عربی زبان کا لفظ ہے ۔ اگرچہ دیکھنے میں یہ چار حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے لغوی ، مجازی ، اصطلاحی ، اور اطلاقی معانی میں یہ چار سے کہیں زیادہ مطالب و مفاہیم کا حامل ہے ۔لغوی اعتبار سے یہ دعا کا مصدر ہے (مصباح اللغات )جس کا مطلب ندا، طلب ، اور نسب وغیر ہ کے ہیں۔ اسی سے دعاۃ بنا ہے جس کا مطلب وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو ہدایت یا ضلالت کی راہوں کی طرف بلانے والے ہوں۔ اسی کا واحد داعی ہے یعنی دعوت دینے والا ،بلانے والا۔لغوی اعتبار سے کسی کو بھی بلانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے مثلاً دعا فلاناًیعنی کسی کو آواز دینا یا بلانا۔دعا لہ کے معنی ہو ں گے کسی کے لیے خیر کی دعا کرنا۔دعا علیہ کے معنی ہو ں گے ، کسی کے لیے برا چاہنا یا بد دعا کرنا۔ اسی طرح دعوتُ اللہ کا معنی ہو گامیں نے اللہ سے گریہ و زاری کے ساتھ مانگا۔ لیکن اصطلاحی معنو ں میں اس کا مطلب دعوت الی الدین ہے ۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت ، اسلام پہ استقامت کے ساتھ کار بند رہنے کی دعوت ، اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی دعوت ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلامی احکامات کو معاشرے پہ لاگو کرنے کی دعوت ،سب اس کے اصطلاحی مفہوم میں داخل ہیں۔
دعوت کے چار عناصر
ہمارے خیال میں دعوت کے چار عناصر ہیں جو خود لفظ دعوت ہی سے ماخوذہیں۔
د سے درد
دعوت میں داعی کادردِ دل شامل نہ ہو تو دعوت محض ایک رسمی تقریر یا گفتگو بن کے رہ جاتی ہے ۔ کسی بھی کلام کو دعوت بنانے کے لیے اس میں داعی کا خلوص ،درد دل اور مدعو کی خیر خواہی کا شامل ہونا ضروری ہے ۔ اسی کی طرف قرآن مجید نے یوں اشارہ کیا ہے ۔ لعلک باخع نفسک (سورہ الشعراء) یعنی حضور ﷺ کو فرمایا گیا کہ کیا آپ ان کی ہدایت کے لیے خود کو ہلا ہلاک کر لیں گے ۔ لست علیہم بمسیطر(سورہ الغاشیہ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے ۔حضور کا راتو ں کو اٹھ اٹھ کر رونا ، ہر ایک کی خیر خواہی چاہناالدین النصیحۃ(مسلم جلد اول کتا ب الایمان) اور ہر ہر وقت دعوت کے لیے فکر مند رہنا اسی درد مندی کا حصہ ہے ۔
ع سے عبرت
داعی لوگوں کو پہلی قوموں کے حالات سے عبرت حاصل کر نے کی دعوت دیتا ہے ۔ قرآن مجید نہ صرف پچھلی قوموں کے حالات سے بھرا پڑا ہے بلکہ قرآن تو کائنات کی سیر کو بھی دعوت کا موضوع بناتا ہے ۔ قل سیروا فی الارض فانظروا فکیف کا ن عاقبۃ المجرمین(سورۃ النمل )
وسے وعظ و انذار
انذا ر وتبشیر دعوت کا جزو اعظم ہے ۔ داعی جب تک انسانوں کو اعمالِ بد کے نتائج سے خبر دار نہ کر ے اور گناہوں کے نتیجے سے نہ ڈرائے ، دعوت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ قرآن مجیدمیں جہنم یا قیامت کے حالات کا تذکرہ دعوت کے اسی پہلو کا حصہ ہے ۔
ت سے تبشیر وتبلیغ
انذار کی طرح تبشیر یعنی نیک اعمال کے صلے کی بشارت دینا بھی دعوت کا خاص حصہ ہے ۔ داعی جب تک اس کو اپنے کلام کا حصہ نہ بنائے ،دعوت صحیح معنوں میں دعوت نہیں بنتی۔ قرآن مجید میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ دعوت کے اسی پہلو کو اجاگر کرتا ہے ۔
دعویٰ اور دعوت
بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب تک انسان خود کسی بات پر عمل پیرا نہ ہو ا س وقت تک اس کو دعوت نہیں دینی چاہیے اور اس کے لیے وہ سورہ الصف کی آیت ۲ کا حوالہ دیتے ہیں ( یا ایہا الذین امنوا لم تقولون ما لا تفعلون) لیکن یہ آیت دعوت کے بارے میں نہیں بلکہ دعوے کے بارے میں ہے کہ اس چیز کا دعویٰ کیوں کرتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ دعوت دینے کی ممانعت کا ا س آیت سے استدلال کرنا درست نہیں۔مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:‘‘ا ن آیات کا تعلق دعوے سے ہے کہ جو کام آدمی کو کرنا نہیں ہے اس کا دعوی کرنا اللہ تعالی کی ناراضی کا سبب ہے رہا معاملہ دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا کہ جو کام آدمی خود نہیں کرتا اس کی نصیحت دوسروں کو کرے اور اس کی طرف دوسرے مسلمانوں کو دعوت دے وہ اس آیت کے مفہوم میں شامل نہیں۔۔معلوم ہوا کہ جس نیک کام کے خود کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہے ا س کی طرف دوسروں کو بلانے اورنصیحت کرنے کا سلسلہ نہ چھوڑے امید ہے کہ اس وعظ و نصیحت کی برکت سے کسی وقت اس کو بھی عمل کی توفیق ہو جاوے ۔’’ (معارف القرآن جلد ۸)
دعوت ایک ایسا با برکت عمل ہے کہ اگر انسان اس عمل کی بھی دعوت دینا شروع کر دے جو وہ خود نہیں کرتا تو دعوت کی برکت سے اللہ اسے بھی اس عمل کی توفیق دے دیتا ہے ۔یہ روزمرہ کا مشاہد ہ ہے کہ ان پڑھ سے ان پڑھ آدمی بھی اپنے بیٹے کو کہتا ہے کہ میں تو نہ پڑھ سکا تو ہی پڑھ لے یہ بھی ایک قسم کی دعوت ہے اگر چہ خود اس نے عمل نہیں کیا مگر بیٹے کو پھر بھی دعوت دے رہا ہے۔
فتویٰ اور دعوت
ڈاکٹر طفیل ہاشمی لکھتے ہیں کہ:
‘‘احادیث نبویہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ دعوت اور تشریع کی زبان بیان الفاظ اور تعبیرات کو الگ الگ رکھتے تھے۔ دعوت کی زبان ترغیب و ترہیب کی زبان ہوتی ہے اس میں گناہوں سے نفرت دلانے اور نیکی کی ترغیب کے لئے ایسی تعبیرات اختیار کی جاتی ہیں جن سے دعوت کے مقاصد پورے ہوں جب کہ تشریعی امور کے بیان میں اس میزان کو برقرار رکھا جاتا ہے جس پر دنیا و آخرت میں احکام ونتائج کا دار و مدارہے مثلاً ،ارشاد نبوی من قال لاالہ الا اللہ دخل الجنہ ۔۔۔ وان زنی وان سرق کا تعلق تشریع سے ہے اور لا یزنی الزانی حین یزنی وھو مومن ۔۔۔۔ کا تعلق دعوت سے ہے من ترک الصلاہ متعمدا فقد کفر کا تعلق دعوت سے ہے ۔ترک صلاۃپر کفر کا فتوی نہ لگانے کا تعلق تشریع سے ہے۔ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے ہمارے ہاں جید اور مستند علمابھی ایک دوسرے پر نا مناسب تنقید کرتے رہتے ہیں مثلاً مولانا مودودی کی کتاب خطبات در اصل ان کے جمعہ کے خطبات ہیں جن میں وہ عوام کو اسلامی احکام کی پابندی کی دعوت دیتے ہیں اسی لئے ان کا اسلوب دعوت کا ہے ان کی بنیاد پر مولانا کے عقائد کی تعیین اختیارات کا ناجائز استعمال ہی کہا جائے گا۔بھلا ایک شخص لوگوں کو نماز کی اہمیت بتاتے ہوئے اس کی پابندی کی دعوت و ترغیب دے رہا ہو تو مناسب ہو گا کہ وہ بتائے کہ نماز چھوڑنے سے بس ایک فرض کا بر وقت ادا نہ کر سکنے کا معمولی گناہ ہے۔ایسا شخص حقوق اللہ میں بس توبہ کر لے تو کافی ہے۔مرنے کے بعد اس کے ساتھ تمام معاملات مسلمانوں کے سے ہو ں گے ۔چنداں تشویش کی بات نہیں۔نہ صرف احادیث نبویہ کو بلکہ اہل علم کے بیانات اور تحریروں کو بھی سباق و سباق کے حوالے سے سمجھنا ہی علمی رویہ ہے۔’’ (ماہنامہ الشریعہ جنوری ۲۰۰۷)
ارکان ِدعوت
۱۔دعوت ۲۔ داعی ۳۔مدعو ۴۔وسائل
دعوت کے چار ارکان ہیں۔ ایک خود نفس ِدعوت ہے یعنی کس چیز کی دعوت دینا اور کس طرف بلانا مقصود ہے دوسرا داعی ہے۔ بحثیت داعی اس کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ داعی کا کردار، صفات اور دعوت کے تقاضے کیا ہیں۔تیسرا مدعو ہے داعی کو اپنا سکوپ طے کر لینا چاہیے کہ اس کے مدعو کون ہیں اسے کن لوگوں اور کس طبقے میں کام کرنا ہے اور چوتھا وسائل ہیں یعنی داعی کو اپنی دعوت کے لیے کن وسائل کی ضرورت ہے اور اسے اپنی دعوت کے ابلاغ کے لیے کن کن ذ رائع سے کام لینا ہے ۔
٭٭٭