اسلامی جمہوریہ پاکستان

مصنف : صدیق سالک

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : دسمبر 2004

انتخاب: محمدعارف حسین (اسلام آباد)

 

            اسلامی جمہوریہ پاکستان کے محل وقوع سے تو آپ واقف ہی ہوں گے ۔ اس کے مغرب میں اسلام، شمال میں کمیونزم اور مشرق میں سیکولرازم ہے جبکہ جنوب میں بحیرہ عرب رہتا ہے جس میں اب بہت سا عجمی پانی داخل ہو چکا ہے۔

            ہر ملک کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اپنی تاریخ اور اپنا جغرافیہ ہے’لیکن اس کی دو خصوصیتیں اسے دوسرے ملکوں سے ممیز کرتی ہے۔ ایک یہ کہ باقی ملکوں کے صرف جغرافیے میں نشیب وفراز پائے جاتے ہیں جبکہ اس کی تاریخ بھی نشیب و فراز سے مالا مال ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ یہاں کی تاریخ میں جغرافیے کا مزہ ملتا ہے اور جغرافیہ میں تاریخ کا لطف آتا ہے ’مثلاً اس کی تاریخ میں بڑے بڑے پہاڑ ’ امن و امان کے چھوٹے چھوٹے جزیرے’ قیادت کے وسیع ریگستان اور بحرانوں کے گہرے بحیرے پائے جاتے ہیں..........اور ’اس کے جغرافیے میں تاریخیں ملتی ہیں ۔ایک تاریخ وہ تھی جب قیام پاکستان سے پہلے اس کا مجوزہ جغرافیہ کچھ اور تھا ۔ پھر چودہ اگست کا تاریخی دن آیا تو اس نوزائیدہ مملکت کو ذرا مختلف قسم کا جغرافیہ ورثے میں ملاجس میں آدھا جغرافیہ برما کے جنگلوں کے قریب جا گرا ’ اور آدھا ایران کے قریب جا ٹھہرا ۔ ہم نے 24 برس بعد بڑی مشکلوں سے یہ بکھرا ہوا جغرافیہ یکجا کیا ۔خدا اب اسے اپنی جگہ پر قائم رکھے.......متلون مزاج جغرافیہ ہویا بیوی’اس پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے

٭٭٭

             جغرافیہ کی متلون مزاجی کا اثر آبادی پر بھی پڑا جو وقتاً فوقتاً جمع تفریق ہوتی رہی۔ اس نے سات کروڑ افراد سے آغاز کیا ’ لیکن دیسی کھاد اور ولایتی گولیوں کے زور پر جلد ہی تیرہ کروڑ تک پہنچ گئی ۔ہم نے آبادی کے اس روز افزوں رحجان کو روکنے کے لئے تمام روایتی طریقے آزمائے لیکن اس کے آگے بند نہ باندھ سکے’ آخر کار 1971 میں تنگ آکر اس کی آدھی آبادی یکمشت تفریق کر ڈالی اور برما کے قریب آدھا جغرافیہ ’آدھی آبادی اور پوری قومی حمیت چھوڑ کر یہاں مقیم ہو گئے ۔ ان کامیابیوں کا سہرا کس کے سر ہے ؟ زبان نہ کھو لئے’ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔

             پاکستان کو اپنی مختصر تاریخ میں بڑے بڑے سیاسی لیڈر نصیب ہوئے جن میں سے بعض لیڈران کو اپنی دیانتداری سے زیادہ اپنی سیاسی بصیرت پر ناز تھا لیکن سیاسی بصیرت میں اس راہنما کا کوئی جواب نہیں جس نے اس ملک کا نام تجویز کیا تھا۔جس طرح بعض رجائیت پسند جوڑے منگنی کے فوراً بعد اپنے ہونے والے بچے کا نام سوچ لیتے ہیں ’ اسی طرح انہوں نے بھی قوم کا اشتیاق دیکھتے ہوئے پاکستان کے قیام سے قبل ہی اس کا نام رکھ دیا تھا لیکن اس کے اجزائے ترکیبی میں جان بوجھ کر بنگال شامل نہ کیا کیونکہ ان کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ ایک نہ ایک دن یہ بازو ٹوٹ گرے گا جس سے اثاثوں کی تقسیم کے ساتھ مملکت کے نام کی تقسیم کا مطالبہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے ۔

             یوم ِ پیدائش ہی سے پاکستان اپنے جڑواں پڑوسی کے ساتھ دائمی رقابت کے رشتے میں منسلک چلا آرہا ہے۔ اب تک یہ اپنے حریف سے کئی مقابلے کر چکا ہے اور دو ایک ڈران (Drawn) بھی کر چکا ہے۔ ڈران میچوں میں اپنے محسنوں کا قتل سر فہرست ہے۔ شروع شروع میں ہمارے رقیب نے اپنے مہاتما کو گولی مار کر ہم پر ایک گول کر دیا لیکن قسمت نے ہمیں فوری طور پر گول اتارنے کا موقع نہ دیا’لہٰذا ہمیں چند سال انتظار کرنا پڑا ۔ بہت سی منصوبہ بندی کے بعد ہم اپنے قائد ملت کو شہید کر کے سکور برابر کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ہم اس سرخروئی پر اللہ کے فضل اور متعلقہ لیڈر کے تعاون کیلئے بے حد احسان مند ہیں ورنہ رقیب رو سیاہ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے ۔

             جن میدانوں میں اپنے حریف پر ہمیں واضح برتری حاصل رہی ہے ’ وہ تین ہیں: ایک یہ کہ : انہوں نے تو اپنے پہلے وزیر اعظم ہی کو لا ل وجواہر سمجھ کر برسوں سینے سے لگائے رکھا لیکن ہم نے اسی عرصے میں سات آٹھ وزیر اعظم پیدا کر ڈالے(یہ پیداواری ریٹ ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ ہے)بعض ممالک تو اپنی سو سالہ تاریخ میں بھی اتنے وزیر اعظم پیدا نہ کر سکے’ ہمارے ہاں اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ ہمارا ہر شہری اپنے آپ کو وزارتِ عظمیٰ کا اہل سمجھتا ہے اور دوسرے ہر شہری کو نا اہل!

            دوسرا یہ کہ: ان کے وزیر ِ اعظم صرف سیاست کی کیار ی سے پیدا ہوتے رہے جبکہ ہمارا پورا چمنستان وزیر اعظموں اور سربراہوں سے مہکتا رہا ہے.......کوئی وزیر اعظم سول سروس سے آیا اور کوئی سازش سے ’ کوئی سربراہ سیاست کے پچھواڑے سے داخل ہوا اور کوئی عسکری دروازے سے۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی.........

            تیسرا یہ کہ : ہمارے مد مقابل نے جلد بازی میں صرف ایک آئین بنایا اور آج تک اسی کچے پکے آئین پر گزر اوقات کر رہا ہے جبکہ ہم کم از کم تین سالم آئین ہضم کر چکے ہیں ۔ یہ مسئلہ صرف ہاضمے کا نہیں اپنے اپنے ظرف کا بھی ہے ۔ اگرہمارا رقیب بلا وجہ ہم سے سرگرداں نہ ہوتا تو ہم اسے تحفت ً یا مشورۃً یہ مصرع لکھ بھیجتے۔

؂تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

             ان عظیم امتیازات سے مزین ملک میں چار صوبے اور بہت سی صوبائیت پائی جاتی ہے جس سے ملکی وحدت کی غذائیت کم ہوتی جاتی ہے۔ اصل قصہ صوبوں اور صوبائیت کا نہیں ذہن اور زمیں کا ہے’ ذہن باڑوں اور راجواڑوں میں بٹ جائے تو زمین خود بخود کیاریوں میں کٹ جاتی ہے’ لہٰذا یہ بنیادی بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ زمین سورج کے گرد نہیں ذہن انسانی کے ساتھ گھومتی ہے ۔

             اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پانچ دریا اور بہت سی دریا دلی بہتی ہے ۔ ان میں سے دو دریاؤں کے نام ہمارے پاس ہیں لیکن ان کا پانی کسی اور کے قبضے میں ہے ’ پھر بھی ہم اپنے صوبے کو ‘‘پنج آب’’ہی کہتے ہیں ۔ان دریاؤں کا پانی کبھی کبھی سوکھ جاتا ہے۔لیکن یہاں بسنے والوں کی دریادلی کبھی خشک نہیں ہوتی ۔وہ اسی دریا دلی میں اپنے مسائل سے ہمیشہ بے نیاز اور دوسروں کے لیے سدا بے چین رہتے ہیں۔ مسئلہ سویز ہو یا مسئلہ فلسطین ’ یہ عالم ِ اسلام کے ہر دیرینہ مسئلے کے لئے جان کی بازی لگانے کو ہمہ وقت تیار ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بھی کچھ کم دیرینہ نہیں ’ بلکہ سنیارٹی کے لحاظ سے سر فہرست ہے ۔

             پاکستان بنیادی طور پرایک زرعی ملک ہے جہاں پہلے وافر مقدار میں اشیائے خوردنی پیدا ہوتی تھیں اب بکثرت انسان پیداہوتے ہیں جو دساورکو بھیجے جاتے ہیں اور زرعی اجناس سے زیادہ زر مبادلہ کماتے ہیں ۔آبادی کی برآمد سے ہمارے دیہات بہت پر سکون ہو گئے ہیں۔ اب وہاں عموماً بوڑھے والدین اور معصوم بچے بستے ہیں جو ہر وقت اس انتظار میں رہتے ہیں کہ دوبئی سے کب رنگین ٹیلی ویژن’ امریکی کمبل یا جاپانی گڑیا آئے گی۔ایک ایک فرد کے بدلے ڈھیروں غیر ملکی اشیا ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا ایک ایک شخص ریالوں میں تولنے کے لائق ہے!

             یہاں معدنیات بھی پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر تا حال رو پوش ہیں ۔ خفیہ معدنیات میں تیل اور جذبہ محنت سر فہرست ہیں ۔ انہیں تلاش کرنے اور بروئے کار لانے کا ٹھیکہ غیر ملکی کمپنیوں کو دے دیا گیا ہے۔ہمارا ارادہ ہے کہ جب یہ ہمارا تیل نکال لیں گی تو ہم انہیں قومیا لیں گے۔

 اس وطن ِ عزیز کی کئی پالیسیاں ہیں ....

            خارجہ، داخلہ، تعلیمی، سیاحتی وغیرہ۔ ان سب پالیسیوں کی اپنی پالیسی ہے لیکن خارجہ پالیسی سب سے قدیم اور عظیم ہے۔ ہم نے قیام پاکستان کے بعد سے اندرونی خلفشار پر کم اور بیرونی مسائل پر زیادہ توجہ دی ہے بلکہ اگر مجھے تین چیزوں کی نشاندہی کرنے کو کہا جائے جنہوں نے اس ملک کی قسمت پر گہرا اثر چھوڑا ہے تو میں کہوں گا : خارجہ پالیسی’ خارجہ پالیسی اور خارجہ پالیسی’ جیسے چچا غالب سے کسی نے پوچھا تھا کہ جناب آپ کو کیا چیز پسند ہے تو انہوں نے کہا تھا : آم ، آم اور آم۔

             وزارتِ خارجہ کا کام بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ہے اور ماشااللہ ہماری وزارتِ خارجہ اس کام میں اتنی مستعد ہے کہ اپنے ملک کی نسبت غیر ممالک سے اس کا رابطہ گہرا اور زیادہ مضبوط ہے جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسلام آباد میں وزارت ِخارجہ کی عمارت دیگر پاکستانی وزارتوں کے دفاترسے دور اور ڈپلومیٹک انکلیو (Diplomatic Enclave) کے قریب واقع ہے اس کا عملہ وقتاً فوقتاً پاکستان بھی آتارہتا ہے۔

             داخلہ پالیسی کا سب سے بڑا مسئلہ سکولوں اور کالجوں میں داخلہ ہے جس کیلئے اکثر داخلی اور خارجی سفارشوں کا سہارا لیاجاتا ہے۔ اگر اس مسئلے سے نجات مل جائے تو کبھی کبھی امن عامہ کی حالت پر بھی توجہ دی جاتی ہے’کیونکہ امن عامہ میں خلل پڑنے سے خواص کا سکون مخدوش ہو جاتا ہے ۔

             وزارتِ داخلہ امن عامہ کے بارے میں اکثر اعداد وشمار جمع کرتی ہے ’ تاکہ گاہے بگاہے ثابت کیا جاسکے کہ امن وامان کی حالت تسلی بخش ہے ۔ اس سلسلے میں قارئین سے صرف اتنی گزارش ہے کہ وہ سرکاری ذرائع سے جمع کردہ اعداد وشمار پر اپنا ایمان مستحکم رکھیں اور اخبارات کی موٹی موٹی سرخیوں پر یقین نہ کریں ۔ خواہ وہ خودہی ان واقعات کے چشم دید گواہ کیوں نہ ہوں ؟

             تعلیمی پالیسی کا بنیادی مقصد تعلیم کو عام کرنا ہے۔ جس کے لئے جگہ جگہ تعلیم بالغاں کا چھڑکاؤ ہوتارہتا ہے ۔اس چھڑکاؤ میں کئی ہوز پائپ استعمال ہوتے ہیں جن میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان قومی کوششوں کا مقصد ساری قوم کو ایک ہی رنگ میں رنگنا ہے پہلے بہت سے لوگ اپنے آپ کو ان پڑھ کہہ کر کئی تعلیمی برائیوں اور مخرب اخلاق تحریروں سے بچ جاتے تھے ’ اب انشاء اللہ تعلیم کے ہمہ گیر اثرات سے کوئی نہ بچ سکے گا ۔

             سیاحت کی پالیسی دوسری پالیسیوں سے کہیں زیادہ کام کی ہے ۔اس کا عملہ اپنے کام میں اتنی محنت اور احتیاط کرتا ہے کہ وہ سیاحوں کو کسی جگہ لے جانے کے بجائے خود جگہ جگہ سیاحت کی ریہرسل کر تا رہتا ہے تا کہ کوئی صحیح سیاح غلط وقت پر صحیح مقام پر نہ پہنچ جائے ’لہٰذا سیاحت والوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ تمام سیاح مقررہ وقت اور مناسب نوٹس کے بعد آیا کریں تا کہ انہیں صحیح وقت پر صحیح مقام پر لٹایا جا سکے ۔

             ہمارے ہاں ملکی سیاحوں کی نسبت غیر ملکی خانہ بدوشوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جس کی وجہ ان کے ولایتی کپڑے اور امریکی ڈالر ہوتے ہیں جو ہمارے ہم وطنوں کو بہت عزیز ہوتے ہیں ۔بے گھر افراد پر توجہ دینا ویسے بھی ہماری روایات کا حصہ ہے ۔

             اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت سی قدیم اور جدید ثقافت پائی جاتی ہے جس کا مظہر وہ بیسیوں ثقافتی ادارے ہیں جو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی گرانٹ پر پلتے ہیں ’ سرکاری ثقافت کے علاوہ بہت سی ثقافت پرائیویٹ سیکٹر میں بھی دستیاب ہے جس کا پتا وقتاًفوقتاًمنعقد ہونے والے ثقافتی شوشوں سے بھی چلتا رہتا ہے ۔ اگر کسی کو ثقافت کی موجودگی کا مزید ثبوت درکار ہوتو وہ ثقافت کے مو ضوع پر کی گئی تقاریر کی طرف رجوع کر سکتا ہے ’ جو ہمارے لیڈروں سے منسوب پرانے اخبارات کی فائلوں میں محفوظ ہیں ۔

             اللہ کے فضل سے ہمار املک دانشوروں میں خود کفیل ہے۔ہمارے انٹلکچوئیل (دانشور) اختلاف رائے اور استعمال چائے میں کسی دوسرے ملک سے پیچھے نہیں ۔ وہ اختلاف اور گروہ بندی پر پنپتے ہیں مگر قوم کو اتحاد اور یکجہتی کا درس دیتے ہیں ۔انہیں اختلاف رائے یا بحث و تمحیص کے لئے کوئی اور موضوع ہاتھ نہ آئے تو اسی غم میں غلطاں رہتے ہیں کہ یہ ملک بنا کیوں تھا ؟ اور اگر بن گیا تھا تو آج تک قائم کیوں ہے؟

             ان چیزوں کے علاوہ بھی اس ملک میں اللہ کا دیا بہت کچھ ہے’ یہاں ہسپتال اور فیکٹریاں ہیں جن کا آپس میں گہر اتعلق پایا جاتا ہے ۔ اکثر فیکٹریاں بیمار رہتی ہیں اور بیشتر ہسپتال انڈسٹری بنتے جارہے ہیں ۔ یہی حال یونیورسٹیوں اور جیلوں کا ہے ۔ یہ دونوں ادارے اپنی اپنی جگہ ‘‘آزادی’’ اور ‘‘قید ’’ کی سمبل(Symbol)سمجھے جاتے ہیں لیکن عملًا حقیقت حال اس کے بر عکس ہے’ یعنی جیلوں سے کئی لوگ رہائی پاکر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں بلکہ خود جیل سے بھاگ جاتے ہیں لیکن یونیورسٹی سے کوئی نہیں بھاگتا ’ بلکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض یونیورسٹی میں داخل کیا ہوتے ہیں ’ ہمیشہ کیلئے وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں ’یعنی وہ یونیورسٹی کو اپنی قیام گاہ اور تعلیمی سیاست کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ درس گاہ سے باہر قیام گاہ آسانی سے ملتی ہے نہ کوئی معقول پیشہ بلا سفارش ہاتھ آتا ہے ۔

             یونیورسٹیاں ’جیلیں’ہسپتال ’فیکٹریاں سب پاکستان کے دم سے ہیں ’ لہٰذا پاکستان کی سلامتی و استحکام سبھی اہل وطن کو عزیز ہے لیکن اس کی زیادہ فکر کرسی والوں کو رہتی ہے۔ ان میں ایک طبقہ ایسا بھی گزرا ہے جو اپنی کرسی کی مضبوطی کو ملکی استحکام کے لئے ناگزیر سمجھتا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ملک کو زیادہ تر نقصان مضبو ط کرسیوں ہی سے پہنچا ہے ۔

             یوں تو اس نگار وطن کے کئی دلفریب خدو خال ہیں جن کی تصویر کشی سے جی نہیں بھرتا ’ لیکن بہت سی باتیں نا گفتہ رہ گئی ہیں ’ بس آخر میں یہی کہنا کافی ہے کہ یہ ملک گزشتہ 46 سال سے دوراہے پر کھڑا تیسرے راستے کی راہ دیکھ رہا ہے ۔ بعض امیدپرستوں کا خیال ہے کہ یہ اشتراک اور سرمایہ داری دونوں کو رد کر کے اسلام کی راہ پر چل نکلا ہے’ بھلا امیدوں پر کوئی پہرہ بٹھا سکتا ہے !