یہ ۱۹۲۱کی بات ہے۔ لدھیانہ کے کھلے میدان میں ہزاروں کا مجمع بت بنا بیٹھا ہے ۔اور ایک درویش منش انسان اسٹیج پر بیٹھا، لاؤڈ اسپیکر سے بے نیاز، بلند آواز میں تقریر کر رہا ہے’ اسٹیج سے ذرا ہٹ کر مقامی تھانے کا انچارج بیٹھا ہے ۔ وہ جلسے کی رپورٹ لکھنے اور اگر ضرورت پڑے تو مقرر کو گرفتار کرنے آیا ہے ۔ مگر آنکھیں حیران ہیں کہ وہ بھی دیگر سامعین کی طرح مبہوت بیٹھا سر دھن رہا ہے ۔ اور جونہی تقریر ختم ہوتی ہے پیٹی اتار کر اپنے ساتھیوں کے حوالے کرتا ہے، استعفیٰ لکھ کر نوکری پر لات مارتا اور مقرر کے قدموں میں جا بیٹھتا ہے اور پھر ساری عمر یہیں گزار دیتا ہے ۔ تھانیدار کا نام چوہدری افضل حق ہے ۔
یہ 1930 کا اواخر ہے ۔ یہی درویش صفت ڈم ڈم جیل ( بنگال ) میں مقید ہے ۔ ایک اعلیٰ انگریز حاکم معائنے کے لئے آتا ہے اور اس سے مخاطب ہوتا ہے ۔‘‘کہیئے کیا حال ہے آپکا؟’’‘‘اللہ کا شکر ہے ’’ بے نیازانہ جواب ملتاہے۔‘‘کوئی سوال؟’’با اختیار حاکم دوبارہ پوچھتا ہے ۔ ‘‘میں صرف اپنے اللہ سے سوال کیا کرتا ہوں ’’ ۔ ‘‘نہیں میرا مطلب ہے کہ کوئی خدمت ہو تو بتائیں’’ ۔درویش سر اٹھاتا ہے اور پوری متانت اور سنجیدگی سے جواب دیتا ہے ۔‘‘جی ہاں آپ میرا ملک چھوڑ کر تشریف لے جایئے’’حاکم خاموش ہو کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔
یہی فقیر منش انسان ملتان کے کچے مکان میں مقیم ہے ۔ بڑھاپا بھی ہے اور افلاس بھی ۔ اس عالم میں صدرِ پاکستان جنرل سکندر مرزا کی دعوت اور منہ مانگی خواہش پوری کرنے کی پیش کش یہ کہہ کر ٹھکر ا دیتاہے کہ ‘‘میرا سکندر مرزا کے پاس جانا ،علم اورفقیری کی توہین ہے ’’۔
اس درویش ، خدا مست اور فقر و استغنا کے پیکر کانام سیّد عطااللہ شاہ بخاری ؒ ہے ۔جو بیسویں صدی عیسوی میں قرون ِ اولیٰ کی لا زوال اور تابندہ خصو صیات کے حامل تھے ۔اورجنہیں اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم اور فقیہہ سید انور شاہ کاشمیر ی نے امیر شریعت کے معزز لقب سے نوازا تھا ۔ بے مثال خطیب ، عالم ِ دین ، شاعر ، نعت گو ، سیاست دان، مبلغ اور مصلح اور جان فروش مجاہد، خالقِ اکبر نے کتنی ہی خوبیاں بیک وقت ان میں جمع کر دیں تھیں لیکن ان کافقر و استغنا ان سب پہ بھاری نظر آتا ہے ۔