آدھی سے زیاد ہ شب بیت چکی تھی مگر نیند تھی کہ اس کی آنکھوں سے کوسوں دور’ آخر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور جب بیٹھنے سے بھی بے چینی کم نہ ہوئی تو وہ اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اسی چلت پھر ت سے بیوی کی آنکھ کھل گئی ۔ بیوی نے پوچھا کہ آپ کو کس درد نے بے چین کر رکھا ہے۔اس اللہ کے بندے نے کہا کہ جو درد مجھے لگا ہے وہ اگر تجھے بھی لگ جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔
اس جاگنے والے کا کل سرمایہ’ یہی درد کی دولت تھی ۔ اس کی صبحیں اسی فکر میں شام کرتی تھیں اور اس کی شامیں اسی غم میں رات ’ پھر اس کی راتیں اسی درد میں بیت جایا کرتی تھیں۔ایک عجیب بے چینی تھی جس نے اس کا احاطہ ’ اور ایک عجیب درد تھا جس نے اسے بے تاب کر رکھا تھا لیکن اس درد سے اس دور کے علما واقف تھے’ نہ صلحا ’ اور جب اس نے ان لوگوں کو اس درد سے روشناس کروایا تو وہ گمان کرنے لگے کہ رسول اللہؐ کے فکر ’ کڑھن ’ غم اور درد کی سنت اور روایت صحابہ کے بعد اگر کسی کو صحیح معنوں میں منتقل ہوئی ہے تو وہ یہی شخص ہے۔
اس کا درد اور فکر یہ تھا کہ رسول اللہ کا دین نہ مٹے ’میں مٹ جاؤں۔عمر بھردین کے لئے مر مٹنے کی کوشش کرنے والا آخر یہی کوشش کرتے کرتے انمٹ ہو گیا۔اور مسلمانوں کی تاریخ پہ کچھ ایسے نقوش چھوڑ گیا کہ صحابہ کے بعد کی سب صدیاں ان کی مثل لانے سے قاصر نظر آتی ہیں۔تاریخ نے بڑے بڑے مدبر’ مفسر’ مفکر’ محدث’ محقق’ فقیہہ’ جرنیل’ اور نامور لوگ دیکھے لیکن جب وہ اس دنیا سے گئے تو اپنے پیچھے کچھ شاگرد ’ کچھ نظریات’ کچھ ادارے ’ کچھ کتابیں’ کچھ مدرسے ’ کچھ یادیں یا کچھ کارنامے چھوڑ گئے لیکن جب یہ رخصت ہوا تو اپنے پیچھے ملک نہیں مما لک چھوڑ گیا۔آج دنیا کے ہر ملک میں آپ اس کے درد کی لہریں نہ صرف محسوس کر سکتے ہیں بلکہ چلتی پھرتی بھی دیکھ سکتے ہیں۔اور ان سب لہروں کی کوشش یہی ہے کہ دعوت کی محنت سے مسلمانوں کارخ مال سے اعمال کی طرف’ دنیا سے دین کی طرف اور مخلوق سے ہٹا کر خالق کی طرف کر دیا جائے اوراپنے اللہ سے ان کاتعلق کچھ اس طر ح کا بنا دیا جائے کہ انہیں سوفیصد یقین بلکہ ایمان حاصل ہو جائے کہ وہ ایک ’سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتاہے اور باقی سب’ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔
سنِ ہجری کے حساب سے ۱۳۰۳ کو اس دنیا میں آنے اور ۱۳۶۳ کو جہانِ فانی سے رخصت ہونے والے اس شخص کو تاریخ مولانا الیاس کے نام سے یاد کرتی ہے مگروہ آنکھیں ’ جنہوں نے اسے دیکھا’ انہیں وہ ’ صحابہ کے قافلے کا بچھڑا مسافر نظر آتا تھا اور یہ محض ان کی عقید ت نہ تھی بلکہ ایک ایسی حقیقت تھی جس پہ آنے والے سب مہ و سال مہرِ تصدیق ثبت کرتے نظر آرہے ہیں۔