وہ لینا نہیں دینا جانتا تھا۔ اسے لینے کی ضرورت بھی کیا تھی خود اس کے پاس دینے کو بہت کچھ تھا مگر لینے والے اس وقت بھی تھوڑے تھے اور اب بھی کم ہی ہیں مگر کمی یا بیشی سے کیا ہوتا ہے سونے کا ایک تولہ خس و خاشاک کے بہت سے ڈھیروں پہ بھاری ہوا کرتا ہے ۔ وہ دوسرں کے سائے میں بیٹھنے کا عاد ی نہ تھا بیٹھتا بھی کیوں وہ خود ایک شجرِ سایہ دار تھا بھلا برگد کو کسی کے سائے کی کیا ضرورت؟ اس کا کا م کسی سے مستعار نہ تھاحتی کہ وہ اسلاف کا بھی مرہونِ منت نہ تھا۔
اپنی طرز کا یہ تنہا مسافر ۱۸۶۳ء کو اس دنیا میں آیا اور ۱۹۳۰ ء میں رخصت ہو گیا لیکن علم وعمل کی ایسی قندیل روشن کر گیا کہ صدیاں اپنی روشنی کیلئے اس کی محتا ج رہیں گی۔اس کے علمی امتیاز میں تو کوئی کلام نہیں لیکن تقوی کے اعتبار سے بھی ’اب نہیں ’اس کی زند گی ہی میں یہ بحث ہوتی تھی کہ اس کا علم زیاد ہ ہے یا تقوی اور اس کا فیصلہ نہ اُسوقت ہو پایا تھااور نہ اب ہو گا۔کہنے والے تو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اسے دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔کسی اور کو تو یاد آئے یا نہ آئے لیکن اسے تو ہر وقت خدا یاد رہتا تھا حتی کہ اسوقت بھی جب لوگوں نے زمین کے ایک مقدمے میں اسے ثالث بنا لیا ۔ اور فریق بھی کوئی غیر نہ تھا بلکہ اس کا باپ تھا۔ اس نے دیکھا کہ فریق ِ مخالف حق پرہے تو اس نے باپ کے خلاف فیصلہ دے دیا اور اس طرح گویا خود اپنے خلاف ہی فیصلہ کر ڈالا کہ یہ زمین بالآخر اسے ہی منتقل ہونا تھی۔
خشیت ’ انابت’ عبودیت’ سر افگندگی ’ خاکساری’ تواضع اور تقوی یقینا اس کی زندگی میں بہت نمایاں تھے لیکن زمانے کو زیاد ہ الفاظ یاد نہیں رہتے ۔ زمانہ جانے والوں کی یاد کیلئے عموما ایک لفظ استعمال کیا کرتا ہے ۔ اس کیلئے جو لفظ زمانے کی لغت میں درج ہو گیا ہے وہ قرآن ہے۔ اس کا ذکر ہو اور قرآن کی بات نہ ہو ناممکن ہے اور قرآن کا ذکر ہو اس کی یاد نہ آئے یہ بھی ممکن نہیں۔سوچتا ہو ں کیا حسن انتخا ب ہے ۔ اس نے اپنی مصاحبت کیلئے کس کا انتخاب کیا وہ جو کبھی ساتھ نہ چھوڑ ے گا۔ قیامت میں لوگ اپنے ماں باپ’ اعزہ و اقربا’ دوست احباب’ کے جلو میں آئیں گے اور یہ قرآن کے سائے میں آئے گا ۔ بقرہ اور آل ِ عمران اپنے پر پھیلائے اور باقی سب سورتیں اپنے جھرمٹ میں لے کر’ اسے جب خداکے حضور پیش کریں گی تو امید یہی نظر آتی ہے کہ وہ کریم یہ کہہ دے گا کہ اس کاکیا حساب لینا ۔یہ تو نفس ِ مطمئنہ ہے جاؤ اسے اسی اعزاز کے ساتھ فردوس میں انبیاء صدیقین شہدااور صالحین کے پاس چھوڑ آؤ ۔ اور اسے میرے خاص بندوں کے زمر ے میں داخل کر آؤ۔ اور اس کے گھر پہ لکھ آؤ اما م حمید الدین فراہی قرآن والانفسِ مطمئنہ۔
آنے والے سب زمانے اس شخص کے نام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ فکر فراہی کے حاملین چاہیں یا نہ چاہیں لیکن آنے والی صدیوں میں حنفی ’ مالکی ’ حنبلی اور شافعی کے ساتھ فراہی یا اسی تسلسل میں غامدی کا اضافہ یقینا ہونے والا ہے۔