ابھی پوبھی نہ پھوٹی تھی۔رات کے اندھیرے میں وہ چلا جا رہاتھا۔ بہت گھبرایا ہوا ’ پریشان اور بے قرار۔اس کی منزل جیل تھی جہاں اس کا عزیز ترین دوست قید تھا۔اس نے طے کر لیا تھاکہ وہ اپنے عزیز ترین دوست کو موت کی سزا نہیں ہونے دے گا۔اور راتوں رات اسے چپکے سے نکال لے جائے گا۔اس نے اپنی ساری دولت خرچ کر کے جیل کے عملے سے ساز باز کر کے پورا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ہر کل پر زہ اپنی جگہ پرتیا رتھا۔اب صرف اسے اپنے دوست کو اس فرار پر راضی کرنا تھا۔آخر کا ر وہ جیل پہنچ گیا جہاں داروغہ جیل نے اس کا استقبال کیا اور اسے موت کی کال کوٹھڑ ی میں پہنچا دیاجہاں اس کا دوست تمام پریشانیوں سے بے نیاز سویا ہوا تھا۔اس نے اپنے دوست کو جگایا وہ نہایت باوقار انداز میں اٹھااور اندھیرے کے باوجود اسے پہچان کر بولا‘‘تم میرے دوست’ اس وقت کیسے’کس لئے ؟اس نے سرگوشی کے لہجے میں اپنے دوست کو بتایا کہ کل تمہاری زند گی کا آخر ی دن ہو گا۔ میں تمہیں لینے آیا ہوں ۔ میں نے اپنی سار ی دولت قربان کر کے تمہاری رہائی کا منصوبہ بنایا ہے میں تمہیں کھونانہیں چاہتا۔‘‘کیا تم چاہتے ہو میں فرار ہو جاؤں’ ایسی حرکت میرے شایانِ شان نہیں۔’’قید ی نے جواب دیا۔اس نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی تو قید ی بولا یہ ایک غلط کام ہے اور میں ایسا نہیں کر سکتا۔اسے اس جواب کی ہر گز توقع نہ تھی ۔ وہ مزید پریشان ہو گیا۔قید ی نے جیل سے فرار نہ ہونے پہ دلائل کے انبار لگا دیے۔آ خر پر اس نے کہا‘‘میرے عزیز دوست!تمہار ی محبت اور تمہاری پریشانی کا شکریہ لیکن میں ریاستی قوانین توڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ٹھیک ہے ریاست نے مجھے ناانصافی سے کام لیتے ہوئے سزا سنائی ہے مگر میں پھر بھی ریاست کے قوانین کی پابند ی کروں گا۔آدمی جیل سے تو بھاگ سکتا ہے مگر اپنے اصولو ں سے نہیں۔’’بات ختم ہو گئی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے لیکن وہ قید ی کو آنسوؤں سے نہیں دلائل ہی سے قائل کر سکتا تھااور وہ اس کے پاس تھے نہیں۔قید ی کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا یوں معلوم ہوتا تھاکہ اپنے اصولوں کی خاطر اسے موت کو گلے لگانے میں بھی کوئی عار نہیں۔
اصولو ں اور سچ کی خاطر زہر کا پیالہ پینے کے لئے تیار یہ قید ی دنیائے علم کاروشن ستارہ سقراط تھا اور اسے فرار پر راضی کرنے والا اس کا دوست اور شاگر د‘‘کرائٹو’’ تھا۔
سقراط نے زہر کا پیالہ تو پی لیا لیکن اپنے اصولوں اور نظریات پر ذرہ برابر سمجھوتہ قبول نہ کیایہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا حق گوئی کے ساتھ سقراط کو لازم و ملزو م سمجھتی ہے۔اس کے اصولو ں میں پہلا اصول توحیدکا پرچار تھا اور دوسرا اندھی بہری جمہوریت کاانکار۔