زندہ ضمیر کی کہانی

مصنف : عظیم الرحمن عثمانی

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جنوری 2019

متفرقات
زندہ ضمیر کی کہانی
عظیم الرحمان عثمانی

انگلینڈ آنے سے قبل پاکستان میں میری آخری ملازمت معروف ٹی وی چینل 'اے آر وائی' کے ساتھ تھی جہاں میں ایک علمی و سیاسی پروگرام ''آپ، ہم اور آپ'' میں بطور فری لانسر 'پروگرام کوارڈینیٹر' اور 'اسسٹنٹ ڈائریکٹر' کام کیا کرتا تھا. یہ آج سے کوئی سولہ برس قبل پرانی بات ہے اور میری تنخواہ کم و بیش پینتیس ہزار روپے بنتی تھی ۔ایک یونیورسٹی کے طالبعلم کیلئے یہ ایک مناسب تنخواہ تھی۔پروگرام پلاننگ سے لے کر مہمانوں ناظرین کو مدعو کرنے تک سب میری ذمہ داریوں میں شامل تھے کام میری پسند کا تھا لہٰذا میں یہ نوکری بخوبی نبھا رہا تھا۔بہت جلد میرے قدم جمنے لگے اور دوسرے ڈائریکٹرز نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔میں اپنی تعلیم کی وجہ سے ان آفرز کو منع کر رہا تھا۔ان ہی دنوں ایک ڈائریکٹرنے مجھ سے رابطہ کیا جو پرائم ٹی وی پر ایک مقبول گانوں کا پروگرام پیش کرکے پہچان بنا چکا تھا۔یہ ڈائریکٹر جیسے میرے پیچھے ہی لگ گیا اور ہر طرح سے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے پر ابھارنے لگا۔اس نے میرے پروگرام کے ڈائریکٹر کے ذریعے بھی مجھے اپروچ کیا مگر میں اسکے پروگرام کی نوعیت کے سبب کام کیلئے بالکل راضی نہ تھا اس کا پروگرام دراصل نوجوانوں کے ایک ایسے مقابلے پر مشتمل تھا جس میں تین مراحل ہونے تھے ۔پہلا گانے کا مقابلہ، پھر اداکاری کا اور پھر ناچنے کا۔ظاہر ہے یہ میرے اس اصول کے خلاف تھا کہ میڈیا پر صرف علمی پروگرام ہی کروں گا۔مگر یہ ڈائریکٹر جما رہا اور میں بھی آہستہ آہستہ پگھلنے لگا۔پھر اس نے مجھے آفر کی کہ جتنا میں کما رہا ہوں اتنا ہی مزید وہ مجھے دے گا۔ گویا میری تنخواہ ایک جھٹکے میں دگنی ۔نفس و شیطان نے مجھ پر قابو پایا اور میں نے حامی بھر لی۔

 

پروگرام کیلئے آڈیشن لینا میری ذمہ داری تھی شہر کراچی کے مختلف کالج و یونیورسٹیوں سے رابطہ کیا گیا اور میں ٹرائل لینے ان کے پاس جانے لگا۔ تعلیمی اداروں کے بند کمروں میں ٹرائل ہونے لگا۔لڑکے لڑکیاں گانے گاتے، اداکاری کرتے اور ڈانس کرتے ۔میں اور ڈائریکٹر مل کر یہ فیصلہ لیتے کہ کس کس کو پروگرام ریکارڈنگ کیلئے فائنل کرنا ہے؟ یہ سب کرتے ضمیر ملامت کرتا تو تگڑی تنخواہ کا خیال اسکی آواز دبا دیتا۔اسی دوران ڈائریکٹر صاحب کو ایک اور اچھوتا خیال سوجھا کہ کیوں نا کراچی کے اسکولوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے؟ جیسے بیکن ہاؤس، سٹی اسکول یا کراچی گرامر وغیرہ ۔میں نے اسکی بھی حامی بھری مگر ساتھ میں یہ شرط لگائی کہ ان اسکولوں کے ناموں میں میرے اپنے اسکول کا نام بھی شامل کیا جائے ۔ڈائریکٹر کو میرے چھوٹے سے اسکول کو شامل کرنا قبول نہ تھا مگر مجھے منع کرنا بھی ممکن نہ تھا۔لہٰذا اجازت دے دی گئی ۔میں نے سب سے پہلے اپنے ہی اسکول میں ٹرائل لینے کی ٹھانی ۔میرے اسکول والو ں کا خوشی کے مارے کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ ان کا اسکول اب کراچی کے نمائندہ اسکولوں کے ساتھ ٹی وی پر آئے گا۔جس دن میں ٹرائل کیلئے پہنچا تو وہ ٹیچرز جن سے میرا رشتہ احترام و ادب کا تھا، وہ میرے اردگرد گھوم رہے تھے۔ میری تعریف کر رہے تھے کہ اسٹوڈنٹ ہو تو ایسا جو مقام پر پہنچ کر بھی اپنا اسکول نہ بھولے۔
ٹرائل ناچنے سے شروع ہوا اور میرے سامنے آٹھویں، نویں، دسویں جماعت کی معصوم چہرہ بچیاں ناچنے لگیں۔ٹیچر میڈم انہیں اسٹیپ سمجھا رہی تھیں تاکہ میں انہیں پروگرام کیلئے منتخب کرسکوں۔یہ وہ لمحہ تھا جب بالآخر میرے ضمیر کی بس ہوگئی اور روح چیخ اٹھی۔ اپنے آپ سے گھن محسوس ہوئی کہ میں یہ کیا کررہا ہوں؟ ایسا لگتا تھا جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا ہو۔میں بیچ سے ہی بہانہ بناکر اٹھ آیا اور ڈائریکٹر کو دوٹوک الفاظ میں نہ صرف یہ بتایا کہ میں یہ کام اب نہیں کروں گا بلکہ ان آڈیشنز کا نتیجہ دینے سے بھی معذرت کرلی جو میں نے لئے تھے روکنے کی بہت کوشش ہوئی مگر اب میں نہ رکا۔میں رب سے اور اپنے آپ سے شرمندہ تھا۔وعدہ کیا کہ اب ایسے کسی بھی کام سے اجتناب کروں گا۔دعا کررہا تھا کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ یہ پروگرام نہ چلے اور ہوا بھی یہی ۔کچھ دوسری ٹیکنیکل وجوہات کے سبب یہ پروگرام آن ائیر نہیں ہوسکا۔
اس واقعے سے قاری کیا پیغام اخذ کرتا ہے؟ یہ میں اسی کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔البتہ اس واقعہ سے سے یہ ضرور ظاہر ہے کہ مال سمیت دیگر چمک دھمک انسان کو کسی بھی وقت اسکے راستے سے ہٹا سکتی ہے ۔اپنے اس واقعے پر مجھے ندامت ہے فخر نہیں۔پھر بھی اسے یہاں بیان کردیا کہ شائد اس سے کوئی سبق لے اور مجھ جیسے کسی بھی لکھاری و خطیب کو پارسا سمجھنے کی غلط فہمی نہ پالے۔
٭٭٭


غزل
بدلی ہوا کی سمت، نفیری سنائی دی
مِشعل جلی تو ایک عمارت دکھائی دی
لوہے کا بھاری قفل اشارے پہ گر پڑا
پیتل کے بند پٹ نے سُنہری دہائی دی
آدم نے پھونک مار کے روشن کیا چراغ
ظلمت نے ہاتھ جوڑ کے اپنی صفائی دی
لائی گئی ظہور میں برگد کی ایک چھال
ابجد کی لے، صدائے تہجّی سنائی دی
پھوٹیں مرے قلم سے جڑیں زعفران کی
اک رنگِ مہرباں نے مجھے روشنائی دی
خندق کا اشتباہ مرا سدّ راہ تھا
دیوار نے سرک کے فضا تک رسائی دی
خیمہ ہزار مِیخ کا تاروں سے اٹ گیا
آنکھوں کو دوربین نے معجز نمائی دی
جتّھے ادب کے باب پہ سجدے میں گر پڑے
خوراک دی درخت نے، گُل نے دوائی دی
چاہا کہ بارگاہ میں سورج طلوع ہو
کانوں کو بھیرویں کی مُنادی سنائی دی

*احمد جہاں گیر*