ہر اخلاقی برائی نقصان دہ ہے۔ کبھی یہ نقصان دنیاہی میں نظر آجاتاہے اور کبھی آخرت تک موقوف ہو جاتا ہے۔ حسد ایک ایسی ہی بیماری ہے جس کا شکار شخص دنیا ہی میں نفسیاتی اذیت اٹھاتا اور دل ہی دل میں گھٹ کر مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یعنی حاسد کی سزا کا عمل اس دنیا ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن میں حسد کرنے والے کے شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے کیونکہ وہ اس باؤلے پن میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ۔ لہٰذا دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے اس بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیا ر کرنا ضروری ہے۔
حسد کی نوعیت
حسد کی حقیقت یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کی نعمت اور کامیابی کا ناگوار گذرنا اور یہ آرزو کرنا کہ یہ سب کچھ اس سے چھن کر مجھے مل جائے یا اگر مجھے نہ بھی ملے تو کم از کم اس سے تو چھن ہی جائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جب دیکھتا ہے کہ اسکے بھائی کے پاس کار آگئی ہے تو وہ آرزو کرتا ہے کہ کاش یہ کار اس سے چھن کر میرے پاس آجائے، یا کم ازکم اس کے پاس نہ رہے یا اس کی کار کو کوئی نقصان پہنچ جائے تاکہ اس حا سد کی راحت میں اضافہ ہو۔
حسد کے لوازمات
حسد ثابت ہونے کو لئے مندرجہ ذیل لوازمات کا پورا ہونا ضروری ہے۔
۱۔کسی کی ترقی سے دل میں گھٹن محسوس ہو نا اور ناخوش ہونا
۲۔ اسکے نقصان کی تمنا کرنا یا نقصان ہوجانے پر خوش ہونا
۳۔یہ آرزو کرنا کہ محسود(جس سے حسد کیا جائے) سے نعمت چھن کر مجھے مل جائے۔
پہلے مرحلے میں یہ معلوم کریں کہ آپ حسد کا شکار ہیں یا نہیں۔اسکا ٹیسٹ یہ ہے کہ اگر آپ کو دوسروں کی تکلیف پر خوشی اور انکی کامیابی پر دکھ ہوتا ہے یا آپ اس کے نقصان کے متمنی اور اسکی نعمت چھننے کے منتظر ہیں تو آپ حسد میں مبتلا ہیں۔
حسد کیا نہیں ہے؟
ایک جملہء معترضہ کے طور پر یہ بات بھی سمجھ لیں کہ محض کسی کی کوئی چیز (مکان، کپڑے وغیرہ) اچھی لگنا حسد نہیں۔مزید یہ کہ اس شے کوجائز حدود میں حاصل کرنے کی کوشش کرنا بھی بذاتِ خود برا عمل نہیں بلکہ اس سے مقابلے کی فضا پروان چڑھتی اور ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔اسی طرح وہ وسوسے بھی حسد کے زمرے میں نہیں آتے جو اچانک غیر ارادی طور پر آپ کے دل میں آجائیں البتہ ان خیالات کو پختہ ارادے کے ساتھ پروان چڑھانا قابلِ نکیر ہے۔
حسد کی مختلف شکلیں
ہماری سوسائٹی میں حسد عام طور پر مندرجہ ذیل صورتوں میں پایا جاتا ہے:
۱۔کسی کے اچھے کپڑوں یا زیورات سے حسد۔ (اس کا شکار عام طور پر عورتیں ہوتی ہیں)
۲۔ کسی کی اچھی شکل و صورت یا شخصیت سے حسد
۳۔ کسی کے کاروبار، تعلیم یا ملازمت میں ترقی سے حسد(یہ عام طور پر مردوں میں ہوتا ہے)
۴۔ کسی کی اولا د بالخصوص اولادِ نرینہ سے حسد
۵۔کسی کے مکان، جائداد، کار اور دیگر سامانِ تعیش سے حسد
۶۔کسی کی شہرت،عزت، قابلیت یا عہدے سے حسد
۷۔کسی کے تقویٰ اور عبا دت گذاری سے حسد کہ یہ سب کچھ اس سے چھن جائے
۸۔کسی کی صحت سے حسد
۸۔ اسکے علاوہ بھی حسد کرنے کی لامحدود صورتیں ہیں جو ایک حاسد اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔
حسد کے اسبا ب اور انکا تدارک
حسد کرنے کے عام طور پر مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں۔
۱۔ محرومی یا احساسِ کمتری
۲۔خدا کے فلسفہء آزمائش سے لا علمی ۴۔نفرت و کینہ
۵۔ غرورو تکبر
۶۔ منفی سوچ
۷۔دیگر اسباب
۱۔ حسد کا بنیادی سبب تو یہی ہے کہ حاسد اس نعمت سے محروم ہے جو دوسرے کو مل گئی ہے(لیکن کبھی کبھی نعمت کی موجودگی میں بھی حسد ہوجاتا ہے)۔ مثال کے طور پر جب ایک بس کا مسافر ائیر کنڈیشن کار میں بیٹھے لوگوں کو دیکھتا ہے تو فطری طور پر اسے اپنی محرومی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اس احساس کا ہونا غیر اختیاری ہے لیکن کا ر والوں کی برائی چاہنا اختیاری اور گناہ کا عمل ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حتی الامکان ان لوگوں کے بارے میں سوچنے سے گریز کریں جو آپ سے کسی معاملے میں بہتر پوزیشن میں ہیں اور اگر کوئی خیال آجائے تو اپنے سے نیچے کے لوگوں پر تفکر کریں۔ دوسرا تدارک یہ ہے کہ جب تک پختگی نہ آجائے اس وقت تک زیادہ وقت ان لوگوں میں گذاریں جو آپ جیسے ہیں۔ مزید یہ کہ خدا کی آزمائش کی اسکیم پر غور کریں جسکا بیان آگے آرہا ہے۔
۲۔فلسفہء آزمائش سے لا علمی اور دنیاوی نعمتوں کو دائمی سمجھ لینا بھی حسد کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اللہ نے جو شکل وصورت،دولت، گاڑی، مکان،اولاد اور دیگر سامانِ زندگی عطا کیا ہے یا عطا نہیں کیا ہے اسکی بنیادی وجہ آزمائش ہے۔ وہ کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر۔ اسکے نزدیک ا س دنیاوی سازو سامان کی حیثیت ایک مردہ بکری کے بچے سے بھی کم ہے۔ ایک حاسد شخص ان نعمتوں کو حقیقی اور مقصود سمجھ کر ان کے حصول کو کامیابی اور ان سے محرومی کو ناکامی گردانتا ہے۔ وہ دنیا کی محبت اور حرص میں پاگل ہو جاتا اور دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر جل اٹھتا ہے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو حسد کرنے والے کا معترض ہونا بالواسطہ طور پر خدا کی تقسیم اور اسکی حکمت پر اعتراض کرنا ہے۔ لیکن یہ شخص حسد کی آگ میں جلتے جلتے خدا کی مخالفت بھی گوارا کرلیتا ہے۔اسکا علاج یہ ہے کہ خدا کی آزمائشی اسکیم کو سمجھا جائے، دنیا کی حرص و محبت کو کم کیا جائے اور خدا کی حکمت اور تقسیم پر ہر حال میں راضی رہا جائے کیونکہ یہاں کا ملنا ملنا نہیں اور یہاں کی محرومی محرومی نہیں۔
۳۔ کسی کے خلاف نفرت بھی آپ کو مجبور کرسکتی ہے کہ آپ اس شخص کے نقصان کے متمنی ہوں۔حسد نفرت کو اور نفرت حسد کو جنم دے سکتی ہے۔چو نکہ اس حسد کی بنیادی وجہ نفرت اور کینہ ہے لہٰذانفرت کے اسباب اور اس کے تدارک کا علاج کیجئے جب نفرت ختم ہو جائے گی تو اسکی بنا پر پیدا ہونے والا حسد خود بخود دور ہو جائے گا۔
۴۔ بعض اوقات غرور اور تکبر بھی حسد کا سبب ہوتا ہے بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی کامیابیوں سے جلتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت اور کامیابی پر انکی اجارہ داری اور انکا حق ہے۔اس سے نمٹنے کے لئے تکبر سے نجات ضروری ہے کہ استکبار صرف اللہ ہی کو زیبا ہے اور انسان کا تکبر اسے جہنم میں لے جاسکتا اور جنت کی ابدی نعمتوں سے محروم کرسکتا ہے۔لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ دنیا وی نعمتوں کی قربانی پر اکتفا کرلیا جائے۔ مزید یہ کہ تمام خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے وہ جس کو چاہے اور جس طرح چاہے نوازے۔ اس پر کسی قسم کا اعتراض براہِ راست خدا کی حکمت پر اعتراض کے مترادف ہے۔
۵۔ کچھ لوگوں کی سوچ منفی خیالات پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ یہ لوگ ہر مثبت یا نیوٹرل بات میں منفی پہلو نکالنے اور نکتہ چینی کے ماہر ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ کسی کی کامیابی پر ناخوش اور اسکی نعمتوں میں کیڑے نکالتے ہیں۔ اسکا حل یہی ہے کہ زندگی کے بارے میں مثبت رویہ اختیا ر کرکے لوگوں کی کامیابیوں کو سراہا جائے اور انکی خوشیوں میں شریک ہو کر اپنے حسد اور منفی طرزِعمل کی تطہیر کی جائے۔
۶۔ اسکے علاوہ بھی حسد کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں مثلاََ کسی قدرتی آفت سے اپنی نعمتوں کا چھن جانا، استحقاق کے باوجود مادی کامیابیوں سے محروم رہنا، ہم عصروں کا کامیابی کے جھنڈے گاڑنا، کسی کا طنزیہ گفتگو سے محرومی کا احساس دلانا وغیرہ۔ان تما م اسباب کا تدارک مندرجہ بالا بحث اور مندرجہ ذیل ہدایات میں موجود ہے۔
حسد سے گریز کے لئے عمومی ہدایات
پہلے مرحلے میں آپ حسد کی نوعیت اور اسکا سبب معلوم کرلیں پھر اس سبب کے مطابق اسکاتجویز کردہ علاج آزمائیں۔اسکے ساتھ ہی ذیل میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔
۱
۔ جن نعمتوں پر حسد ہے ان پر اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو بھی مل جائیں اگر وہ اسباب و علل کے قانون کے تحت ممکن ہیں یعنی ناممکن
چیزوں کی خواہش سے ذہن مزید پراگندگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
۲۔وہ مادی چیزیں جو آپ کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد کریں۔
۳۔ نفس کو جبراََ غیر کی نعمتوں کی جانب التفات سے روکیں اور ان وسوسوں پر خاص نظر رکھیں۔
۴۔محسود(جس سے حسد کیا جائے) کے لئے دعا کریں کہ اللہ اس کو ان تما م امور میں مزید کامیابیاں دے جن پر آپ کو حسد ہے۔
۵۔محسود سے محبت کا اظہار کیجئے اور اس سے مل کر دل سے خوشی کا اظہار کریں۔
۶۔ ممکن ہو تو محسود کے لئے کچھ تحفے تحائف کا بندوبست بھی کریں۔
۷۔اگرپھر بھی افاقہ نہ ہو تو ہو تو محسودسے مل کر اپنی کیفیت کا کھل کر اظہار کردیں اور اس سے اپنے حق میں دعا کے لئے کہیں۔لیکن اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کہیں بات بگڑ نہ جائے۔
٭٭٭