عبدالرشید خان پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل کے ڈی جی ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک محفل میں ان سے ملاقات ہو گئی ، پی این اے سی پاکستانی مصنوعات کی کوالٹی کا تعین کرتی ہے ۔ خان صاحب نے جب پاکستانی مصنوعات کے معیار کے بارے میں گفتگو شروع کی تو میں نے عرض کیا ‘‘میں جب سیب کھاتا ہوں تو مجھے اس سے ایک عجیب سی بو آتی ہے ’’ خان صاحب نے قہقہہ لگایا اور سرگوشی میں بولے ‘‘یہ ڈی ڈی ٹی کی بو ہوتی ہے ’’ میرے لیے یہ ایک ہولناک انکشاف تھا ۔ ہم لوگ یہ کیمیکل کاکروچ اور دوسرے گندے گندے کیڑے مارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ خان صاحب نے بتایا ‘‘درختوں پر جب سیب تیار ہو جاتے ہیں تو طوطے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اس وقت مالکان سیب بچانے کے لیے ان پر ڈی ڈی ٹی کا چھڑکاؤ کر تے ہیں ’’ ڈی ڈی ٹی کی بو سے طوطے تو بھاگ جاتے ہیں لیکن یہ سیب بعد ازاں ہمارے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں اور ہم انہیں قدرت کا انمول عطیہ سمجھ کر کھا جاتے ہیں ‘‘خان صاحب خاموش ہوئے ’’ تو میں نے عرض کیا ‘‘میں یہ سمجھتا تھا روزانہ ایک سیب کھانے والا شخص ڈاکٹر سے دور رہتا ہے لیکن آج پتا چلاکہ فی زمانہ سیب کھانے کا مطلب زہر خوری ہے اور پاکستان میں روزانہ سیب کھانے والے افراد ڈاکٹروں کے کریڈٹ کارڈ ہیں’’ خان صاحب نے قہقہہ لگایا ان کا کہنا تھا ‘‘دنیا کا بہترین سیب پاکستان میں پیدا ہوتا ہے پوری دنیا میں ہمارے کالے کلو ، شین کلو اور گولڈن کا کوئی متبادل نہیں ’’ لیکن یہ سارا سیب پاکستان میں برباد ہو جاتا ہے ۔ دنیا کا کوئی ملک اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ ہم سیب کے انٹرنیشنل سٹینڈرڈپر پورے نہیں اترتے ، امریکہ اور یورپ کی لیبارٹریاں ہمارے سیب کو کلیئر نہیں کرتیں ‘‘اگر ہم طوطے اور کیڑے کو بھگانے کے لیے جدید طریقے استعمال کرلیں ہم اپنے فارمرکو ذرا سی ٹریننگ دے دیں تو ہم صرف سیب کے ذریعے کروڑوں اربوں روپے کما سکتے ہیں ’’ میرے لیے یہ سب حیران کن باتیں تھیں ۔
دنیا کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ صحت ہے اور صحت کا براہ راست تعلق خوراک سے ہوتاہے امریکہ میں ہر سال 7 کروڑ 60 لاکھ لوگ خوراک کے باعث بیمار ہوتے ہیں ان میں سے ساڑھے بتیس لاکھ لوگ ہسپتال میں پہنچتے ہیں جن میں سے پانچ لاکھ لوگ انتقال کر جاتے ہیں امریکہ ان لوگوں پر ہر سال 7 ارب سے 33 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے لہذا امریکہ سمیت جدید دنیا کے 40 ممالک نے درآمد ہونے والی تمام اشیا کے لیے ایک معیار طے کر دیا ہے ، جو چیز اس معیار پر پوری نہیں اترتی یہ ممالک اسے اپنے ملک میں اترنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ ان ممالک نے کپڑوں کے 13 رنگوں پر پابندی لگا رکھی ہے جو کپڑا ان 40 ممالک میں جاتا ہے یہ ممالک اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کرتے ہیں اگر کسی تھا ن میں ان رنگوں میں سے ایک فیصد رنگ بھی نکل آئے تو یہ سارا مال واپس بھجوا دیتے ہیں۔ خوارک کے معاملہ میں یہ لوگ اس سے بھی زیادہ حساس ہیں ۔ ان ممالک نے خوراک کی پالش اور پیکنگ تک کا ایک معیار طے کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ یہ تک دیکھتے ہیں کہ اس فروٹ کو ان کے ملک تک پہنچنے میں کتنا وقت لگا ، سفر کے دوران درجہ حرارت کتنا تھا اور ایک کریٹ میں کتنے پھل تھے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمار ا کپڑ ا ، پھل اور زرعی اجناس دنیا کی مارکیٹ سے تیزی سے غائب ہوتی جارہی ہیں۔ دنیامیں سب سے زیادہ کینو پاکستان میں پیدا ہوتا ہے ہم پوری دنیا کا 8 فیصد کینو پیدا کرتے ہیں لیکن صرف اس کا نصف عالمی منڈی تک پہنچتا ہے ۔ اس کی وجہ پالش اور پیکنگ کا پست معیار ہے۔ دنیا کا بہترین آم پاکستان میں پیدا ہوتا ہے لیکن امریکہ اور جاپان سمیت دنیا کے چالیس ممالک نے ہمارے آم پر پابندی لگا رکھی ہے ۔ پاکستان کپاس پیدا کر نے والا چوتھا بڑا ملک ہے ہم اکیلے دنیا کی دس فیصد کپاس پیدا کرتے ہیں لیکن ٹیکسٹائل میں بنگلہ دیش تک ہم سے آگے ہے اور ہم دنیامیں سب سے اعلی چاول پیدا کرتے ہیں لیکن عالمی منڈی میں چاول بھارت کا بکتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کی وجہ معیا رہے دنیا سائنسی بنیادوں پر معیا رکا خیال رکھتی ہے ۔ ایکسپورٹ کرنے والے تمام ممالک نے‘‘ ایکریڈیشن’’ کے ادارے بنا رکھے ہیں یہ ادارے اپنے کسانوں اور مل مالکان کو عالمی معیا رسے آگاہ رکھتے ہیں جب تک یہ ادارے کسی پروڈکٹ کو سرٹیفکیٹ نہ دیں وہ پراڈکٹ ملک سے باہر نہیں جاتی یہ ادارے ایکریڈیشن کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں ، چنانچہ ان کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ہم لوگ آئی ایس او کے نام تک سے واقف نہیں ہیں ۔ میں اس سلسلے میں آپ کو چین کی مثال دیتا ہوں اس وقت چین کی صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مالیت 352 ارب ڈالر ہے یہ انڈسٹری ہر سال کپڑوں کے چالیس ارب جوڑے تیار کرتی ہے چین کی ملیں دنیا کے ہر فرد کے لیے تین جوڑے کپڑے تیار کرتی ہیں ۔ یہ پوری دنیا کے کل گارمنٹس کا نصف بنتا ہے چین کی ٹیکسٹائل نے اتنی ترقی کیسے کی ؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے چین ٹیکسٹائل میں عالمی معیار کا خیال رکھتا ہے اگر آج امریکہ پیلے رنگ پر پابندی لگا دے تو چین کل پیلے رنگ کے تمام کپڑے ضائع کر دے گا ۔ چین کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے ۔ بھارت بڑی تیزی سے ایکسپورٹ لسٹ میں اوپر جا رہا ہے اس کی وجہ بھی ایکریڈیشن کے ادارے ہیں اس وقت بھارت میں معیار کی جانچ پڑتال کے 28 ادارے کام کر رہے ہیں جب تک یہ ادارے مصنوعات کے معیار کا سرٹیفکیٹ نہ دے دیں بھارت کی فیکٹریوں سے مال باہر نہیں نکلتا ۔ آپ ملاحظہ کیجیے بھارت کی کمپنیاں پاکستان سے کپڑا چاول اور فروٹ خریدتی ہیں انہیں عالمی معیار کا رنگ اور پیکنگ دیتی ہیں اور د س گنا قیمت پر بیچ دیتی ہیں جبکہ ہم لوگ معمولی سی کوتاہی کے باعث ہر سال 450 ارب روپے کا نقصان کر لیتے ہیں۔
پاکستان نے چند سال پہلے پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل کے نام سے ایک سرکاری ادارہ بنایا تھا یہ ادارہ کم وسائل او رتھوڑی سی افرادی قوت کے باوجود بہت کام کر رہا ہے لیکن اس وقت اس شعبے پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ‘‘ آپ ظلم ملاحظہ کیجیے پی این اے سی نے اب تک صرف 13 لیبارٹریوں کو معیاری قرار دیا ہے جبکہ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں عالمی معیار کی 400 لیبارٹریاں ہیں ’’ اس عدم توجہ کے باعث ہر سال ہماری اربوں روپے کی مصنوعات عالمی منڈی سے واپس آجاتی ہیں اگر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر اس مسلے پر توجہ نہ دی تو ہم اگلے چند برسوں میں مکمل طور پر عالمی منڈی سے نکل جائیں گے جارج سورس نے کہا تھا ‘‘ مارکیٹ ایک میراتھن کی طرح ہوتی ہے جو قومیں اپنی سپیڈ نہیں بڑھاتیں وہ بہت جلد ریس سے باہر ہو جاتی ہیں ’’ ہم لوگ بھی میراتھن کے ایک ایسی ہی کھلاڑی ہیں جو پھٹے جوتوں اور ٹوٹے تسموں کے ساتھ دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں لہذا دنیا ہم پر ہنس رہی ہے ۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ ، لاہور