یہ کیسی عید تھی …… کہ ہر طرف یاس والم کے ڈیرے تھے …… زندگی میں پہلی بار …… اس طرح کی عید مبارک …… کے تجربے سے آشنا ہو رہا تھا ۔ …… دوسروں کا دکھ ، اپنا دکھ اور دوسروں کا غم اپنا غم معلوم ہو رہا تھا …… زبان کی بجائے آنکھیں رواں تھیں …… ملائیشیا سے آئے ہوئے ڈاکٹرز کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے اور سوڈان سے آنے والے بھی رو رہے تھے ۔ اہل باغ بھی صدمے سے نڈھال تھے اور ہمارے ایسے سینکڑوں دوردراز سے آئے ہوئے پاکستانی بھی اشک بار تھے ۔
عید ولولہ :
یہ 1976 کی بات ہے کہ اخبار میں اشتہار پڑھا کہ سید ابو الاعلی مودودی منصورہ لاہور میں پہلی عید پڑھائیں گے ۔ بندہ اس وقت نشتر میڈیکل کالج ملتان میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا ۔ سید محترم کے نام اور کام سے سکول کے زمانے ہی سے تعارف حاصل تھا اس لیے ان کی زیارت کرنے کا شدید خواہش مند تھا ۔ اب جب یہ اشتہار پڑھا تو اس خواہش کی تکمیل کی شکل نظر آئی ، لیکن مسئلہ عید کا تھا ۔ عید تو ہمیشہ سے خاندانوں کے ملاپ اور پردیسیوں سے ملاقات کا وقت ہوتا ہے ۔ ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے آبائی شہر میں ہی عید کے پر سعید لمحات سے لطف اندوز ہو ، لیکن میں بجائے والدین اور بہن بھائیوں کے پاس جانے کے ، ان سے مزید دور لاہو رشہر جانا چاہتا تھا ۔ عمر کے جس حصے میں تھا ، اور جس قسم کی غربت لاحق تھی ، اس کی وجہ سے یہ ناممکن تھا کہ میں لاہور جاتا ، لیکن ‘‘ شوق دا کوئی مل نہیں ’’ کے مصداق گھر خط لکھ دیا کہ بندہ اس عید پر لاہو رجائے گا ۔ لاہو رمیں میرے بڑے ماموں جان کا گھر تھا ۔ خط میں والدین کے لیے یہ عذر تراشا کہ ماموں جا ن سے ماہانہ خرچ لینے کے لیے جا رہا ہوں کیونکہ بعد میں چھٹی کرنے کا مسئلہ ہو گا ۔ ہمارا یہ عذر چل تو گیا ، لیکن والد محترم نے جس شدت سے عید پر میری کمی کو محسوس کیا وہ ناقابل بیان ہے ۔ بہرحال ، بندہ عید سے ایک دن قبل لاہور پہنچ گیا ۔ 30 سال قبل سفری سہولیات کا جو عالم تھا وہ آج کے زمانے کے اعتبار سے کہیں فروتر تھا۔ اس زمانے میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کا جال بچھا ہوا تھا ، جس کا آج کل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ آج کل تو ہر چیز پرائیویٹ ہو چکی ہے ۔ اگر چہ اب سڑکیں کشادہ ، بسیں آرام دہ اور سفر کا دورانیہ کم ہو چکا ہے ، لیکن جس نظم، سلیقے اور پابندی وقت سے وہ سروس چلا کرتی تھی ، آجکل ناپیدہے ۔ قریبا 8 گھنٹے کے طویل سفر کے بعد بندہ لاہو ر پہنچا ۔ ان دنوں مزنگ کے گنجان آباد علاقے میں میرے ماموں کا گھر تھا ۔ سب لوگ مجھے عید کے اس موقع پر غیر متوقع طور پر دیکھ کر حیرا ن رہ گئے ۔ ہماری خاندانی روایات میں ، یہ انوکھا واقعہ تھا ۔ میں نے جب ماموں جان کو یہ بتایا کہ سید مودودی کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کے لیے ، والدین اور عزیز و اقارب سے دور آیا ہوں ، تو وہ اور بھی حیران ہوئے ۔ صبح عید تھی ۔ مولانا محترم نے ساڑھے آٹھ بجے عید گاہ میں تقریر کا آغاز کرنا تھا ۔ وقت کی سیکنڈوں کے لحاظ سے پابندی میں وہ بہت معروف تھے ۔ بندہ عید کی صبح رکشے پر مزنگ چونگی سے ملتان چونگی کے لیے روانہ ہوا۔ 30 سال قبل رکشے والے نے 5 روپے کرایہ طے کیا ، جو کہ آجکل ڈیڑھ سو روپے تک پہنچا ہوا ہے ۔ ان دنوں ملتان روڈ سنگل سڑک تھی ۔ رش کا یہ عالم نہ تھا جو اب ہوتا ہے ۔ یتیم خانے سے آگے اکا دکا تعمیرات تھیں ۔ بہرحال بندہ 8 بجے منصورہ پہنچ گیا ۔ جماعت اسلامی کا یہ مرکزی ہیڈ کوارٹر ان دنوں زیر تعمیر تھا ۔ موجودہ عالی شان مسجد ابھی تعمیر نہ ہوئی تھی ۔ ایک لان میں ، جو آجکل موجودہ مہمان خانے کے شمال میں ہے ، نماز عید کے لیے صفیں بچھائی گئیں تھیں ۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے سید محترم نے کرسی پر بیٹھ کر تقریر کا آغاز کیا ۔ میری ذات کے لیے اس لمحے کی کیا قدروقیمت تھی ، ناقابل بیان ہے ۔ توحید کی برکات ، سیدنا ابراہیم کی قربانی اور حج کے اجتماع کی عالمی نوعیت اور امت کے اتحاد و یگانگت کی اہمیت کو آپ نے اپنے اس خطبے میں واضح فرمایا ۔ سید محترم کے خوبصورت نورانی چہرے ، سپید رنگت اور ملائم شخصیت نے بندہ پر ایک عجیب سا سحر طاری کر دیا تھا ۔ سادہ اور خوبصورت اردو میں ،باوقار انداز سے ، آپ بیان کرتے جا رہے تھے اور ایک ایک بات دل کے دروازے پر دستک دے رہی تھی ۔ بندہ اس وقت تک سید محترم کی تحریریں تو سب پڑھ چکا تھا ، تقریر سننے اور آپ کی زیارت کرنے کا یہ پہلا موقع تھا ۔ جو لطف ، ولولہ اور لذت اس عید نے عطا کیا تھا، اس پر خاندان بھر کے ساتھ منائی جانے والی کئی عیدیں قربان کی جاسکتی ہیں ۔
عید زلزلہ :
کم و بیش تیس سال بعد ، آج بندہ ایک بار پھر خاندان سے دور عید منانے کی تیاریاں کر رہا تھا ۔ 2005 کا ماہ رمضان اور اس کی عید الفطر ، پاکستان کے لیے غم و الم کا پیغام لے کر آئی تھی ۔ 8 اکتوبر کی صبح کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں جو قیامت خیز زلزلہ آیا اس کی تفصیلات تو آپ سن اور پڑھ چکے ہوں گے ۔ آخری عشرے میں ملک بھر سے یہ خواہشات اور اعلانات سامنے آنا شروع ہوئے کہ یہ عید سادگی سے منائی جائے گی اور یہ کہ جن کے لیے ممکن ہو ، وہ یہ عید اپنے دکھی اور مظلوم بھائیوں کے ساتھ گزاریں ۔ اس پر بندہ نے بھی ارادہ کر لیا کہ اس دفعہ عید اپنے ان زلزلہ زدہ بھائیوں کے درمیان گزاروں گا ۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا مشکلات کے کئی پہلو تھے ۔ جہاں والدین ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں سے عید کے اس موقع پر جدائی محال تھی ، وہاں کلینک کا اتنے دنوں بند رکھنا بھی ناممکنات میں سے نظر آتا تھا ۔اس کے علاوہ موسم بھی ٹھنڈزدہ اور سفر بھی مشکل ترین ، جس سے بندہ ہمیشہ اجتناب کرتا آیا تھا ۔ اوپر سے انہی دنوں کمر درد کی پرانی تکلیف بھی عروج پر تھی ۔ جس کی وجہ سے طویل سفر ویسے بھی خطرناک حد تک نقصان دہ ہوتا ہے ۔ مالی حالات بھی ان دنوں کچھ گھٹے گھٹے سے تھے ۔ غرض نہ جانے کے تمام عوامل جمع تھے ، لیکن پھر بھی فیصلہ یہی ہوا کہ ہر حال میں جانا ہے ۔ اگرچہ ، زلزلہ زدہ بھائیوں کی خدمت کے جذبے سے ، پچھلے دنوں میں کئی سفر اختیار بھی کر چکا تھا ( انہی سفروں کے باعث ہی یہ تکلیف عود کر آئی تھی)۔ پھر بھی ان کے درمیان عید کے لمحات گزارنا ایک الگ سے لازمی تقاضا نظر آرہا تھا ۔
باغ میں :
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ذمہ داران سے فون پر بات کر کے اپنی خدمات ان کے سپرد کر دیں ۔ پیما کے توسط سے عید سے ایک دن قبل آزاد کشمیر کے ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر باغ میں قائم شدہ ریلیف کیمپ میں پہنچ گیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان اور پیما نے باہمی اشتراک سے ریلیف اور میڈیکل ایڈ کا جو قابل قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے ، وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے ۔ زخمی لوگوں کے لیے فیلڈ ہسپتال قائم ہے جس میں کم وبیش 80 مریض اس وقت داخل تھے ۔ اس فیلڈ ہسپتال میں مریضوں کے چیک اپ ، علاج معالجے ، طعام و رہائش اور ضروری آپریشنز کا فری بندوبست تھا ۔ یہ علاقہ فی الحقیقت مشکل ترین اور دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے ۔ پیما کے لوگ زلزلے کے چوبیس گھنٹے کے اندراندر ، راولپنڈی سے جا کر باغ میں ، فیلڈ ہسپتال قائم کر چکے تھے ، ان کی سریع الحرکتی واقعتا قابل تحسین ہے۔ جب یہ ٹیم ریلیف لیکر پہلے پہل یہاں پہنچی ، تو حالات جتنے دگرگوں تھے، ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ آج ، جب بندہ وہاں پہنچا تو وہاں خیموں اور شامیانوں کا ایک شاندار فیلڈ ہسپتال قائم ہو چکا تھا ، جس میں زنانہ اورمردانہ وارڈ کے علاوہ ، آؤٹ ڈور کے لیے خیمے ، آپریشن تھیٹر کا خیمہ ، لیبر روم ، ڈریسنگ روم اور لیبارٹری قائم ہو چکی تھی ۔ ایک قریبی متاثرہ عمارت میں ، بہت بڑا میڈیکل سٹور ، ڈسپنسری اور ایکس رے روم قائم کیا گیا تھا ۔ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی بہت بڑی ٹیم لگن ، محبت اور جانفشانی سے زلزلے کے متاثرین کی خدمت میں مصروف تھی ۔
دعائے محبت :
عید کی رات خیمے میں گزاری ، الحمد للہ خوب گزری ۔ نماز فجر کے لیے ، قریبی پہاڑی پر واقع مسجد عمر میں گیا ۔ یہ ایک دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے ۔ جس میں مدرسہ، جماعت اسلامی کے دفاتر اور جامع مسجد شامل ہے ۔ بڑی خوبصورت اور کشادہ مسجد ہے ، جس کی بلڈنگ پر زلزلے کے اثرات موجود تھے ۔ اگرچہ عمارت قابل استعمال ہے لیکن اس کا ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ نماز کے بعد امام صاحب نے جس رقت ، دل سوزی ،محبت اور خلوص سے دعا کروائی ، حقیقت یہ ہے کہ اس نے آنکھوں کو شبنم آلود کر دیا ۔ اگرچہ عید کی صبح تھی لیکن امام صاحب کی دعا نے مغموم کر دیا تھا۔ اندازہ ہو گیا کہ آج ہمارا عید کا دن کیسا گزرے گا۔ امام صاحب کی دعا میں خاص بات پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے خلوص بھری دعائیں تھیں ۔ مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستانی قوم نے جس خلوص سے اپنے کشمیری بھائیوں کی خدمت کی ہے ، درد دل رکھنے والے کشمیری لوگوں میں سپاس گزاری کے جذبات دیکھے جا سکتے ہیں ۔ جس کا ایک مظہر ، امام صاحب کی دعا میں، میں دیکھ رہا تھا ۔ جس خلوص نے انہوں نے ہمارے لیے دعائیں کیں میں نے سمجھا کہ میرا یہاں آنا بارآور ہو گیا ہے ۔
نماز کے بعد ، خیمے میں واپس آیا ۔ کپڑے تبدیل کیے اور کیمپ کا جائزہ لینے نکل کھڑا ہوا ۔چاروں طرف سرسبز و شاداب پہاڑ ایستادہ تھے ۔ پیالے کے پیندے میں یہ ریلیف کیمپ واقع تھا ۔ ایک پہاڑی نالہ ، اپنے شفاف اور ٹھنڈے پانی سمیت گنگنا رہا تھا ۔ اس کے کنارے پر یہ ریلیف کیمپ ہے۔ اس میں ایک طرف تو پیما کا فیلڈ ہسپتال ہے ، دوسری طرف جماعت اسلامی کے ‘‘ الخدمت’’ ونگ کی قائم کردہ خیمہ بستی اور ریلیف کیمپ ہے ۔ جماعۃ الدعوۃ کا ہسپتال اور خدمتی مرکز بھی یہیں واقع تھا ۔ اسی گراؤنڈ میں منہاج القرآن والوں کا بھی ریلیف کیمپ تھا ۔ سب لوگ اپنی اپنی طرز پر اپنے دکھی بھائیوں کی خدمت میں لگے تھے ۔ ان سب کے جذبوں ، ایثار اور خلوص کو سلام ۔ پھرتا پھراتا واپس خیمے میں آیا ۔ سورج طلوع ہو چکا تھا ۔ عید الفطر کا آغاز تو میٹھی میٹھی سویوں سے ہوتا ہے ۔ تصور میں یہ تھا کہ گھرمیں ماں جی نے گھر بھر کے لیے سویاں تیار کر لی ہوں گی اور ابھی سب بہن بھائی کھانا شروع کریں گے ، پھر عید کی تیاریاں ہونگی اور پھر عید کی نماز کے لیے جانا ہو گا ، لیکن باغ کے اس ریلیف کیمپ میں بندہ نے عید کا آغاز مریضوں کے چیک اپ سے کیا ۔ آؤٹ ڈور میں مریضوں کا آنا شروع ہو چکا تھا ، بندہ نے ڈیوٹی سنبھال لی اور مریضوں کو دیکھنا شروع کیا ۔ یہ عید کا آغاز تھا ۔ ساتھ ساتھ عید مبارک بھی دے رہا تھا اور ساتھ ساتھ ان کی آپ بیتیاں بھی سن رہا تھا ۔ وارڈز میں داخل مریضوں کا بھی ایک چکر لگایا ۔
نماز عید :
اتنے میں نماز عید کا وقت ہو گیا ، جماعت اسلامی کے کارکنان نے ، اسی ریلیف کیمپ میں عید کی نماز کا اہتمام کیا تھا ۔ عید کے اجتماع سے خطاب کرنے اور اپنے مظلوم بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرنے جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی رہنما جناب لیاقت بلوچ خصوصی طور پر باغ تشریف لائے تھے۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی کے بیسیوں کارکنان بھی اسلام آباد اور راولپنڈی سے خصوصی طور پر عید کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا سینکڑوں کارکنان پر مشتمل قافلہ اپنے ان دکھی اور آفت زدہ بھائیوں کے لیے ہزاروں کی تعداد میں گفٹ لیکر باغ پہنچا ہوا تھا ۔یہ سب لوگ عید گاہ میں جمع تھے ۔ یہ عیدگاہ بھی اسی ریلیف کیمپ میں شامیانوں کے نیچے تیار کی گئی تھی ۔ عید گاہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حاضر تھی ۔ دور نزدیک کے پہاڑوں سے سینکڑوں لٹے پٹے لوگ ، اپنے اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کے لیے حاضر تھے ۔ غم والم کے ان لمحات میں ، لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کا عید کے لیے حاضر ہونا میرے لیے خاصا فرحت آمیز تھا ۔
عید افسردہ :
اتنے میں مولانا عبدالمنان صاحب جنہوں نے صبح مسجد عمر میں نماز پڑھائی تھی ، تقریر کے لیے سٹیج پر تشریف لائے ۔ اللہ کی حمد و ثنا کے بعد انہوں نے فرمایا ‘‘ ہمارے گھر تباہ ہو گئے ، مال مویشی مر گئے ، ہمارے پیاروں کو موت نے آلیا ، ہم کیا عید منائیں ؟ ہر گھر میں سسکیاں اور آہیں ہیں ، ہماری کوئی عید نہیں ہے ، ہمارے لیے یہ عید ، عید غم والم ہے ۔ یہ عید عید افسردہ ہے ۔ ہر گھر سے جنازے اٹھے ، ہمیشہ ہمیشہ کی جدائیاں ہمارا مقدر بن گئیں ، ایسے میں ہم ، لوگو، کس طرح عیدکی خوشیاں منا سکتے ہیں ۔ یہ تو ایک مذہبی فریضہ ہے ، اسی لیے عید گاہ میں حاضر ہیں ۔ یہ نماز میرے آقا سیدی محمد کریم ﷺ کی سنت ہے ، ہم نے اس کو بہرحال ادا کرنا ہے ۔ اللہ کی مرضی کے آگے ہمارا سر جھکا ہوا ہے ۔ بلاشبہ زبان پر شکرانے اور حمد کے ترانے ہیں ، لیکن اندر سے ہم ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ، عید کی خوشیاں ہم سے روٹھ چکی ہیں ۔ میں آپ کے سامنے تقریر کرنے نہیں کھڑا ہوا ۔ ان حالات میں کوئی تقریر کر بھی کیسے سکتا ہے ، جب دل بجھا ہوا ہو ، دماغ صدموں سے ماؤف ہو اور آنکھوں کے سامنے جدا ہو جانے والے عزیزوں کے چہرے ہوں ۔ اصل تقریر تو پاکستان سے تشریف لائے محترم قائد کریں گے ، میں اس موقع پر دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم دکھ کی اس گھڑی میں اپنے اندر یہ و اضح شعور پیدا کریں کہ ہم اپنے اللہ کی رضا پر راضی ہیں ۔ وہ ہمارا امتحان لے رہا ہے۔ ہم اس آزمائش پر صبر کرنے والے ہیں ۔ حوصلہ مت ہاریں ۔ جس مالک نے دکھ اور تکلیف دی ہے ، سکھ اور راحت بھی تو اسی نے دی تھی ۔ اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے ، دکھ کی یہ گھڑیاں مٹ جائیں گی ، سکھ کے دن بھی آئیں گے انشااللہ ، بے صبرے مت بنیں ۔ اپنے اللہ کے حضور جھک جائیں ۔ پورے صمیم قلب سے ، اس کے دروازے پر جھک جائیں ۔ اس عید کو عید توبہ و استغفار بنا لیں ۔ شہید ہونے والوں کے لیے اللہ سے دعائیں کریں ۔ ان کا وقت پورا ہو چکا تھا ۔ اپنا وقت پورا کر کے وہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ، ہم جو باقی ہیں ، اپنے اپنے وقت اس کے حضور حاضر ہونے والے ہیں ۔اللہ کریم نے اس زلزلے کی صورت میں ہمیں یہ بات سمجھا دی ہے کہ وہ سب پر غالب ہے ، سب پر طاقت رکھتا ہے ۔ عزیزو! یاد رکھو ، وہ مالک جہاں ہے ، عزیز ہے ، حکیم بھی ہے ، رحیم بھی ہے ، اس کی حکمتوں کو کوئی انسان نہیں سمجھ سکتا ۔ وہ رحیم ہے ، غفورہے ، شفیق ہے ، آؤ اس کے دامن میں پناہ لے لو ۔ آؤ ، اس کے در رحمت میں داخل ہو جاؤ ۔ اس کے فیصلوں پر راضی رہو ، اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے ۔
دوسرے نمبر پر ، میں اپنے ان پاکستانی بھائیوں کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ، جو آج عید کے ان لمحات کو ہمار ے ساتھ Share کرنے کے لیے ، دوردراز کا مشکل سفر اختیار کر کے یہاں تشریف لائے ہیں ۔ مشکل کی اس گھڑی میں ، جنہوں نے ہمیں سہارا دیا ، ہماری مدد کی اور ابھی تک ہمیں آرام و سکون پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں ہم ان بھائیوں کو کچھ نہیں دے سکتے ، بس ان کے لیے دعائیں ہی کر سکتے ہیں ۔ ہمارے کچھ لوگوں نے ، آنے والے ان قافلوں کو تکلیف پہنچائی ہے ، ہم اس پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہیں ۔ میں خاص طور پر اپنے پاکستانی ڈاکٹر بھائیوں کا شکر گزار ہوں ، جواپنی عیش بھری زندگیوں اور اپنی بڑی بڑی پریکٹسوں کو چھوڑ کر ہمارے پاس آئے ہیں اور ہمارے زخمیوں اور ہمار ے مریضوں کا دلجمعی اورخلوص سے علاج کررہے ہیں ۔ اسی طرح میں دنیا بھر سے مسلم اور غیر مسلم امدادی کارکنوں کا بھی شکر گزار ہوں ، جو بلاتاخیر ہماری مدد کو پہنچے اور خدمت کی مثال قائم کی ۔ رب کریم ان سب بھائیوں کو اج کثیر سے نوازے ۔ آمین ’’
ان کی تقریر کے بعد ، جماعت اسلامی آزاد و جموں کشمیر کے صف اول کے رہنما جناب عبدالرشید ترابی نے خطاب فرمایا ۔ پہلے تو انہوں نے پاکستانی قوم کا بالعموم اور کشمیر میں امدادی کاموں کے لیے آنے والے کارکنوں کا بالخصوص شکریہ ادا کیا کہ ان لوگوں نے اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غم والم کے ان لمحات میں ، ہمارے ساتھ شریک ہوئے ۔ پھر انہوں نے اپنے ہم وطن بھائیوں کا حوصلہ بڑھایا ، انہیں اعتماد ، صبر اور جوانمردی سے جینے کا درس دیا ۔ بعد میں انہوں نے جناب لیاقت بلوچ کو خطاب کی دعوت دی ۔
جناب لیاقت بلوچ رات ہی اپنے ان دکھی اور غمزدہ بھائیوں کے ساتھ عید گزارنے کے لیے تشریف لائے تھے ۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں متاثرین زلزلہ کو اللہ کریم کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی ۔ انہوں نے پاکستانی قوم اور جماعت اسلامی کی طرف سے ، ہر طرح کے ممکن مدد و تعاون کے تسلسل کی یقین دہانی کرائی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ جس میں کم و بیش سوا لاکھ لوگ جام شہادت نوش کر چکے ہیں ۔اتنی ہی بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام پارلیمانی گروپوں کی ریلیف اور بحالی کے کاموں میں موثر شرکت کو یقینی بنائے تاکہ دور ونزدیک سے اکٹھے ہونے والے وسائل شفاف طریقے سے خرچ ہوں۔
رسمِ دنیا :
محترم لیاقت صاحب کی تقریر کے بعد ، مولانا عبد المنان صاحب نے نماز عید پڑھائی اور خطبہ عید ارشاد فرمایا ۔ نما ز عید ختم ہوئی تو ہمیشہ کی طرح عید کے بعد آپس میں گلے ملنے کی رسم شروع ہوئی ۔ میں اپنے عزیزوں سے دور تھا لیکن جن کو گلے مل رہا تھا ، ان کے عزیز ہمیشہ ہمیشہ کی دوری پر چلے گئے تھے ۔ میں اپنے بچوں سے دور تھا لیکن جن کو مل رہا تھا ان کے بچے تو قبروں میں جاسوئے تھے ، میں اپنے والدین سے دور تھا ، لیکن جن نوجوانوں سے عید مل رہا تھا ، ان کے والدین تو ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئے تھے ۔ اپنے گھر سے سینکڑوں میل کی دوری کے باوجود ، یہاں کوئی اجنبیت نہ تھی ۔ ہم سب گلے مل رہے تھے کہ موقع بھی تھا ، دستور بھی تھا اور رسم دنیا بھی تھی ، لیکن …… عید گاہ میں مبارک سلامت کا شور نہ تھا ، بلکہ آہیں اور سسکیاں تھیں ۔ مسکراہٹیں اور قہقہے نہ تھے بلکہ آنسو اور چیخیں تھیں ۔ آہ و پکا رتھی …… ہم سب گلے مل رہے تھے ، لیکن خوشی سے نہیں غم اور صدمے سے مل رہے تھے ۔ اگرچہ محبت و اخوت کی فراوانی تھی …… لیکن یہ کیسی عید تھی …… کہ ہر طرف یاس والم کے ڈیرے تھے …… زندگی میں پہلی بار …… اس طرح کی عید مبارک …… کے تجربے سے آشنا ہو رہا تھا ۔ …… دوسروں کا دکھ ، اپنا دکھ اور دوسروں کا غم اپنا غم معلوم ہو رہا تھا …… زبان کی بجائے آنکھیں رواں تھیں …… ملائیشیا سے آئے ہوئے ڈاکٹرز کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے اور سوڈان سے آنے والے بھی رو رہے تھے ۔ اہل باغ بھی صدمے سے نڈھال تھے اور ہمارے ایسے سینکڑوں دوردراز سے آئے ہوئے پاکستانی بھی اشک بار تھے ۔ …… ہم سب ایک تھے …… ایک دکھ کے ساجھی …… اور ایک ہی غم کے شریک …… ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو دلاسا دے رہا تھا …… تسلیاں دے رہا تھا ۔ ہم میں سے ہر ایک ، دوسرے کے آنسو پونچھ رہا تھا …… مبارک باد دے رہا تھا …… کہ آخر عید تو تھی نا …… روزوں کی مبارک …… عبادتوں کی مبارک …… تراویح اور ریاضتوں کی مبارک ……
عید کے شکرانے کی مبارک ……!! اہل باغ اور اردگرد کے دیہاتوں سے لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ۔ ہر آدمی زخمی دل لیے ، ایک دوسرے کا سہارا بنا ہوا تھا ۔
عید ملن پارٹی :
عید گاہ سے واپس لوٹے تو ہسپتال کے مریضوں سے عیدی ملی ، مریض اور ان کے لواحقین ، اپنے پیاروں کی یاد میں ، حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے تھے ۔ ہمیں دیکھ کر ان کے چہروں پرکچھ رونق لوٹ آئی تھی ۔ اس فیلڈ ہسپتال میں 80 کے قریب مریض داخل تھے ۔ یہ صرف مریض ہی نہ تھے بلکہ بے گھر اور بے سہارا لوگ تھے ۔ ایک مریض کے ساتھ اس کی فیملی بھی پناہ لیے ہوئے تھی ۔ ان لوگوں کے ساتھ عید ملنا اور سارا دن ان کے ساتھ رہنا ایسا تجربہ تھا جو ساری زندگی یاد رہے گا ۔ آؤٹ ڈور میں نئے مریض بھی مسلسل آرہے تھے ۔ ان کے معائنے کے لیے ہم آؤٹ ڈور میں بیٹھ گئے اور عید کا سارا دن اس کام میں گزار دیا ۔ ہسپتال کے عملے نے ، ان بے سہارا لوگوں کے لیے ، خصوصا بچوں کے لیے عید ملن پارٹی کا ایک خوبصورت پروگرام ترتیب دیا ہوا تھا ۔ یہ رنگا رنگ پروگرام ان بچوں کے چہروں کو مسکراہٹیں دینے میں خاصا کامیاب رہا ۔ مریضوں میں نقدعیدی بھی تقسیم کی گئی اور دیگر تحفے تحائف بھی دیے گئے ۔ مجموعی طور پر یہ ایک یادگار دن تھا ۔