روایت ، مس صائمہ مغل ، علی احمد
تحریر، ڈاکٹرخالد عاربی
میں مظفرآبادکی رہنے والی ہوں۔میرا شہر جس میں آج ویرانیاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اس میں کبھی خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی تھیں۔ہائے میرے حسین وجمیل شہر تجھے کس کی نظر کھاگئی۔
۸، اکتوبر ۲۰۰۵ کی صبح ایک خوبصورت صبح تھی ۔میں حسب معمول سکول گئی۔کلاس ششم کا پیریڈ لے رہی تھی کہ خوفناک آواز پیدا ہوئی اور ایک دم سے سکول کی عمارت نیچے آن رہی ۔ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ یہ آنا فانا کیا ہو گیا ہے۔ہر بچہ خون سے لت پت تھا۔میں نے اپنی کلاس کے ایک بچے کو ملبے سے نکال کر زمین پر لٹایا تو اسنے ایک ہی سانس میں میرے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔مجھے اپناآپ سنبھالنا مشکل ہورہاتھا۔لاشوں کے ڈھیر لگنے شروع ہو گئے تھے اورہرطرف زخمیوں کی آہ وبکا تھی۔سکول کاساراسٹاف زخمی تھا۔ایک ٹیچر نیچے گری ہوئی تھی اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا اور اس کی ٹانگ کٹ کر دو ٹکڑے ہو چکی تھی۔لوگ افراتفری میں اسکے اوپرسے گزر رہے تھے۔میں اسکے لیے کچھ بھی نہ کر سکی اس کے اوپرپورا ستون گرا ہوا تھا۔اس لمحے کوئی بھی کسی کے لیے کچھ نہ کر سکتا تھا۔لوگ زخمیوں اور لاشوں کے اوپرسے گزر کر اپنے بچوں کو تلاش کر رہے تھے۔میرے ذہن میں آیا کہ کسی وجہ سے صرف ہمارے سکول کی عمارت گر گئی ہے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ لاشوں کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ایک ٹیچرنے کہا کہ صائمہ نہ جانے میری امی زندہ ہو گی کہ نہیں۔تب جا کہ مجھے یہ پتا چلاکہ زلزلہ سے دنیا تبا ہ ہو چکی ہے ۔مجھے بھی یکدم اپنے گھر کا خیال آیا اورمیں بھی اپنے گھر کی طرف دوڑپڑی۔وہاں پہنچے تو گھر تباہ ہو چکا تھا راستے بلاک تھے گلیاں زخمیوں اور لاشوں سے بھری ہوئی تھیں۔ مکانوں کی ٹینکیوں کے پانی سے سیلاب آیا ہوا تھا۔جو گنے چنے افراد صحیح سلامت تھے وہ بآواز بلند کلمہ پڑھ رہے تھے۔میری گلی میں کوئی بھی مکان نہ بچا تھا۔لوگ ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔ایک عورت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی لوگو میرے لعل کو بچاؤ مگر وہاں کوئی کسی کی مدد کے قابل نہ تھا۔ہر کسی کو اپنی پڑ ی ہوئی تھی کتابوں میں جو قیامت کامنظر پڑھ رکھا تھا اب وہ ہمارے سامنے تھا۔ہمارے گھر کے دو افراد میری بھابھی ، کزن اور ایک بھتیجا شدید زخمی تھے۔ان کو لے کر ہسپتا ل گئے تو وہاں بھی اللہ ہی اللہ تھی۔وہاں کون بچا تھا جوہمارے زخمیوں کو چیک کرتا۔دونے راستے ہی میں دم توڑ دیا۔ بچے کھچے لوگوں نے ایک قبرستان میں پناہ لے رکھی تھی۔ساتھ ہی لوگ دھڑا دھڑ لاشیں لارہے تھے۔ہر گھر میں ماتم تھا۔اب لوگ ایک ہی کام کر رہے تھے مردے دفنانے کا۔کوئی دوسرے گھر کے جنازے میں شامل نہیں ھو رہا تھا۔جب میرے بھتیجے کودفنانے کی باری آئی توصرف میرے دو بھائی تھے۔جوقبر بنا رہے تھے نہ ہی کفن تھا اورنہ ہی غسل۔اس کے بغیرہی تدفین کر دی گئ۔سب اسی فکر میں تھے کہ کسی طرح لاشوں کو زمین کے سپر د کر دیا جائے ۔قبروں میں دودو لوگ لٹائے جارہے تھے۔بعض لاشوں کو تو دفنانے والا بھی کوئی نہ تھا ۔رات سر پر آرہی تھی اورموسم بھی خراب ہو رہا تھا۔
میرے چچا کا بیٹا سکول ہی میں تھا ہم اس کو ڈھونڈنے سکول گئے توسکول کا گراونڈ خون سے بھرا پایا۔ہر طرف اعضا بکھرے پڑے تھے ۔لوگ دیوانہ وار بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔کسی کوکسی کاہوش نہ تھا ۔ملبے تلے سے سینکڑوں بچوں کی مدد کے لیے پکارتی آوازیں الگ دل دہلا رہی تھیں۔ اسی منظر میں دن کے تین بجے پتا چلاکہ میرا کزن زندہ ہے ۔لیکن ابھی وہ ملبے تلے ہی تھا۔شام کو اسے نکالا جاسکا۔اللہ کا شکر ہے کہ وہ صحیح سلامت تھا اس نے کئی اوربچوں کی نشاندہی کی جن میں سے بعض کو نکال لیا گیا جبکہ بعض وہیں دب کر رہ گئے ۔
رات سر پر آرہی تھی مگر لوگوں کے پاس سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ تھی۔زلزلے کے جھٹکے بھی مسلسل آرہے تھے۔ ہرطرف ذکر کی آوازیں تھیں۔اتنے میں بارش شروع ہوگئی بچے اور بڑے کوئی بھی درختوں کے نیچے جانے کوتیار نہ تھا ۔ڈ ر تھا کہ کہیں وہ اوپر ہی نہ آر ہے۔رات کاطوفان بھی دن سے کم نہ تھا ہر طرف آندھی ، بادلوں کی گھن گرج ، بجلی کے کڑاکے اور بارش کا زور۔خدائے مہربان آج پوری شدت کے ساتھ ہمیں آزمانے پر تلا ہوا تھا۔ہمارے قریب ایک پتہ بھی ہلتا تو لگتا کہ زلزلہ آگیا ہے ۔یہ دن اوریہ رات میری زندگی کی طویل ترین رات بن چکی ہے ۔اب تو سوچتی ہوں کہ جوپتھروں تلے جا سوئے وہ شاید ہم سے بہتر تھے ۔ہمارے لیے تو ابھی بہت سی سختیاں منتظر ہیں۔
ہماری بھی کوئی عید ہے؟
علی احمد کے بقول وہ اپنی دکان پر بیٹھا تھا یہ دکان باغ کے مین بازار میں تھی ۔علی احمد نے کہا کہ میری کریانہ کی دکان تھی۔ اللہ کا فضل تھا معقول آمدن تھی اورزندگی بسہولت گزر رہی تھی۔بیوی اور چار بچوں کا ساتھ تھا۔ ۸ اکتوبر کو دکان کھول کر سامان ترتیب دے رہا تھا کہ یکایک گڑگڑاہٹ کی آواز آئی اور یوں محسوس ہواکہ زمین سرکنا شروع ہو گئی ہے ۔میں دکان سے باہر نکلا ہی تھا کہ دکان کی چھت دھڑام سے نیچے آ رہی۔ میرے چاروں طرف ملبے کے ڈھیر لگ رہے تھے اور چیخ و پکار برپا تھی۔ قریباً سب دکانیں زمیں بوس ہوچکی تھیں۔کسی نے کہا کہ کالج کی عمارت تباہ ہوچکی ہے اور سب بچیاں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ہم اس طرف بھاگے تو ۱۹، لاشیں میرے سامنے نکلیں۔اسی اثنا میں گھر کا خیال آیا تو میں اس طرف بھاگا وہاں بھی ایک قیامت میری منتظر تھی۔ بیوی اور تین بچے ملبے تلے دب کر اللہ کو پیار ے ہو چکے تھے۔چوتھا بچہ سکول میں تھا میں سکول کی طرف بھاگا وہاں پہنچا تو سکول کی عمارت بھی منہدم ہو چکی تھی اور لوگوں کا ایک اژدہام تھا جوملبے تلے سے اپنے بچوں کوزندہ نکالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔اللہ کا شکر ہے کہ میرا بیٹا زندہ مل گیا بس یہ بھی اللہ ہی کی طرف سے تھا۔ وہ استاد صاحب کے کسی کام سے کلاس روم سے نکلا ہی تھا کہ زلزلہ آ گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے عمارت کھنڈر بن گئی ۔اب میں ہوں اور میرا بیٹا ۔تین بیٹے اور بیوی پتھروں تلے جا سوئے ایسے میں ہماری بھی عید کوئی عید ہے؟