تاریخ
جاہلی عرب میں بیٹیوں کا قتل
مبین قریشی
کیاسارے عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے ؟اس موضوع پر جسطرح ہمارے بعض مفسرین نے ایک روایت کی بنیاد پر اشارات کئے ہیں ان پر کئی طرح کے سوالات نے جنم لے لیا۔ ماضی قریب میں بھی علامہ آلوسی بغدادی نے اپنی مشہور زمانہ بلوغ الارب فی معرفہ احوال العرب میں اسی روایت کو بنیاد بنا کر لکھ دیا کہ نوزائدہ بچیوں کا قتل جزیرہ عرب کے ہر ہر قبیلے میں عام طور پایا جاتا تھا۔ یہ روایت ایک راوی ھیثم بن عدی نے بیان کی ہے جسکے متعلق اسماء الرجال کے ماہرین نے اقوال نقل کئے کہ یہ شخص رات کا عبادت گزار لیکن دن بھر جھوٹے قصے کہانیاں سنانے والا تھا۔ ابن معین، ابو داؤد، بخاری اور نسائی وغیرہ سب نے اسے جھوٹا کہاہے درایت کے لحاظ سے تو یہ ویسے ہی بالکل ردی خبر تھی لیکن اس ھیثم کے ثابت شدہ جھوٹا ہونے نے اسے سند کے لحاظ سے بھی موضوع ثابت کردیا۔ مفسر قرطبی نے تو بلکہ واضح کیا ہے کہ قحطانی عربوں میں بنو خزاعہ (قریش سے پہلے کعبہ کے متولی) اور عدنانی عربوں میں سے بنو کنانہ چونکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے اسلئے وہ اپنے ہاں بھی بیٹیاں پیدا ہونے کو اچھا شگون تصور کرتے تھے۔ اسی طرح مفسر قرطبی نے ہی قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ بنو تمیم اور کچھ اقوال کے مطابق بنو کندہ کے بھی کچھ بدو قبائل میں بچیوں کے زندہ درگور کرنے کے واقعات عموماً ہوتے رہتے تھے۔ انکے ہاں بھی بچیوں کو درگور کردینے کے جو اسباب محققین نے ڈھونڈے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
۱۔ ان میں سے کچھ قبائل کے مابین باہمی چپقلش چلتی تھی جسکی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی بالغ لڑکیوں کو اغوا کرکے لونڈیاں بنا لئے کرتے تھے۔ اس وجہ سے وہ مستقبل کی اس خفت سے بچنے کے لئے بچیوں کو پیدائش کے ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے قتل کردیتے تھے۔ اس ضمن میں بنو تمیم میں سے بنوقیس کے جد قیس بن عاصم کا واقعہ تورایخ میں ملتا ہے کہ کیسے اسکی اغوا شدہ لڑکی نے نعمان بن منذر کی مداخلت کے باوجود اپنے گھر میں لوٹنے سے انکار کیا تو اس نے قسم اٹھائی کہ اب سے وہ اپنے گھر میں لڑکیوں کو پیدائش کے ساتھ ہی درگور کردیا کرے گا۔ اس واقعے کا ہی ایک دوسرا ورژن یہ بھی ملتا ہے کہ جب تمیم میں بنو ربیعہ پر حملہ ہوا تو کیسے حملہ آوروں نے انکی ایک لڑکی کو اٹھالیا جسکی وجہ سے بنو ربیعہ کو ہتھیار پھینک کر صلح پر اترنا پڑا لیکن صلح کی شرائط کے تحت جب لڑکی کو اپنے عاشق کے ساتھ رہنے یا لوٹ کر قبیلے میں جانے کے درمیان فیصلے کا اختیار دیا گیا تو اس نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ جس سے اس قبیلے میں لڑکیوں کو پیدائش کے ساتھ قتل کرنے کے واقعات نے جنم لیا۔
۲۔کچھ بدو قبائل میں اگر لڑکی پیدائشی طور پر معذور پیدا ہوتی تو اسے رشتہ نہ ملنے کے اندیشے سے قتل کردیا جاتا۔
۳۔ کچھ لوگوں میں کثیر الاولاد ہونے کے ساتھ انتہائی غربت کی وجہ سے نومولود بچی کو قتل کردیا جاتا۔
۴۔کچھ لوگ استھانوں میں اس طرح کی منتیں مان لیتے تھے جسکی وجہ سے اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے اس استھان کی نذر کے طور پر قربان کردیتے۔
مذکورہ بالا قتل کے واقعات بھی مختلف طرح سے سامنے آتے تھے۔ کچھ گلا گھونٹ دیتے، کچھ زندہ درگور کردیتے جبکہ کچھ بلندی سے گرا کر قتل کرتے۔ ان بدو قبائل کے برعکس عرب جاھلیہ میں ہی ایسے نیک دل لوگ بھی موجود تھے جو ان واقعات پر افسردہ ہوتے اور لوگوں کو ان سے نفرت دلاتے۔ علامہ آلوسی اور علامہ قرطبی دونوں نے ایسے نیک دل لوگوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ وہ کیسے ایسے لوگوں کو پیسے دے کر ان سے انکی نومولود لڑکیاں لے لیا کرتے تھے تاکہ وہ انھیں قتل نہ کردیں۔ مثلاً انھوں نے زید بن عمرو کا ذکر کیا کہ انھوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ جو اپنی لڑکی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ ایسا کرنے کی بجاے بچی اسے دے دے تاکہ وہ اسکی پرورش کرسکے یا اسے اپنے ہی گھر رکھے اور اسکا خرچ زید بن عمرو سے لیتا رہے۔ اسی طرح جاھلیہ کے مشہور شاعر فرزدق کے دادا صعصہ کا نام انھوں نے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں چھیاسٹھ بچیوں کی جان اسی طرح بچائی اسی طرح کچھ لوگوں مثلاً ربیع بن العطاء کا تذکرہ اسطرح بھی ملتا ہے جو اسی طرح کے بدو خاندانوں میں سے تھے اور جب انکے والد نے انکی بہنوں کو قتل کرنا چاہا تو انھوں نے مداخلت کرکے انکی جان بچائی۔ کچھ خواتین کے واقعات بھی ملتے ہیں جنکی مداخلت اور ہمت سے انکی بچیوں کی جان محفوظ رہی۔
الغرض عرب الجاھلیہ میں جہاں ایسے واقعات کچھ بدو قبائل (زیادہ تر بنو تمیم یا بنو کندہ) میں ملتے ہیں وہیں اس دور میں ایسے لوگوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ان واقعات کے خلاف مدافعت کرتے تھے۔ تاہم یہ دعویٰ یا تاثر صحیح نہیں ہے کہ عرب جاھلیہ کا ہر ہر قبیلہ ایسے واقعات میں ملوث تھا اور لڑکیوں کو قتل کردینا ایک عمومی عادت تھی۔ بعینہ قرآن نے عربوں میں جن جن برائیوں کا ذکر کیا ہے تو اس ذکر کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ برائی ہر ہر قبیلے یا بندے میں پائی جاتی تھی۔ ہمارے مفسرین یا سیرت نگاروں نے عرب جاھلیہ کو بعض اوقات مجموعی طور بالکل ڈھور ڈنگر اور اخلاقی اقدار سے یکسر بیگانہ دکھایا ہے جو کہ حقیقت نہیں ہے۔ اس طرح کے تاثر دینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مستشرقین کو قرآن کی صداقت پر انگلیاں اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔