عام خیال یہی ہے کہ مسلمان مرد بغیر کسی شرط کے یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ لیکن قرآن مجید کے سیاق پر غور کرنے سے یہ خیال صحیح معلوم نہیں ہوتا۔
وہ آیت جس میں اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے اس کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کی اجازت تو ہے مگر کچھ شرائط بھی ہیں۔
قرآن مجید غیر مربوط آیات کا مجموعہ نہیں بلکہ انتہائی منظّم کلام ہے۔اس کی ہر آیت دوسری آیت سے اسی طرح جڑی ہوئی ہے جس طرح موتی ایک مالا میں پروئے جاتے ہیں۔کسی بھی آیت کے حکم کو اس کے سیاق وسباق کے بغیر صحیح طور پر نہیں سمجھا جاسکتا۔سیاق وسباق کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں احکامات کی بہت غلط تعبیر ہو سکتی ہیـ اور یہی اس آیت کے ساتھ ہواہے۔آئیے اب ان آیات کو دیکھتے ہیں جن میں یہ حکم بیان ہوا ہے۔سورۃ المائدہ کی آیت ۳ میں ہے۔‘‘اب یہ کافر تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے تو ان سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو،اب میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا ’’۔اسی سورۃ میں آگے فرمایا:‘‘اب تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور شریف عورتیں مسلمان عورتوں میں سے اور شریف عورتیں ان اہل کتاب میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی ہے تمھارے لیے حلال ہیں بشرطیکہ ان کو قید نکاح میں لا کر ان کے مہر ان کو دو،نہ کہ بد کاری کرتے ہوئے اور آشنائی گانٹھتے ہوئے ’’۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ احکامات اس وقت نازل ہوئے جب سرزمین عرب میں اسلام کی بالا دستی قائم ہوچکی تھی، غیر مسلموں کی مسلمانوں پر غالب آنے کی تمام امیدیں خاک میں مل چکی تھیں اور مسلمان ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے۔ان حالات میں جب کہ اسلام کا نفاذ ہوچکا تھا مسلمانوں کو اہل کتاب عورتوں سے شادی کی اجازت دے دی گئی ـاوراہل کتاب میں سے بھی صرف ان خواتین سے شادی کی اجازت دی گئی جو نیک ،پارسا اور دیانت دار ہوں۔ان حالات میں یہ بات واضح تھی کہ اگر مسلمان مرد ان اوصاف کی حامل اہل کتاب عورتوں سے شادی کرتے ہیں تو ان مردوں پر ان کے مذہب یا ان کی تہذیب وروایات کا کوئی اثر نہیں ہوگابلکہ اس کے برعکس اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ ان خواتین پر مثبت اثر ہوتا اور وہ اسلام قبول کر لیتیں۔مولانا امین احسن صاحب اصلاحی ان آیات کی تفسیرمیں لکھتے ہیں۔‘‘ہمارے سلف صالحین میں سے ایک گروہ نے دارلحرب اور دارالکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے ان کے نزدیک اس کے جواز کے لیے دارالاسلام ہونا بھی ایک شرط ہے مجھے یہ قول بہت قوی معلوم ہوتا ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے یہ بات فحوائے کلام سے مستنبط کی ہے میں اس کے لیے لفظ ‘‘الیوم’’کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی دخل ہے۔اوپر‘‘الیوم یئس الذین کفروا اور الیوم اکملت لکم ’’والی آیات بھی گزر چکی ہیں اور فلا تخشوھم واخشون بھی ارشاد ہوا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس دور میں کفّار کا دبدبہ ختم ہوچکا تھااور مسلمان ایک ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے ۔یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہوکر تہذیب ، معاشرت اور اعمال واخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے ۔بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے کتابیات کے عقائد واعمال میں خوشگوار تبدیلی آئے گی اورعجب نہیں کہ ان میں سے بہت سی ایمان واسلام سے بھی مشرّف ہوجائیں۔علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہرحال علی سبیل التنزیل دی گئی ہے ۔اس میں آدمی کے آل اولاد اور خاندان کے دین وایمان کے لیے جو خطرہ ہے ’وہ مخفی نہیں ہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مردوں کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی لیکن مسلمان عورت کو کسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی خواہ کتابی ہو یا غیر کتابی ۔یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجازت صرف ایک اجازت ہے ۔یہ کوئی مستحسن چیز نہیں ہے۔اگر ماحول اسلامی تہذیب ومعاشرت کا ہو اور آدمی کسی نیک چال چلن کی کتابیہ سے نکاح کرلے تو اس میں مضائقہ نہیں لیکن کافرانہ ماحول میں جہاں کفراور اہل کفر کا غلبہ ہو اس قسم کا نکاح چاہے اس آیت کے الفاظ کے خلاف نہ ہو لیکن اس کے فحوی ، اس کی روح اور اس کے موقع ومحل کے خلاف ضرور ہے۔یہ بات یہاں چنداں یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کے بہت سے قوانین دارالاسلام کی شرط کے ساتھ مشروط ہیں اسی طرح اس کی بعض رخصتیں اور اجازتیں بھی خاص ماحول اور خاص حالات کے ساتھ مشروط ہیں ’’۔
اس تجزیہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آج کل اہل کتاب خواتین سے شادی کرنے کی خواہش وہیں جنم لیتی ہے جہاں نہ تو اسلامی تہذیب وروایات ہوتی ہیں اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کا اثر،اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر اسلامی ماحول میں رہنے اور غیر مسلم عورت سے شادی کرنے کے نتیجے میں اولاد اسلام کے اثر سے کوسوں دور چلی جاتی ہے۔