جس شخصیت کو اردو زبان میں قرآن مجید کا پہلا سلیس اور بامحاورہ ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے وہ شاہ عبدالقادرؒ ہیں۔بعد کے مترجمین نے انہیں کے ترجمے کو سامنے رکھ کر ترجمے کیے۔کچھ نے زبان کو اور آسان کیا، کچھ نے زیادہ الفاظ میں تشریح کر کے لوگوں کے فہم میں اضافہ کیا اور کچھ نے جدید ذرائع اور جدید الفاظ کی مدد لی۔
شاہ عبدالقادر برصغیر کے مشہور عالم اور مصلح دین شاہ ولی اللہ دہلوی کے تیسرے فرزند تھے۔1753ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ بچپن اپنے والدکے زیر سایہ بسر کیا اور انہی سے تمام دینی علوم کی تعلیم مکمل کی ۔اپنے بڑے بھائی شاہ عبدالعزیز کے بھی شاگرد رہے۔ پھر ایک بزرگ شیخ عبدالعدل دہلوی کے حلقہِ تربیت میں شامل ہوئے۔جب آپ نے تفسیر حدیث اور فقہ کے علوم میں مہارت حاصل کر لی تو تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ سنجیدگی سے اپنے کام میں مشغول رہتے اور دنیاوی جھگڑوں سے الگ رہتے۔ عمر کا بڑا حصہ آپ نے دہلی کی اکبر آبادی مسجد کے ایک حجرے میں گزار دیا ۔عبادت اور ذکر الہی میں مشغو ل رہتے یا تعلیم وتدریس میں۔
آپ کے شاگردوں میں بڑے نامی گرامی علما شامل تھے۔زیادہ مشہور یہ ہیں ۱۔مولانا رشید الدین خان ۲۔مولانا رفیع الدین مراد آبادی ۳۔ مولانا فضل حق خیر آبادی، جنہیں 1857 ء کی جنگ آزادی کے حق میں فتوی دینے پر انگریزوں نے کالے پانی اور پھرپھانسی کی سزا دی۔۴۔مفتی صدرالدین جو دہلی کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پر فائز ہوئے۔وہ شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالعزیز دونوں بھائیوں سے پڑھے ہوئے تھے۔ ۵۔ شاہ اسماعیل جو شاہ عبدالقادر کے بھتیجے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے اندر دعوت واصلا ح کی تحریک برپاکی ۔کئی مشرکانہ رسموں کا خاتمہ ان کے وعظوں کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ پھر وہ سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے بالاکوٹ کے مقام پر شہید ہوئے۔
شاہ عبدالقادر کو مذہبی مقام کے ساتھ ساتھ دنیاوی عزت بھی بہت حاصل تھی۔ بڑے بڑے ریئس اور لال قلعہ کے شہزادے آپ کے پاس حاضر ہوتے۔ آپ خندہ پیشانی اور مسکراہٹ کے ساتھ ملتے لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے ان کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ آپ کی پیش گوئیاں اکثر پوری ہوتیں مگر عام طور پر کسی شخص کے بارے میں کچھ کہنے سے پرہیز کرتے۔
قرآن مجید کا اردو ترجمہ شاہ عبدالقادر کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ترجمہ کرنے سے پہلے انہیں خواب آیا کہ گویا قرآن مجید ان پر نازل ہو رہا ہے۔انہوں نے اپنے بڑے بھائی شاہ عبدالعزیز کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے کہا ‘ایک مسلمان پر قرآن مجید نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کی کوئی ایسی خدمت کرے گا جو پہلے کسی نے انجام نہ دی ہو’۔یہ حقیقت ہے کہ اس ترجمے کی وجہ سے شاہ صاحب کانام رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ اس سے پہلے آپ کے بڑے بھائی شاہ رفیع الدین ترجمہ کرچکے تھے لیکن وہ لفظی تھا ۔ اس طرح کہ ایک عربی لفظ کے مقابلے میں ایک اردو لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ عربی عبارت اوراردو تحریر کی تالیف میں بہت فرق ہوتاہے۔جب ترجمہ کیا جائے تو الفاظ کو آگے پیچھے کرکے جملے کو مربوط کر نا پڑتا ہے تب جاکر عبارت سمجھنا ممکن ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شاہ رفیع الدین کے ترجمے کو روانی سے پڑھتے ہوئے سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ہاں عربی زبان کے نئے طالب علموں کے لیے اس کی افادیت ہے۔ وہ ہر عربی لفظ کا اردو مطلب سمجھ لیتے ہیں۔ اس طرح انہیں زبان سیکھنے میں آسانی رہتی ہے۔شاہ عبدالقادر نے پہلی بار قرآن مجید کی ایک آیت کے مقابلے میں اردو کے ایک جملے کو ترجمے کے طور پر پیش کیا ۔یوں وہ ایک باربط ترجمہ بن گیا۔ لیکن چونکہ یہ ترجمہ آج سے سوا دو سو سال پہلے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس کے الفاظ میں سے کئی نامانوس اور متروک ہو گئے ہیں۔ جیسے شاہ صاحب‘‘ قید خانہ ’’کی جگہ ‘‘بندی خانہ’’ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔‘‘میرا رب وہ ہے جو جِلاتا ہے اورمارتا ہے’’۔اس ترجمے میں ‘‘جِلاتا ہے’’ کا لفظ اب عام استعمال نہیں ہوتا۔اس کی بجائے ‘‘زندہ کرتاہے’’ بولا جاتا ہے۔‘‘گمراہ کرنا’’کی جگہ وہ ‘‘بچلانا ’’لکھتے ہیں۔یہ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ ترجمے کو بار بار پڑھنے سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اگر دوسرے ترجموں کو بھی دیکھ لیا جائے تو کوئی خاص مشکل نہیں پیش آتی۔پھر کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں جو پچھلے دو سوسال میں اردو املا میں آ گئی ہیں ۔یہ بھی ترجمے کے مسلسل مطالعے سے پتا چل جاتی ہیں۔
آپ نے یہ ترجمہ اٹھارہ سال کی مدت میں مکمل کیا ۔باوضو ہو کر ترجمہ کرنے بیٹھتے ۔مختصر ترجمے میں انہوں نے قرآن کے مطالب کو بخوبی ادا کر دیا ہے۔پھر انہوں نے اپنے والد شاہ ولی اللہ دہلوی کی فارسی تفسیر قرآن ‘‘فتح الرحمان’’ کا اردو ترجمہ بھی کیاجو ‘‘ مُوضح القرآن ’’کے نام سے مشہور ہے۔اس ترجمے اور تفسیر کے علاوہ آپ کی کوئی اور تصنیف نہیں۔
آپ کی صرف ایک بیٹی تھی جس کی شادی آپ نے اپنے بھتیجے عبدالرحما ن سے کی۔ وہ شاہ رفیع الدین کے فرزند تھے اور مصطفی کے نام سے مشہور تھے۔ پھر اپنی نواسی کا نکاح اپنے بھتیجے شاہ اسماعیل سے کیا۔ وہ آپ کے سب سے چھوٹے بھائی شاہ عبد الغنی کے بیٹے تھے ۔ جب شاہ اسماعیل نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں تو شاہ عبدالقادر نے انہیں وعظ و نصیحت میں بھی اعتدال سے کام لینے کی ہدایت کی ۔ شاہ صاحب کی طبیعت میں بے نیازی تھی ۔
آپ نے اپنی زندگی ہی میں اپنی ساری جائیداد اپنی اکلوتی بیٹی اور اپنے بھائیوں کے نام کردی تھی اور اپنے داماد شاہ اسماعیل کو بھی ایک حصہ دے دیا۔
آپ نے1814ء میں61 سال کی عمر میں وفات پائی اور اپنے آبائی قبرستان مہندیوں میں دفن ہوئے۔یہ عجیب بات ہے کہ شاہ ولی اللہ کے چار بیٹے ،شاہ عبدالعزیز ، شاہ رفیع الدین،شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالغنی تھے۔یہ چاروں سگے بھائی تھے اور اسی ترتیب سے پیدا ہوئے لیکن ان کی وفات الٹ ترتیب سے ہوئی ۔شاہ عبدالغنی جوانی میں فوت ہوئے۔پھر شاہ عبدالقادر ، ان کے بعد شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز نے سب سے آخر میں بڑھاپے کی حالت میں وفات پائی۔