پاکستان کی اٹھاون سالہ زندگی کا شاید یہ پہلا سال ہے کہ جس میں انڈیا سے دشمنی ختم کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طرفین کی جانب سے کھلے عام پر جوش کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ایک کلچر اوریکساں ثقافت کے مشترکہ پہلوؤں کو اجاگر کیا جا رہا ہے ۔ دیوار برلن کی طرح دیوار ‘‘ برہمن ’’ کو بھی گرانے اور سرحدوں کی مصنوعی لکیر کو مٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ وفود کے تبادلے ہورہے ہیں اور بسیں آ جا رہی ہیں ۔ سرکاری اور غیر سرکاری مشاہیر کی آمدو رفت کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے اورعوامی رابطے بھی بڑھ رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ اعتماد سازی کے اس سارے عمل کو ہم تحسین کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ اگرچہ موہوم خطرات بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی ہم سمجھتے کہ موجود ہ پیش رفت کو سراہا جانا ضروری ہے ۔
اگرچہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ انڈیا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں آپ چاہیں تو انتہا پسند کہہ لیں ’ چاہیں تو بنیاد پرست ’ وہ ان اعتماد افزا اقدامات کو شک کی نظر سے دیکھتے او ر تعلقات کے بگاڑ ہی کواپنی اپنی قوموں کے لیے مفید خیال کرتے ہیں ۔ لیکن ہم بہرحال خیر سگالی کی موجودہ فضا کو دونوں طرف کی سوا ارب آبادی کیلیے یقینا سود مند خیال کرتے ہیں ۔
پیارو محبت کی اس گہما گہمی میں ’پچھلے دنوں انڈیا کے قائد حزب اختلاف ’ اور وہاں کی معروف مذہبی اور سیاسی جماعت ’ بی جے پی ( بھارتیہ جنتا پارٹی ) کے صدر جناب ایل کے اڈوانی پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے ۔ عام طور پر مسٹر اڈوانی ایک پاکستان دشمن ’ ہندوبنیاد پرست اور دین اسلا م سے نفرت کرنے والے فرد کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں آکر انہوں نے جس پیار اور محبت سے باتیں کیں اور جس طرح سلگتے مسائل پر اپنا مٹھاس بھرا تجزیہ انڈیلا ’ اس پر پریس میں انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے ۔اڈوانی صاحب کا یہ دورہ تین حصوں پر مشتمل تھا ’ جن میں سیاسی ’ مذہبی اور ذاتی مصروفیات شامل تھیں ۔ وہ پیدائشی طور پر سندھی ہیں ۔ اس نسبت سے کراچی اور سندھ میں ان کی مصروفیا ت خالص نجی نوعیت کی تھیں ۔ البتہ قائد اعظم کے مزار پر حاضری موجودہ تاریخ کا یقینا ایک یادگا ر واقعہ ہے ۔ مزار قائد پر حاضری اور وہاں قائد اعظم کی تعریف و توصیف کرنا ’ خود ان کی اپنی جماعت میں بھی شدید تنقید کا باعث بنا ۔ ان کی باتوں سے اور ان کے علاوہ یہاں آنے والی دیگر سیاسی و سماجی شخصیات کے بیانات سے ’ وطن عزیز میں آجکل ’ دو قومی نظریہ ’ تقسیم ہند کی ضرورت اور اس کا فارمولا اور تقسیم کے عوامل و وجوہات زیر بحث ہیں ۔ خاص طور پرسیکولر ازم اور اسلام کی بحث طول پکڑ رہی ہے ۔ ایڈوانی صاحب ہی کے ریمارکس سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ قائد کے ذہن میں سیکولر اسٹیٹ کا کوئی تصور تھا یا وہ اسلامی ریاست کے قیام کے داعی تھے ۔ موجودہ ‘‘ روشن خیال ’’ فوجی حکومت بھی اپنے مخصوص مفادات کی تحت اس سوال سے خصوصی دلچسپی رکھتی ہے کہ بانی پاکستان یہاں کس قسم کے نظام کے نفاذ کاخیال رکھتے تھے ۔
ہمارے نزدیک دوقومی نظریہ ہی تقسیم ہند کی بنیاد ہے ۔ اسی نظریے کو نظریہ پاکستان کہا جا تا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ۔ اگرچہ یہ ایک ہی سرزمین کے فرزند ہیں لیکن اپنے اپنے نظریہ حیات اورعقیدے کے اعتبار سے بالکل دو مختلف قوموں کا درجہ رکھتے ہیں ۔ یہ مستقلاً اکٹھے نہیں رہ سکتے اس لیے ’ ان کو دو علیحدہ علیحدہ ملکوں میں تقسیم کر دیا جا ئے ۔ قائد اعظم نے اس نظریے کو کچھ اس استدلال اور ایسے اخلاص سے پیش کیا کہ انگریزوں کو مسلمانوں کیلیے الگ وطن کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا ۔ بلاشبہ قیام پاکستان کے بے شماراور بھی عوامل ہیں ’ لیکن فیصلہ کن کردار دو قومی نظریہ نے ادا کیا تھا ۔
قائداعظم اول تا آخر ایک سیاسی رہنما تھے ۔ وہ اگرچہ مذہبی تصورات و عقاید کو اپنے استدلال کا حصہ بنائے ہوئے تھے لیکن وہ کسی طور بھی ایک مذہبی رہنما نہ تھے ۔ نہ تو وہ کسی دارالعلوم کے فارغ التحصیل تھے اور نہ ہی کسی خانقاہ کے مجاور ۔ اور تو اور وہ عام قسم کے عملی مسلمان بھی نہ تھے حتی کہ بعض لوگ انہیں فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر مسلمان ہی نہیں سمجھتے تھے ۔ اسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ بھی اپنی ہیئت کے اعتبار سے خالص سیاسی جماعت تھی نہ کہ اسلامی انقلاب کی داعی کوئی مذہبی جماعت ۔پھر یہ کہ تحریک پاکستان کے زمانے میں جن لوگوں کے ہاتھ میں ہندستان کے مسلمانوں کی مذہبی قیادت تھی ان میں سے بیشتر قائد اور مسلم لیگ کے مخالف تھے ۔اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ بلاشبہ تحریک پاکستان میں مذہب نے موثر کردار ادا کیا ،لیکن اس سے یہ سمجھنا اور کہنا کہ تحریک پاکستان کے قائدین کے سامنے یہاں کسی قسم کی مذہبی حکومت کے قیام کا منصوبہ تھا ’ غلط ہے ۔ تحریک پاکستان بنیادی طو رپر مسلمانان ہند کے لیے محض ایک الگ وطن کے قیام کیلیے برپا کی گئی تھی ۔ یہ تحریک کسی قسم کے انقلابی نظریے ( اسلام یا سیکولر ازم یا سوشلزم ) پر مبنی نہ تھی ’ کہ اس کی کامیابی کے بعد اس مخصوص نظریے کے نفاذ کا سوال پیدا ہوتا ۔ قیام پاکستا ن’ ہمارے عہد کا ایک معجزہ ہے ’ لیکن یہ معجزہ کسی قسم کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا بلکہ ایک صاحب بصیرت اور ایک صاحب کردار کی سیاسی قیادت ’ قوت استدلال اور جمہوری طریقہ کار کے ذریعے بغیر ایک قطرہ خون بہائے رونما ہوا ۔ عام طور پر مذہبی سیاسی دانشور یہ سوال اٹھاتے ہیں ’ کہ مطالبہ پاکستان اگر اسلامی حکومت کے قیام کے لیے نہیں تھا تو پھر لاکھوں جانوں کی قربانیاں کیوں پیش کی گئیں ’ ہزاروں خواتین کی عصمتیں کس مقصد کیلیے لٹیں ’ معصوم بچوں کو کرپانوں اورنیزوں کی انیوں کی بھینٹ کس بنیاد پر چڑھایا گیا؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس ضمن میں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ قربانیاں کب دی گئیں؟اگر تو تحریک پاکستان کے زمانے میں دی گئیں تو پھر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان قربانیوں کا مقاصد تحریک سے واقعتا کوئی رشتہ ہے ’ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ’ تقسیم ہند کے فارمولے کے طے پا جانے اور قیام پاکستان کے اعلان کے بعد رونما ہوا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس بہیمانہ قتل و غارت کو مقاصد پاکستان سے جوڑنا تاریخی مغالطہ ہے ۔ انتقال آبادی کے زمانے میں ایک دوسرے کے قافلوں پر تشدد پسند لوگ جس ظالمانہ طریقے سے حملہ آور ہوئے حقیقت یہ ہے کہ اس سے انسانیت شرم سے تڑپ اٹھی تھی ۔ مہاجرین کے قافلوں پر جو حملے کیے گئے اس نے نہ صرف یہ کہ قیام پاکستان کی بنیادوں کو خون سے بھر دیا ہے بلکہ دونوں قوموں کے درمیا ن نفرت و عداوت کے وہ بیج بھی بوڈالے کہ جس کی تلخی آج بھی ختم ہونے میں نہیں آرہی ۔ اس قتل و غارت کی جتنی بھی مذمت اور اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ’ لیکن یہ کہنا کہ یہ قربانیاں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے پیش کی گئیں تھیں تاریخی مغالطہ ہے ۔
تحریک پاکستان کے زمانے میں ،البتہ ،عوامی جوش و خروش کو برقرار رکھنے اور انہیں متحرک کرنے کے لیے ایک نعرہ ضرور گونجا تھا جس کی بنا پر بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ تحریک اسلا می حکومت کے قیام کے لیے تھی ۔ وہ نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا ’ لا الہ الا اللہ ۔ سیالکوٹ کے کسی غیر معروف شاعر کی نظم کا یہ شعر ’ کیسے سنجیدہ بحث کا عنوان کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ۔ مسلمانوں کو متحرک کرنے ’ پرجوش رکھنے کے لیے اس قسم کے نعروں کا سہارا لیا جانا کوئی اجنبی بات نہیں ہے، یہ پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے ۔ مقاصد تحریک کا تعین اس طرح کے عوامی نعروں کی بجائے ’ جماعت کی پالیسی ، قراردادوں اوربیانات سے اخذ کیا جاتا ہے ۔ مسلم لیگ ’ جو پاکستان کی خالق جماعت ہے ’ اس کی پالیسی اس قسم کے اظہار سے عاجز نظر آتی ہے ۔
وطن عزیز میں ایک طبقہ سیکولرازم کے نفاذ کاعلمبردا ر بھی ہے ۔ وہ مختلف لبادوں اور محتلف ناموں کے ساتھ وقتا فوقتا اس خواہش کا اظہار کرتا رہتا ہے ۔ اپنے مقاصد کے لیے وہ بھی قائد کے ذاتی خیالات، اعمال اور ان کی تقاریر کے چند اقتباسات کو پیش کرتا ہے ۔خصوصاً قائد کی 11 سمتبر 47 ء والی تقریر کو استدلال کی بنیاد بنایاجاتا ہے حالانکہ اس میں وہ صاف کہتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے پہلے سے کوئی بات سوچ کر نہیں رکھی بس موقع کی مناسبت سے جو سمجھ آتا جائے گا کہتا جاؤں گا۔ یہ ایک رسمی تقریر ہے جو قائد ایوان منتخب ہونے پر انہوں نے کی ۔ اس میں وہ یہ بالکل نہیں کہتے کہ میں سیکولر ازم کے نفاذ کا حامی ہوں ’ پھر بھی نہ جانے یہ دانشور کیوں اس تقریر کو بِنائے استدلال قرار دیتے ہیں ۔
سیکولرازم علمی طور پر اگرچہ ایک قابل غور نظریہ ہے لیکن اس سے مراد ، عام طور پر لادینییت، لیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دین حق انسانوں کے لیے ’ جن حدودو قیود کا تعین کرتا ہے، ان پابندیوں کو توڑ کر ،معاشرے میں، مادر پدر آزادی کو رواج دیا جائے ۔ اخلاقی ضوابط، مذہبی شعائر اور معاشرتی روایا ت ان لوگوں کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ ان کے خیال میں یہ چیزیں کسی فرد یا ریاست کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ سیکولرازم کی سب سے نرم تشریح یہ کی جاسکتی ہے کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے ’ ریاست کو اس سے مثبت یا منفی سروکار نہیں رکھناچاہیے ۔ جدید تہذیب کی پوری عمارت اسی تصور پر استوار ہوئی ہے ۔ وہ اجتماعی زندگی کو مکمل طو رپر خدائی احکامات سے خارج رکھنا چاہتی ہے ۔ سیکولرازم ایک طرز زندگی اور ایک رویے کا نام ہے جس میں بعض چیزیں قابل تعریف اور بیشتر لائق مذمت ہیں ۔ مسلم سوسائٹی میں بحیثیت مجموعی اس نظریے کو فروغ دینا اسلامیت کے خلاف ہے ۔ اسلام جس تہذیب کاعلمبردار ہے یہ نظریہ اس سے براہ راست ٹکراتاہے ۔ اس لیے قائد اور ان کے ساتھیوں سے کسی طور یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بہ حیثیت مجموعی اس نظریے کے علمبردار ہونگے یاسیکولرازم کے غلبے اور نفاذ ہی کے لیے وہ علیحدہ وطن کا مطالبہ کر تے رہے ہوں گے ۔ اگر یہ بات ہوتی تو پھر انہیں الگ وطن کے مطالبے کی ضرورت ہی کیا تھی یہ مقصد تو متحدہ ہندستان کی شکل میں زیادہ بہتر طریقے سے حاصل ہو سکتا تھا ’ جہاں سیکولرازم ایسے نظریے کے نفاذ کاایک جواز بھی تھا ۔ باقی رہا معاملہ 11 ستمبر47 ء والی تقریر کا ’ اس میں محض سیاسی سطح پر قائد اعظم ؒ مسلم اور غیر مسلم کے لیے ایک قوم ہونے کااعلان کر رہے تھے ’ نہ کہ مادر پدر آزاد معاشرت کے قیام کی کوئی بات!
ہمارے نزدیک 60 سال بعد اب یہ بحث غیر متعلق ہو گئی ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد یہاں اسلامی نظام حکومت قائم کرنا تھا یا سیکولر ریاست کاقیام ’ بلکہ ’ اصلا ًیہ دیکھا جائے کہ مسلمان ہونے کے ناطے ’ کیا ہم اپنی مملکت میں اسلا م کے نفاذورواج کے مکلف ہیں یا کسی اور ازم کے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مملکت پاکستان میں ’ اسلامی طرزحیات کے احیا اور کتاب و سنت کے قوانین کے نفاذ کے علاوہ کسی اور ازم کی بات کرنا کوئی اخلاقی یاجمہوری جواز نہیں رکھتا ۔ پاکستان میں مسلمان چونکہ ایک غالب اورمنظم اکثریت ہیں ’ اس لیے ان پر فرض ہے کہ وہ ریاستی سطح پر بھی اسلا م کا نفاذ کریں۔قطع نظر اس کے کہ قیام پاکستان کے زمانے میں کیاکہاگیا تھا اور کیا نہیں کہا گیا تھا ۔ اکثریت کے جذبات کی پاسداری جمہوریت کا اصول ہے ، اسی اصول کے تحت حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہاں دین حق کی بالا دستی قائم کریں ۔ہر فیصلہ جو کیا جائے اور ہر حکم جو دیا جائے ’ اس کے بارے میں یہ بات پہلے طے ہونی چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اور ہر وہ فیصلہ اور ہر وہ حکم جو ہمارے لیے قرآن و سنت میں بیان ہواہے اسے بہرحال یہاں نافذ ہونا چاہیے ۔ اس قوم کی معیشت، اس کی معاشرت، اس کی سیاست ، اس کا قانون، ا س کی تہذیب، اس کی ثقافت ، غرض ہر چیز کو لازماً ان اصول و ضوابط کا تابع ہونا چاہیے جو اس کے لیے اللہ کی کتاب ’ قرآن اور اس کے رسول ﷺ کی سنت میں بیان ہوئے ہیں ۔ہماری یہ بات تب بھی اتنی ہی حقیقت ہوتی ’ جتنی کہ اس وقت جب کہ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں نے واضح طور پر یہاں سیکولرازم کی نفاذ کا عندیہ دیا ہوتا ۔
ہمارے ہاں جن لوگوں نے اس بات کی اہمیت کو سمجھا ہے انہوں نے بد قسمتی سے نفاذ اسلام کے اس مطالبے کو کچھ اس طریقہ سے پیش کیا کہ یہ مطالبہ سیاسی نوعیت اختیار کر گیا ’ جس سے بعض دوسرے لوگوں میں خالص سیاسی وجوہات کی بنا پر ردعمل پیدا ہوا اور وہ خود اسلام ہی کو زیر بحث لے آئے ۔ اور یہ بحث ایسا رخ اختیار کر گئی کہ گویا مسلم ریاست میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ اسلام کے علا وہ کوئی اور طرز زندگی یہاں رائج و نافذ کیا جا سکتاہے ۔ اور یوں اسلام اور سیکولرازم یا اسلام اور لبرلزم یا اسلام اور سوشلزم کے درمیان انتخاب کرنا ہماری سیاست اور ہماری صحافت اور ہماری دانش کا موضوع بن گیا ۔ اور اسی کج بحثی میں اس مسلم ملک کے 58 قیمتی سال ضائع ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور آئند ہ بھی نہ معلوم کب تک ہمارا مقدر اس سوال کے جواب کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتارہے گا۔ فاعتبرو یا اولی الابصار !
ہمیں بحثیت قوم تو یہ جواب شاید ملے کہ نہ ملے لیکن اپنے جسم اور اپنے گھر کی ریاست کی حد تک یہ جواب ہمیں مل سکتا ہے ۔کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟