ڈاکٹر مصدق۔۔۔ایسا انسان جسے آل سعود سے لے کر افریقہ تک کے مسلم ممالک نے عزت بخشی۔ایسا رہنما جسے امریکی سی آئی اے نے ایک ایجنٹ کریمٹ روز ویلٹ کے ہاتھوں صرف چھ ماہ میں اپنے عبرتناک انجام تک پہنچا دیا کیونکہ ڈاکٹر مستقبل میں ان کے لیئے سرخ بتی بنتا جا رہا تھا۔ پاکستانیوں کو ڈاکٹر مصدق کی سوانح حیات ضرور پڑھنی چاہیئے۔
اس کی قبر سیاہ چادر سے ڈھکی ہوئی ہے جس پر دو قرآن اور دو شمع دان رکھے ہیں۔ یہ اس شخص کا اختتام ہے جس نے ایران کی اور اپنے خطے کی تقدیر بدلنا چاہی تھی۔ جب وہ فوجی عدالت میں کھڑا تھا تو اس نے کہا تھا ''میں اگر خاموش رہتا تو گنہگار ہوتا'' امریکا اور یورپ میں رہنے والے بہت سے نوجوان اس بوڑھے کی تصویر والی قمیض پہن کر اپنی محبوباؤں سے ملنے جاتے تھے جس پر لکھا ہوتا کہ ''میں اگر خاموش رہتا تو گناہ گار ہوتا''۔
مجھے مصدق کی یاد پاکستان کے حالات کے تناظر میں آئی ہے۔ وہ ایک تنہا، لاغر اور کمر خمیدہ شخص تھا کینسر جس کے گلے کو کھا رہا تھا۔ جس کو دو قدم چلنے کے لیے لاٹھی کا سہارا لینا پڑتا تھا لیکن جس نے دنیا کی دو عظیم طاقتوں اور شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ جسے ایرانیوں نے بہت بھاری اکثریت سے اپنا نمایندہ منتخب کیا تھا اور شوری نے جسے ایران کا وزیر اعظم چُنا تھا۔ ایرانی خوش بخت تھے کہ وہ ان کے یہاں پیدا ہوا اور بد نصیب تھے کہ انہوں نے ایک اپنے ہیرو کی قدر نہ کی۔
سی آئی اے نے مصدق کے خلاف جو سازش تیار کی اسے ‘‘آپریشن اجیکس ’’ AJAX کا نام دیا گیا۔ ڈاکٹر مصدق بھاری اکثریت سے ایران میں کامیاب ہوا۔ ایرانی اس سے محبت کرتے تھے۔ وزیراعظم بن کر اس نے شاہ ایران کے اختیارات محدود کیئے اور شاہ کو رسمی بادشاہ بنا کر رکھ دیا۔ ایران نے مصدق کے روشن پسند خیالات کے ساتھ ترقی کا سفر شروع کیا تو امریکہ کو ڈاکٹر اپنے لیئے خطرہ محسوس ہوا۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی کو دوبارہ مضبوط کرنے کے لیئے سی آئی اے نے مشن شروع کیا اور ایجنٹ کریمٹ روز ویلٹ نے ایران میں لینڈ کیا، پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی مصدق جو ایرانیوں کی آنکھوں کا تارا تھا گلیوں میں ذلیل ہوا۔ مرگ بر مصدق کے نعرے لگے اور چھ ماہ میں اس کا اقتدار انجام کو پہنچا۔سی آئی اے نے اس مشن پر پانی کی طرح پیسہ بہایا۔مصدق نے کہا تھا ''جس زمین پر ہم چلتے ہیں وہ ہماری ہے، اور اس زمین پر جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ بھی ہمارا ہے، کوئی ڈکٹیٹر کوئی شاہ ہم سے ہماری زمین، ہمارا سرمایہ نہیں چھین سکتا''۔ایران میں کسی نے کبھی یہ بات اتنے واضح طور پر نہیں کہی تھی۔
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ آج ایران میں سب کہتے ہیں کہ مصدق درست تھا، مگر مشکل یہ تھی کہ اس نے ایک درست بات وقت آنے سے بہت پہلے کہہ دی تھی۔ وقت آنے سے پہلے درست بات کہنا آپ کے اقتدار، بلکہ آپ کی زندگی کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ سچ کے پھل کو پکنے میں بہت وقت لگتا ہے۔
آپریشن اجیکس کی تفصیلات ہمیں بتاتی ہیں کہ تیل کو قومیانے کے جرم میں مصدق کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے برطانوی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے مصدق کو کمیونسٹ اور بے دین ثابت کیا۔ دو امریکی صدر بل کلنٹن اور براک اوباما کئی موقعوں پر ایران میں ہونے والی اس سازش کا اعتراف کر چکے ہیں۔شاہ ایران کو تخت پر بٹھانے کی غلطی کے بارے میں2011 میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ ہم اپنے اس کردار پر شرمسار ہیں جو ہم نے 1953 میں ڈاکٹر مصدق کی معزولی کے حوالے سے ادا کیا۔ بہت سے اعلیٰ امریکی افسران یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایران میں جمہوریت کی فطری ترقی کو روک دیا۔ کچھ اسی طرح کی بات میڈلن البرائٹ نے بھی کہی تھی۔
امریکا نے ایران کے قرب وجوار میں نئے اتحادی ڈھونڈنے شروع کیے۔ پاکستان کی حیثیت ان میں سب سے نمایاں تھی۔ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ امریکیوں کو خطرہ تھا کہ یہ نو آزاد ملک بھی کہیں ہندوستان کی طرح اپنا قبلہ سوویت یونین کی طرف نہ کر لے۔ پاکستان کی معاشی پریشاں حالی بھی امریکا کے سامنے تھی۔یہی وجہ تھی کہ ادھر ایران میں ڈاکٹر مصدق کی تقدیر کا فیصلہ ہو رہا تھا اور اِدھر امریکا خطے میں ایک نیا حلیف بنا رہا تھا۔ ہزاروں ٹن امریکی گندم کراچی کی بندرگاہ پر اتر رہی تھی۔ کروڑوں ڈالر کی فوجی امداد آ رہی تھی اور یہ دسمبر 1953 کی آخری تاریخیں تھیں جب امریکا نے پاکستان کو سینکڑوں فوجی طیارے اور 21 بحری جہاز دینے کا فیصلہ کیا۔یہ بغداد پیکٹ’ سیٹو’ سینٹو اس کے فوراً بعد کی کہانی ہیں۔ ڈاکٹر مصدق کی رخصت کے بعد صرف ایران میں ہی نہیں پاکستان میں بھی حکمران اشرافیہ کے افراد امریکی دستر خوان پر تشریف رکھ چکے تھے۔
مصدق پر جو کچھ گزری وہ صرف ایران ہی نہیں ہمارے پورے خطے کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔ ایران میں مافیاز کو مضبوط کیا گیا۔ تاجروں اور منڈیوں کے بیوپاریوں کے ذریعہ مہنگائی کروائی گی۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ لوگوں کی زندگی وبال ہو گئی۔ یہ مصنوعی مہنگائی کنٹرول کرنے میں مصدق حکومت کی انتظامیہ مشنری ناکام بنا دی گئی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ تہران کی گلیوں میں ''مرگ بر مصدق'' کے نعرے گونجنے لگے۔ ایران کی عوامی اکثریت ابھی بھی مصدق سے پیار کرتی تھی مگر دارالحکومت تہران میں حالات بدل چکے تھے۔ شاہ نے مصدق کو گرفتار کر لیا۔رضا شاہ پہلوی کو مصدق کی پھانسی کے نتائج سے خوف آتا تھا اسی لیے اسے پھانسی تو نہیں دی گئی لیکن اس کی سزا کے ابتدائی تین برس قید تنہائی میں گزرے اور اس کے بعد آخری سانس تک وہ اپنے آبائی گھر میں نظر بند رہا۔ کسی کو اس سے ملنے یا اس کے گھر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔مارچ 1967 میں موت جب ڈاکٹر مصدق کو رہائی دلانے کے لیے آئی تو اس کے پاس کوئی اس کا اپنا نہ تھا۔ اس کی مقبولیت کے خوف سے شاہ نے اس کا جنازہ نہیں اٹھنے دیا۔ نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی نہ وہ کسی قبرستان میں دفن ہوا۔ شاہ جانتا تھا کہ مصدق کو اگر کسی گورستان میں دفن کیا گیا تو اس کی قبر مرجع خلائق بن جائے گی۔ مظلوم اور مقتول کی قبر ظالم اور قاتل کو ڈراتی ہے۔ شاہی خوف کی کدال سے مصدق کے گھر میں ایک کمرے کا فرش
کھودا گیا اور ایران کا عظیم دانشور اور کھرا سیاست دان خاک کے سپرد کردیا گیا۔
مصدق کی گرفتاری سے محض چھ ماہ قبل سی آئی اے ایجنٹ کریمٹ روز ویلٹ (جو CIA کا ذہین ترین ایجنٹ تھا) کو ہیڈکوارٹر میں طلب کر کے ''CHANGE THE WORLD'' نامی منصوبہ دیا گیا اور پھر تاریخ نے دنیا کو ادھر سے اُدھر ہوتے دیکھا وہ مصدق جو اسلامی دنیا میں امام کعبہ جتنی توقیر و عزت کا مالک بنتا جا رہا تھا گلیوں میں رسوا ہوا، چوراہوں میں اس کی تصویروں کو جوتوں کے ہار پہنائے گئے۔ اس کی گاڑی کے پیچھے ''مرگ بر مصدق'' کے نعرے لکھے گئے۔ جب کریمٹ واشنگٹن واپس پہنچا تو ''CHANGE THE WORLD'' نامی فائل پر ''THE WORLD HAS CHANGED'' لکھا جا چکا تھا اور ایران میں اقتدار رضا شاہ پہلوی کے پاس تھا۔ ائیر پورٹ پہنچنے پر جنرل نے اسے سلیوٹ کر کے پوچھا ''سر آپ کیا چاہتے ہیں؟''۔ کریمٹ بولا '' نیند۔جسے میں نے چھ ماہ تک اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیا''
دو روز بعد کریمٹ امریکی صدر آئزن ہاور کو وائٹ ہاوس میں اپنی کامیابی کی داستان سنا رہا تھا تو وہ بولا '' ہمارے پاس چاہے کتنے ہی RESOURCES کیوں نہ ہوں،ہم پھر بھی صورتحال کا صرف فائدہ اُٹھا سکتے ہیں مگر صورتحال پیدا نہیں کر سکتے۔ مصدق کو کریمٹ نے نہیں خود ایرانیوں نے مارا۔ خدا کی قسم اگر ایرانی نہ چاہتے تو کریمٹ کامیاب نہ ہو سکتا تھا''۔ کریمٹ کے یہ الفاظ امریکن ڈپلومیسی میں ''کریمٹ فارمولا'' کے نام سے لکھ دیئے گئے جو اب امریکن ڈپلومیٹس کو پڑھائے جاتے ہیں۔
ملک اندر سے کھوکھلا ہو تو اپنی ہی ذات میں کریمٹ ہوتا ہے۔اسے کسی تباہی کے لیئے بیرونی کریمٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تیسری دنیا کے ممالک کو مافیاز کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے، انہی کے ذریعہ حکومتیں بدلی جاتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک متوازی حکومت ہوتی ہے۔ آج اگر ملک عزیز میں مہنگائی آؤٹ آف کنٹرول ہوتی جا رہی ہے تو شاید حکومت کو اپنے اندر کسی ''کریمٹ'' کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے وگرنہ شاید کچھ عرصے بعد ''مرگ بر۔۔۔۔۔'' کے نعرے کی خالی جگہ پر ہو جائے۔