بیٹے نے قاضی القضاۃ باپ سے کہا کہ ابا جان میرا فلاں قوم سے یہ جھگڑا ہے ( اور پوری تفصیل بیان کی ) ۔ اگر تو فیصلہ میرے حق میں ہو تو میں معاملہ عدالت میں لے آؤں۔اور اگر اس کے برعکس ہو تو میں عدالت سے باہر ہی ان سے تصفیہ کر لوں۔ باپ نے کہا تم معاملہ عدالت میں لے آؤ۔ چنانچہ بیٹا معاملہ عدالت میں لے گیا ۔ قاضی نے پوری تفصیل سے دونوں فریقین کا موقف سنا ، گواہ پیش ہوئے ۔ اوربالآ خر قاضی نے بیٹے کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا۔ بیٹا شرمندہ اور دوسرا فریق خوشی خوشی عدالت سے لوٹا۔ گھر آ کر بیٹے نے باپ سے کہا کہ ابا جان آپ نے مجھے رسوا کر دیا۔ باپ نے کہا بیٹا تجھے یہاں کی رسوائی کا ڈر ہے جبکہ مجھے آخرت کی رسوائی کا ڈر ہے ۔ بیٹے نے کہالیکن اگر آپ مجھے مشورے میں بتا دیتے تو کیا حرج تھا ، میں باہر ہی ان سے معاملہ طے کر لیتا۔ باپ نے کہا بیٹا اگر میں تجھے یہ بتا دیتا کہ اس صورت حال میں فیصلہ ان کے حق میں ہو گا توتُو باہر ہی ان سے تصفیہ کر لیتا اس طرح وہ لوگ پورا پورا حق حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ۔ اس لیے میں نے چاہا کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عدالت میں آئیں تا کہ ان کے ساتھ انصاف ہو سکے ۔ اسی بیٹے نے کسی ملزم کی ضمانت دی ، عدالت نے اس کی ضمانت پر رہا کر دیا لیکن جب وقت پر وہ عدالت میں پیش ہونے کے بجائے مفرور ہواتوقاضی کے حکم پر ضامن یعنی بیٹے کو گرفتا ر کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ اور پھر جیل میں خود ہی ہر روز کھانا بھی پہنچانے جاتے ۔ کسی نے پو چھا آپ یہ مشقت برداشت کر تے ہیں تو اسے جیل ہی نہ بھجواتے ۔ قاضی نے کہا اسے جیل بھیجنا انصاف او ر قانون کا تقاضا تھا اور جیل میں اس کا خیال رکھنا شفقت پدر ی کا تقاضا ہے۔
اس پیکر عدل وانصاف کا نا م شریح بن حارث کند ی تھا جو مسلمانوں کی تاریخ میں قاضی شریح کے نا م سے اس طرح مشہور ہوئے کہ صدیا ں گزر جانے کے باوجود بھی عدل او ر قاضی شریح کا نا م لازم و ملزوم نظر آتا ہے ۔ عدل کی مثال دینی ہو اور قاضی شریح کا نام نہ آئے، ناممکن ہے اسی طرح قاضی شریح کا نام آئے اور ذہن میں عدل کا تصور نہ ابھرے یہ بھی ممکن نہیں۔قاضی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت عمرؓ نے انہیں جو منصب سونپا تھاوہ عثمانؓ، علیؓ ، امیر معاویہؓ، اور پھربعد میں خلفائے بنو امیہ کے عہد میں بھی برقرار رہا حتی کہ آپ نے حجاج بن یوسف کے دور میں خود ہی اس منصب سے استعفی دے دیا اور یوں کامل ساٹھ برس اس منصب پر فائز رہ کر ایک اور روشن مثال قائم کی ۔
قاضی شریح اگر چہ حضور ﷺ کی زیارت سے محروم رہے اور اس طرح صحابیت کا رتبہ تو نہ پا سکے لیکن ان کی زندگی فراست اور تقوی سے اسی طرح بھری پڑی ہے جس طرح کہ صحابہ کی تھی۔اوراگر یہ کہا جائے کہ روز قیامت یہ امت اپنے جن افراد پر فخر کر سکتی ہے ان میں قاضی شریح کا نام بھی شامل ہو گا تو بلا شبہ یہ مبالغہ نہ ہو گا۔