مسلمانوں میں اِس وقت عملاًپانچ بڑے فقہی اسکول قائم ہیں -97مالکی ، حنبلی ، شافعی ، حنفی ، اورجعفری ۔ یہ تمام فقہی مکاتب فکر یہ مانتے ہیں کہ اُن کا دین ایک ہے، اور وہ اسلام ہے۔ اِس کے باوجود کیوں ایسا ہوا کہ ایک مذہب پانچ مذہبوں میں بٹ گیا۔ اُن میں اتنے زیادہ اختلافات ہوئے کہ سخت قسم کی گروہ بندی اور باہمی ٹکراؤ تک نوبت آگئی۔
اِس گروہ بندی کے معاملے کو سمجھنے کے لیے مشہور مالکی عالم یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البرّ (وفات: 1071 ء) کی کتاب ‘جامعُ بیان العلم وفضلہ’ ایک اچھے گائڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس کتاب سے اور اِس موضوع کی دوسری کتابوں سے اِس معاملے کی جو حقیقت سامنے آتی ہے، اُس کو ہم یہاں مختصر طورپر درج کریں گے۔
دوسرے مذہبی نظاموں کی طرح، اسلام کی مذہبی تعلیمات کے بھی دو حصے ہیں۔ اساسات (basics)، اور فروع(non-basics)۔ اِس معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ اسلام کے دورِ اوّل (عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین) میں یہ دونوں قسم کی چیزیں موجود تھیں، لیکن اُس زمانے میں یہ چیزیں گروہ بندی کا سبب نہیں بنیں۔ اختلافات کی بنیاد پر گروہ بندی کا واقعہ بعد کو عباسی دور میں پیش آیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، عباسی دور میں اسلامی علوم کی تدوین ہوئی۔ اس زمانے میں زیادہ بڑے پیمانے پر حدیثیں جمع کی گئیں۔ اِن حدیثوں میں دوسری باتوں کے علاوہ، یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اصحابِ رسول کس طرح نماز ادا کرتے تھے۔ اِن روایتوں سے معلوم ہوا کہ نماز کا ایک حصہ وہ ہے جس میں صحابہ کے درمیان کوئی فرق یا اختلاف نہیں پایا جاتا تھا۔ مثلاً ہر صحابی کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے فجر کی نماز دو رکعت پڑھی، ظہر اور عصر کی نماز انھوں نے چار رکعت پڑھی، مغرب کی نماز انھوں نے تین رکعت پڑھی، اور پھر عشا کی نماز انھوں نے چار رکعتوں کے ساتھ پڑھی۔
اِس طرح نماز کا ایک پہلو وہ تھا جس کے بارے میں تمام صحابہ ایک ہی متعین طریقے کے پابند تھے، لیکن اِسی کے ساتھ نماز کے بعض دوسرے پہلوؤں کے بارے میں فرق یا اختلاف پایا جاتا تھا۔ مثلاً کسی نے نماز شروع کرتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ باندھے، اور کسی نے سینے کے نیچے۔ قرأتِ فاتحہ کے بعد کسی نے آمین دھیرے سے کہی، اور کسی نے زور سے۔ نماز کے دوران کسی نے اللہ اکبر کہتے ہوئے رفعِ یَدین کیا، اور کسی نے نہیں کیا، وغیرہ۔
جمعِ حدیث کے دوران جب عبادت کے اختلافات سامنے آئے، تو اب یہ سوال اٹھا کہ اِن اختلافات کی کیا توجیہہ کی جائے۔ اختلافات کو مٹانا ممکن نہ تھا، کیوں کہ یہ اختلافات سب کے سب، اصحابِ رسول کی طرف سے آرہے تھے، اور اصحابِ رسول وہ لوگ تھے جنھوں نے براہِ راست پیغمبر کی عبادت کا مشاہدہ کیاتھا۔اُن کو مخاطَب کرتے ہوئے پیغمبر نے کہا تھا: صلّوا کما رأیتمونی اصلّی (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 631/6008) ایسی حالت میں ہر طریقہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مستند حیثیت رکھتا تھا۔ بظاہر یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس بنیاد پر ایک طریقے کو لیا جائے اور دوسرے طریقے کو چھوڑ دیا جائے۔
اِس موقع پر مسلم فقہا کی دو رائے ہوگئیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ: الحق لا یتعدد یعنی حق کئی نہیں ہوسکتا، اِس لیے ہمیں عملی طورپر یہ کرنا ہوگا کہ ہم یہاں ترجیح کے اصول کو رائج کریں گے یعنی کسی ایک رائے کو راجح قرار دینا، اور دوسری رائے کو مرجوح قرار دے کر اُس کو چھوڑ دینا۔مگر اِس کے باوجود مسئلہ باقی رہا، کیوں کہ ترجیح کا اصول ہمیشہ اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے اور جہاں اجتہاد آیا، وہاں اختلاف رائے بھی لازماً آئے گا۔ چنانچہ ترجیح کے اِس اصول کا نتیجہ عملی طورپر یہ ہوا کہ لوگوں کے درمیان کئی رائے بن گئیں۔ ہر ایک نے اپنی رائے کی صحت پر اصرار کیا۔ چناں چہ کسی نے ایک رائے کو ترجیح (preference) دی اور کسی نے دوسری رائے کو، اور اِس طرح لوگ کئی گروہوں میں بٹ گئے۔ مختلف فقہی اسکول کے وجود میں آنے کا سبب یہی ہے۔
ترجیح کے اِس اصول پر بحث کرتے ہوئے محمد بن ادریس الشافعی (وفات: 820 ء) نے درست طور پر لکھا ہے کہ: رایی صواب یحتمل الخطا، ورای غیری خطا یحتمل الصواب (الفتاویٰ الکبریٰ الفقہیۃ 4/313) یعنی میری رائے درست ہے، اِس احتمال کے ساتھ کہ وہ غلط ہو۔ اور دوسری کی رائے غلط ہے، اِس احتمال کے ساتھ کہ وہ درست ہو۔
امام شافعی کے اِس قول سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں فقہا کا مسلک کتنا زیادہ غیرمنطقی (illogical) تھا۔ جب ایک رائے کو ترجیح دینے کے بعد بھی اس کی عدم صحت کا احتمال موجود ہے، اور اِسی طرح جب ایک رائے کو ترک کرنے کے باوجود بھی اس کی صحت کا احتمال پایا جائے، تو ایسی ترجیح عملاً سر تاسر بے معنی ہوجاتی ہے۔ اِس کے بعد یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی پُریقین کیفیت کے ساتھ اپنی عبادت کرسکے، جب کہ عبادت کے ساتھ یقین کا عنصر لازمی طورپر ضروری ہے۔
محدثین کا مسلک اِس معاملے میں فقہاکے مسلک سے مختلف تھا، اور بلاشبہ وہی مسلک زیادہ درست تھا۔ محدثین کے نقطہ نظر کا اندازہ احمد بن حنبل (وفات: 855 ء) کے ایک واقعے سے ہوتا ہے۔ محمدبن عبد الرحمن صیرفی کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا کہ اگر کسی مسئلے میں صحابہ کا اختلاف ہو، تو کیا تنقید اور تمحیص کرنا چاہیے، تاکہ جس کے ساتھ حق نظر آئے، اس کی پیروی کی جائے۔ احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ نہیں۔ انھوں نے کہا، پھرہم کیا کریں۔ احمد بن حنبل نے کہا: تقلّد ایّہم احببتَ (جامع بیان العلم، صفحہ 83) یعنی تم جس صحابی کے قول کو چاہو، لے لو اور اس کے مطابق اس کی پیروی کرو۔
محدثین کے مسلک کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے روایتوں کے اِس فرق کو تنوع (diversity) پر محمول کیا، یعنی یہ بھی ٹھیک، اور وہ بھی ٹھیک۔ یہ نظریہ انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس حدیث سے اخذ کیا: الصحابی کا لنجوم، بایّہم اقتدیتم، اہتدیتم (کشف الخفاء، جلد 1، صفحہ 146) یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں۔ اُن میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے، راہ یاب ہوگے۔
اِس نقطہ نظر کی حکمت یہ تھی کہ چیزوں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اُن کے کچھ اساسی اجزا ہوتے ہیں، اور کچھ فروعی اجزا۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ وحدت (oneness) اساسات میں مطلوب ہوتی ہے۔ جہاں تک فروع (non-basics)کاتعلق ہے، اُن میں ہمیشہ تنوع (diversity) ہوتا ہے۔ یہ ایک عمومی اصول ہے۔ فروع میں اگر تنوع نہ ہوتواُس سے کٹر پن (rigidity) پیدا ہوتا ہے اور کٹر پن کسی بھی چیز کے لیے مفید نہیں۔
مزیدیہ کہ خدا کی عبادت ایک زندہ عمل کا نام ہے۔ وہ کسی بے روح عمل کو دہرانے کا نام نہیں۔ عبادت کو جب اس کی زندہ اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے گا، تو یہی ہوگا کہ عبادت کے بنیاد ی اجزا کی حد تک تو یکسانیت ہوگی، لیکن اس کے فروعی اجزا میں تنوع پیدا ہوجائے گا۔
زندہ عبادت کبھی فروع میں یکسانیت کا تحمل نہیں کرسکتی۔ فروع میں یکسانیت لانے کی کوشش کرنا، عبادت کو بے روح رسموں کا ایک مجموعہ (set of rituals) بنا دینا ہے۔ ایسی عبادت ایک مشینی روبوٹ کی عبادت ہوگی، نہ کہ کسی زندہ انسان کی عبادت۔ عبادت، اعلیٰ کیفیات کے تحت کیا جانے والا ایک عمل ہے۔ ایسا عمل کبھی یکسانیت کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا۔
اصحابِ رسول کی عبادت کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی عبادت اگرچہ اساسات (basics) کے اعتبار سے یکساں انداز میں ہوتی تھی، لیکن غیر اساسی اجزا کے اعتبار سے، ان کے یہاں ہمیشہ تنوع پایا جاتا تھا۔ اِس قسم کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے جس سے صحابہ کی عبادت کا اندازہ ہوگا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رفاعہ بن رافع الانصاری کی ایک روایت ہے، جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (مغرب کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ نے رکوع کے بعد اپنا سر اٹھایا، تو آپ نے کہا: سمع اللہ لمن حمدہ۔ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک شحص نے اُس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا: ربّنا ولک الحمد، حمداً کثیراً طیّباً مبارکاً فیہ۔نماز ختم ہوئی تو رسول اللہ نے پوچھاکہ کس شخص نے ایسا کہا تھا۔ اُس آدمی نے کہا کہ میں نے ۔رسول اللہ نے فرمایا کہ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا۔ اُن میں سے ہر ایک سبقت کررہا تھا کہ وہ پہلے اِس عمل کو لکھ لے (رایتُ بضعۃً وثلاثین ملکاً یبتدرونہا ایہم یکتبہا اوّل) صحیح البخاری، رقم الحدیث: 799۔
اِس طرح کے بہت سے واقعات، حدیث کی کتابوں میں رسول اور اصحابِ رسول
کے بارے میں آ ئے ہیں۔ اِن واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نماز کسی سیٹ پیٹرن (set pattern) کا نام نہیں، نماز ایک زندہ عمل کا نام ہے۔ کوئی زندہ عمل کبھی لگے بندھے طریقے سے نہیں ہوسکتا۔ زندہ عمل کیفیت سے بھرا ہوا عمل ہوتا ہے، او رکیفت کبھی یکسانیت کی پابند نہیں ہوسکتی۔
اِس سے نماز کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ نماز کے بنیادی ڈھانچے میں تو ہمیشہ یکسانیت پائی جائے گی، لیکن نماز کے فروعی اجزا ہمیشہ کیفیات کے تابع ہوتے ہیں۔ فروعی پہلوؤں میں کیفیت کا اظہار کبھی ایک طریقے پر ہوگااور کبھی دوسرے طریقے پر۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادت کو ہر پہلو سے یکساں قسم کے ڈھانچے کا پابند بنانا، عبادت کی اسپرٹ کے بھی خلاف ہے، اور پیغمبراور اصحاب پیغمبر کے نمونے کے بھی خلاف۔
تاریخ بتاتی ہے کہ محدثین کے زمانے میں، یا اُن سے پہلے، مختلف قسم کے فقہی اسکول موجود نہ تھے۔ یہ اسکول بعد کو فقہا کے دور میں بنائے گئے۔ ابتدائی دور میں مختلف فقہی اسکول کا بننا محض ایک سادہ واقعہ معلوم ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے بعد کے زمانے میں، وہ غلو آمیز گروہ بندی کی صورت اختیار کرگیا، جب کہ غلو اسلام میں نہیں (لا غلوَّ فی الاسلام)۔