لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں وہ ہمیں دہشت گرد اور جنونی سمجھتے ہیں۔ ہم ان کی رائے بدل نہیں سکتے لیکن اگر ہم اس دنیا میں ان لوگوں کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان لوگوں کو اپنی محنت، قابلیت اور ذہانت سے متاثر کرنا ہو گا۔
وہ ایک خوب صورت دفتر ہے۔ آپ گولڈن کلر کے مضبوط گیٹ سے اندر آتے ہیں، اندر ایک طویل ڈرائیو وے ہے۔ اس پتھریلی سڑک کے دونوں اطراف گہرے سبز رنگ کے چمکیلے لان ہیں اور سڑک کے آخر میں پورچ آجاتا ہے۔ آپ پورچ میں اترتے ہیں تو باوردی دربان آگے بڑھ کر آپ کے لیے دروازہ کھولتا ہے۔ آپ دروازے کے اندر داخل ہوجاتے ہیں، اندر سیکورٹی کے بے شمار آلات لگے ہیں۔ آپ اس سیکورٹی زون سے گزر جاتے ہیں تو آگے بہت بڑا ہال آجاتا ہے۔ یہ ہال اس عمارت کی لابی ہے، لابی کے چاروں اطراف برق رفتار لفٹیں ہیں۔ یہ لفٹیں آپ کو عمارت کی مختلف منزلوں پر لے جاتی ہیں۔ ان منزلوں پر بے شمار دفاتر قائم ہیں۔ پوری عمارت کے فرش سنگ مرمر کے ہیں اور ساری دیواریں غیر ملکی شیشوں کی بنی ہیں، چھت پر فائبر گلاس کی کنوپی لگی ہے جس سے نیلا آسمان دکھائی دیتا ہے۔ آپ اگر لابی میں کھڑے ہوں تو وہاں روشنی سکون اور اطمینان محسوس ہوتا ہے، آپ کو لگتا ہے آپ ایک ہی جست میں دکھی دنیا سے نکل کر امن و سکون والی جگہ پر آ گئے ہیں۔
یہ اسلام آباد کی ایک بین الاقوامی سطح کی عمارت ہے جس میں زیادہ تر غیر ملکی دفاتر ہیں۔ کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں اور کچھ معروف این جی اوز ہیں۔ یہ عمارت ایک پسماندہ ملک میں جدید ترین دنیا کا جزیرہ ہے۔ اس میں بے شمار غیر ملکی مرد اور عورتیں کام کرتے ہیں۔ آپ کو اس میں ایسی عورتیں نظر آتی ہیں جنھوں نے سکرٹ پہن رکھے ہیں، سوٹ بوٹ اور ٹائی والے صاحب نظر آتے ہیں، اس چھت کے نیچے انگریزی زبان قومی زبان ہے۔ تمام لوگ ایک دوسرے سے انگریزی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ تمام دفاتر کا اپنا سیکورٹی سسٹم ہے۔ سارے دروازے برقی ہیں اور آپ جب تک دروازے پر لگے کیمرے کو اپنا سیکورٹی کارڈ نہیں دکھا دیتے دروازہ نہیں کھلتااور آپ اس کے اندر داخل نہیں ہو سکتے۔
میں اس عمارت میں متعدد بار آیا تھا کبھی فلاں این جی او کے چیف ایگزیکٹو سے ملنے اور کبھی فلاں ملٹی نیشنل کے مینجر کے درشن کے لیے۔ میں جب بھی آیا میری ملاقات کسی نہ کسی گورا صاحب سے ہوئی، کوئی نہ کوئی غیر ملکی میرا منتظر تھا۔ ان تجربات کی بنیاد پر میں نے محسوس کیا اس عمارت میں شاید ہی کوئی پاکستانی یا مقامی باشندہ ہو، اگر ہوا تو یقینا سیکورٹی گارڈ، چپراسی یا پھر فرش صاف کرنے والا کارکن ہو گا ورنہ دفتر کے اندر کسی کرسی، کسی عہدے پر کوئی مقامی آدمی تعینات نہیں ہو گا …… لیکن اس دن میں اس ولائتی عمارت میں ایک دیسی شخص سے ملنے گیا تھا، میں نے عمر بشیر سے ملنا تھا۔
عمر بشیر ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا کنٹری منیجر تھا جب اس کے ساتھ میری ملاقات طے ہوئی تو میرا خیال تھا وہ لازماً کسی عرب ملک کا باشندہ ہو گا، اگر نہ ہوا تو وہ امریکا یا یورپ کی کسی ماڈرن فیملی سے تعلق رکھتا ہو گا جس کی دوسری یا تیسری نسل یورپ میں رہ کر یورپی لوگوں سے دو تین ہاتھ زیادہ ماڈرن، زیادہ لبرل ہو چکی ہو گی۔ میرا خیال تھا اس ملٹی نیشنل کمپنی نے اس کے لبرل ازم اور ماڈرن ازم سے متاثر ہو کر اسے پاکستان میں تعینات کیا ہو گا اور آج کل وہ دفتر میں بیٹھ کر پاکستان کی بوریت اور خشک زندگی کا رونا روتا ہو گا۔ شکوہ کرتا ہو گاکہ اس ملک میں ‘‘سوشل لائف’’ نام کی کوئی چیز نہیں، کلب ہیں نہ ڈسکو، نہ آفتابی غسل کے ساحل ہیں، نہ شراب خانے اور نہ ہی برہنہ ناچ کے فلور ہیں لہٰذا یہاں آ کر میں تو پھنس گیا ہوں۔ اب مجھے تفریح کے لیے ہر مہینے دوبئی جانا پڑتا ہے۔ سنا ہے بنکاک اور ممبئی بھی بہت سستے ہیں لیکن میں ابھی تک وہاں نہیں گیا، مجھے کوئی دوست بتا رہا تھا کہ کراچی کے کچھ لوگوں نے اپنے فارم ہاؤسز پر ایسے خفیہ کلب بنا رکھے ہیں لیکن وہاں چھاپوں کا ڈر رہتا ہے اور میں کوئی رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہوں وغیرہ وغیرہ……
لیکن جب اس کے دفتر میں داخل ہوا تو میں حیران رہ گیا، ہمارے سامنے طالبان کے حلیے کا ایک جوان شخص بیٹھا تھا۔ سیاہ گھنی ڈاڑھی، مونچھوں کی جگہ خالی، ماتھے پر محراب کا داغ اور کھردری صفوں کے نشان، دانت سفید اور آنکھوں میں حیا اور گلاب کے عطر کی ہلکی ہلکی خوشبو …… میں انھیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے آگے پیچھے دیکھا اور جھجکتے جھجکتے عرض کیا:‘‘میں نے عمر بشیر سے ملنا تھا’’ وہ مسکرائے اور دھیمے لہجے میں بولے: ‘‘خاکسار کو عمر بشیرکہتے ہیں’’ میں نے لمبی سانس بھری، جسم ڈھیلا چھوڑا اور ٹانگیں سیدھی کرکے بیٹھ گیا۔ انھوں نے کہا میرے پاس ۴۵ منٹ ہیں ۱۵ منٹ میں آپ کو اپنے لنچ سے ٹائم دوں گا۔ مجھے معلوم ہے آپ کام کی باتوں کے علاوہ میرے بارے میں بھی کچھ جاننا چاہیں گے چنانچہ ہمارے لیے ایک گھنٹہ کافی ہو گا۔ ہم سب سے پہلے کام کی بات کرتے ہیں۔
میں ان کے مکینیکل لہجے پر مزید حیران ہوگیا کیونکہ ان کا حلیہ تو خالصتاً طالبانی تھا لیکن کام کرنے کا اسٹائل گوروں جیسا تھا۔ ان کی بات مکمل ہوتے ہی ان کی گوری سیکرٹری اندر داخل ہوئی اس نے ایک فائل کھولی اور عمر بشیر کے سامنے رکھ دی۔ میں نے نوٹ کیا جب خاتون اندر داخل ہوئی تو عمر بشیر نے نظر جھکا لی انھوں نے سیکرٹری کی طرف دیکھا تک نہیں۔ سیکرٹری واپس چلی گئی تو عمر بشیر نے انگریزی میں گفتگو کرنا شروع کر دی، وہ خوب صورت انگریزی بول رہے تھے۔ ان کا لہجہ کیلی فورنیا کے پڑھے لکھے امریکیوں جیسا تھا۔ ان کی کمپنی پاکستان میں فلاح عامہ کا کوئی ایسا کام کرنا چاہتی تھی جس سے انتہائی غریب لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکے۔ وہ اس سلسلے میں میری مشاورت چاہتے تھے۔ انھوں نے بڑے کاروباری انداز سے بات چیت کی۔ اپنی کمپنی کا پس منظر بیان کیا، اپنا ٹرن آؤٹ بتایا۔ دنیا بھر میں پھیلے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات دیں۔ دنیا کے کون کون سے ملک میں ان کی کمپنی نے آج تک کیا کیا فلاحی کام کیے؟ انھوں نے اس بارے میں بتایا اور آخر میں پاکستانی معاشرے کے اجزاء اس کے مسائل اور فلاحی کاموں کی نوعیت کے بارے میں گفتگو کی۔ ان کی یہ ساری بات چیت انگریزی زبان میں تھی اور درمیان میں انھوں نے اردو میں جمائی اور ہچکی تک نہ لی وہ مسلسل انگریزی بولتے چلے گئے۔
آخر میں میں نے اپنی معلومات کا حوالہ دیا، وہ تمام سیکٹر بتائے جن میں کام ہو سکتا ہو اور ان کاموں کے لیے انھیں کون کون سے کارکن کہاں کہاں سے مل سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہماری یہ بات چیت آدھ گھنٹہ تک جاری رہی، آدھ گھنٹہ بعد ہم فارغ تھے انھوں نے کاغذات سمیٹے، سیکرٹری کو بلایا، جونہی وہ کمرے میں داخل ہوئی انھوں نے نظریں جھکائیں اور مجھے اگلی ملاقات کا وقت دینے کی ہدایت کر دی۔ انھوں نے لکھوایا تھا اگلی میٹنگ میں فلاں فلاں لوگ بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ ان کا کام کرنے کا سارا اسٹائل امریکی تھا…… لیکن ان کی شخصیت، ان کا حلیہ اس اسٹائل سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، وہ اس سارے ماحول میں اجنبی اجنبی سے محسوس ہوتے تھے۔ جونہی سیکرٹری باہر گئی، انھوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اردو میں نرم لہجے میں بولے: ‘‘اب ہم ذاتی گفتگو کر سکتے ہیں۔’’ میں بڑی دیر سے اپنی بے چینی کو لیے بیٹھا تھا؟ میں نے ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی، وہ میرے سوال سنتے رہے اور جب میں تھک کر خاموش ہوا تو گویا ہوئے:
‘‘میرا تعلق ملتان کے ایک دور دراز علاقے سے ہے، میرا گھرانہ مذہبی ہے۔ والد صاحب مدرسے کے منتظم ہیں۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں، ہمارے خاندان کا کوئی فرد آج تک ملک سے باہر نہیں گیا۔ میری تعلیم و تربیت بھی مذہبی ماحول میں ہوئی۔ مجھے مدرسے کے ساتھ ساتھ عام اسکول میں بھی داخل کروا دیا گیا۔ میرا ذہن اچھا تھا میں نے ایک طرف حفظ کیا اور دوسری طرف عام دنیاوی تعلیم میں بھی آگے بڑھتا گیا۔ میں اسکول میں ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتا تھا،میں نے میٹرک میں بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی، گاؤں میں انگریزی تعلیم کا بندوبست نہیں تھا، میں نے اس کا حل یہ نکالا کہ میں بی بی سی اور وائس آف امریکا سننے لگا، میں روزانہ انھیں سنتا، ان کے بولے گئے دس لفظ روزانہ یاد کرتا۔ ریڈیو کی اناؤنسر کے لہجے کی نقل کرتا، حفظ کی وجہ سے میری یاد داشت بڑی شاندار تھی۔ میں پوری پوری ریڈیو رپورٹ زبانی یاد کر لیتا تھا، ساری ساری خبریں مجھے ازبر ہو جاتیں۔ میں شام کو کھیتوں میں نکل جاتا، پودوں، درختوں اور فصلوں کو یہ ساری خبریں اور یہ ساری رپورٹیں انگریزی لہجے میں سناتا۔ میں برسوں یہ پریکٹس کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے انگریزی لہجے پر عبور حاصل ہو گیا۔
لوگ میری انگریزی سن کر چونک اٹھتے اور دعوے سے کہتے کہ میں امریکا یا لندن میں پیدا ہوا ہوں۔ کالج میں میں نے انگریزی کتب کا مطالعہ بھی شروع کر دیا، اس سے میرے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو گیا۔ میرے دوسرے مضامین بھی اچھے تھے۔ میں کالج جاتا تو شلوار کرتا پہن رکھا ہوتا، پاؤں میں کھلی چپل ہوتی اور سر پر عمامہ ، شروع شروع میں لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے …… لیکن جلد ہی میری قابلیت نے انھیں میرے احترام پر مجبور کر دیا۔ بی اے میں میری یونیورسٹی میں پوزیشن آ گئی۔ ان دنوں امریکا نے تیسری دنیا کے نوجوانوں کو تعلیمی وظائف دینا شروع کیے تھے، میں نے اپلائی کیا، ٹیسٹ انٹرویو ہوا، میری اس میں بھی پوزیشن تھی، انھوں نے میرے حلیے پر ذرا سا اعتراض کیا لیکن میں نے ان سے کہا: ‘‘آپ سکھوں، یہودیوں ، عیسائیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کو وظائف نہیں دیتے؟ آپ ان کے حلیے پر اعتراض کرتے ہیں تو مجھ پر بھی کیجیے ورنہ پھر مجھے بھی دوسروں کی طرح برداشت کریں، وہ لوگ ہنس پڑے۔ یوں مجھے میرے حلیے سمیت امریکا کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ وہاں بھی لوگ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے لیکن میں نے کسی کی پروا نہ کی۔
میں نے اپنے ڈین سے مل کرنماز کی اجازت لے لی، انھوں نے میرے لیے اپنے دفترکا ایک کارنر مخصوص کر دیا۔ میں اپنے وقت پر کلاس یا لائبریری سے اٹھتا اور چپ چاپ جا کر نماز پڑھتا اور واپس آجاتا۔ میں کلاس میں بھی سب سے اچھا طالب علم تھا، مجھے تمام علوم ازبر ہوتے تھے۔ میں کل ہونے والی پڑھائی کے بارے میں پہلے ہی سے تمام مواد پڑھ لیتا تھا، اپنا کام وقت پر کرتا تھا، انگریزی میری بہت اچھی تھی، لہٰذا تمام اساتذہ اور طالب علم میرا احترام کرنے لگے۔ ایک دن کلاس کے دوران میں نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو تمام لوگ حیران رہ گئے ۔ ان کے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ مجھے پورا قرآن مجید زبانی یاد ہے۔ انھوں نے میرا امتحان لینا شروع کر دیا، اب میں فارغ وقت میں انھیں قرآن مجید سنانے لگتا۔ میں نے انھیں قرآن مجید کے احترام کے بارے میں بھی بتا دیا تھا، میں جب تلاوت شروع کرتا تو خواتین خود بخود سر ڈھانپ لیتی تھیں، لڑکے سگریٹ بجھا دیتے تھے اور باتیں کرنے والے لوگ خاموش ہو جاتے تھے۔
امریکا میں ایک اور دلچسپ روایت ہے وہاں مختلف ادارے یونیورسٹیوں سے رابطہ کرتے ہیں اور مختلف شعبوں میں بہتر پوزیشن لینے والے طالب علموں کو اپنے ادارہ میں نوکری کی پیش کش کرتے ہیں، یونیورسٹی کے پروفیسر ان نوکریوں کی تقسیم اور اداروں کی سطح اور طالب علموں کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ میری پوزیشن چونکہ سب سے اچھی تھی لہٰذا میرے ڈین نے میرا نام ایک ملٹی نیشنل کمپنی کو دے دیا۔ میں انٹرویو کے لیے گیا تو وہ لوگ بھی اپنے دفتر میں ایک ‘‘طالبان’’ کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ انھوں نے مجھے ان ٹرن شپ کی پیش کش کی، میں نے وہ ادارہ جوائن کر لیا۔ میں وہاں جز وقتی ملازم تھا لیکن میں چند گھنٹوں میں ان کا اتنا کام کر جاتا تھا جتنا ان کے کل وقتی ملازموں کا پورا شعبہ نہیں کرتا تھا۔میں چھ ماہ ان کا جزوقتی ملازم رہا، اس دوران میں نے کمپنی کو بعض مشورے دیے۔ انھوں نے طویل تکرار کے بعد ان پر عمل کیا، کمپنی کے منافع میں سو فیصد اضافہ ہو گیا، وہ میری کارکردگی پر حیران رہ گئے۔
چھ ماہ بعد انھوں نے مجھے پانچ ہزار ڈالر ماہانہ کی نوکری کی آفر کر دی، جو میں نے قبول کر لی۔ نوکری کے دوران میں نے ہمیشہ وقت کی پابندی کی، ذمہ داری سے بڑھ کر کام کیا، ماتحتوں سے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ ان سے پیار و محبت سے کام لیا لہٰذا میری کارکردگی نے امریکیوں کوحیران کر دیا۔ میں حافظ قرآن تھا۔ میرے سینے میں قرآن مجید نے میری رہنمائی کی، وہ برکت بن کر میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ میرے سارے کام آسان ہو گئے میں ترقی کرتا چلا گیا۔
یہاں تک کہ میری تنخواہ ۲۵۰۰۰ ڈالر ماہانہ ہو گئی۔ پوری کمپنی میں صرف بیس بندے تھے جن کی اتنی یا اس سے زیادہ تنخواہ تھی۔ میرا دائرہ کار بھی بڑھا دیا گیا، ۲۰۰۰ء میں والد صاحب نے مجھے واپس آنے کا حکم دیا تو میں نے استعفیٰ پیش کر دیا۔ انھوں نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا تو وہ مزید حیران رہ گئے کہ ایک شخص صرف اپنے بوڑھے والد کی خواہش پر اتنی بڑی نوکری چھوڑ کر جا رہا ہے۔ انھوں نے مجھے بڑا سمجھایا جب میں نہ مانا تو انھوں نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔
انھوں نے پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے یہ دفتر بنایا، عملہ رکھا اور مجھے کنٹری منیجر بنا کر یہاں بھجوا دیا یہاں میرے اختیارات کا یہ عالم ہے کہ میں پورے مہینے کے لیے جہاز چارٹر کر سکتا ہوں۔ دس کروڑ روپے تک کا چیک ہیڈ کوارٹر کی منظوری کے بغیر سائن کر سکتا ہوں۔ ایشیا کے ۱۲ ممالک میرے ماتحت ہیں۔ لوگ میرا حلیہ دیکھتے ہیں اور پھر میری پوزیشن پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں یقین نہیں آتا۔ آپ کو بھی حیرانی ہو گی کہ میں نے پوری زندگی شیو نہیں کی، کوئی نماز قضا نہیں کی، کوئی روزہ نہیں چھوڑا، میں نے پوری زندگی پتلون نہیں پہنی، جراب نہیں پہنی اور سر ننگا نہیں رکھا۔ لیکن اس کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنی کی انتظامیہ میں شامل ہوں۔
لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں وہ ہمیں دہشت گرد اور جنونی سمجھتے ہیں۔ ہم ان کی رائے بدل نہیں سکتے لیکن اگر ہم اس دنیا میں ان لوگوں کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان لوگوں کو اپنی محنت، قابلیت اور ذہانت سے متاثرکرنا ہو گا۔ اگر مدرسے کا ایک بچہ ایسا کر سکتا ہے تو ہم لوگ اپنی صلاحیتوں سے انھیں متاثر کیوں نہیں کر سکتے؟ ہمارے مدرسوں میں ایسے لوگ کیوں نہیں پیدا ہو سکتے جو زندگی کے ہر شعبے کے لیے مثالی انسان تیار کر سکیں؟ ہمارا عالم گریجویٹ کیوں نہیں ہو سکتا؟ ہم دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں تو اس سے مرعوب کیوں ہیں؟ آخر وہ وقت کب آئے گا جب ہم قوم کو طالبان پرنسپل، طالبان منیجر اور طالبان ڈائریکٹر دیں گے؟
(بشکریہ ماہنامہ خطیب لاہور)