قیدی کو بیڑیوں میں جکڑ کر لایا گیا۔ سامنے بہت ہیبت ناک منظر تھا۔ کھلے میدان میں حکمران کے حکم پر ڈھیروں لکڑیا ں جمع کر کے ایک خوفناک آگ جلا دی گئی تھی اور چھوٹے بڑے سب اس میدان میں جمع تھے تا کہ وہ اس قید ی کی ‘‘توبہ’’کا منظر دیکھیں یا پھر آگ میں جلنے کا تماشا ۔آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے ۔ حکمران نے پہلے ایک نظر آگ کی طرف ڈالی اور پھر بڑی رعونت سے قید ی سے کہا۔کیا تم اس بات کا اقرا رکرتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے بند ے اور اس کے رسول ہیں۔ قید ی نے بڑ ی مسرت اور پورے جوش سے اعلان کیا کہ بلاشک، محمد ﷺ اللہ کے بند ے اور اس کے رسول ہیں۔ حکمران نے تیوری چڑھائی اور تکبر سے گویا ہوا کیا تم اس کی بھی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ قید ی نے جواب دیا کہ میرے کان تیری یہ بات سننے سے عاری ہیں۔ حکمران نے کہاسوچ لو یہ آگ تمہارے لیے ہی جلائی گئی ہے اگر تم اس بات کا اقرار نہیں کرو گے تو میں تمہیں اس آگ میں پھنکوا دوں گا۔ قید ی نے کہا اگر تم مجھے اس آگ میں پھینکو گے جو لکڑیوں سے جلائی گئی ہے تو میں اس کے ذریعے سے قیامت کے دن کی اس آگ سے بچ جاؤں گا جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔یہ سن کر حکمران نے کہا میں تمہیں پھر موقع دیتا ہوں کہ بچ جاؤ اور میرے سوال کا جواب دو۔ اس نے اپنے سوال کو پھر دہرایا او رکہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ قید ی نے کہا کہ بلاشک محمد ﷺ نہ صرف اللہ کے رسول ہیں بلکہ آپ ختم الرسل بھی ہیں ۔نبوت و رسالت کا سلسلہ آپ پر ختم کر دیا گیا۔ حکمران نے کہا کہ کیا تو اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ قید ی نے کہا کہ میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ میرے کان تیری یہ بات سننے سے عاری ہیں۔حکمران سے مزید تحمل کرنا مشکل ہو گیا اور اس نے ارادہ کیا کہ انہیں آگ میں پھنکوا دے، کہ اتنے میں اس کے ایک درباری نے اس کے کان میں کہا کہ اس شخص کی دعا بڑی قبول ہوتی ہے اگر تو نے اسے آگ میں پھنکوا دیا اور اللہ نے ابراہیم کی طرح اسے بچا لیا تو تُو ذلیل ہو جائے گا اور اسی میدان میں لوگ تیری نبوت کا انکار کر دیں گے اور اگر تو نے اسے جلا دیا تو لوگ اسے شہید وں کی صف میں شمار کر یں گے اور اس کی عزت و توقیر کو چار چاند لگ جائیں گے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس سے جان چھڑا لو اور اسے ملک بد رکر دو۔ حکمران نے یہ بات مان کر انہیں ملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔ قید ی مدینے کا مسافر بنا۔مدینے پہنچ کر روضہ رسولﷺ پر سلا م عرض کیا پھردو نفل اد ا کیے۔ نماز سے فارغ ہو تے ہی عمر ؓ نے پوچھا آپ کہا ں سے تشریف لائے ہیں ۔ مسافر نے کہا یمن سے ۔ حضرت عمرؓ نے کہا ہمارے اس ساتھی کا کیا حال ہے جسے جلانے کی خاطر دشمن خدانے آگ بھڑ کائی تھی لیکن اللہ نے اسے نجات دی۔مسافر نے کہا کہ وہ اللہ کے فضل سے خیریت سے ہے۔ عمرؓ کہنے لگے کہیں تمہیں تو وہ نہیں ہو۔ فرمایا ہاں میں ہی وہ ہوں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایک ایسے شخص کی زیارت کا موقع عطا کیا جس کے ساتھ اللہ نے حضرت ابراہیم سا معاملہ کیا۔پھر ہاتھ پکڑا اور حضرت صدیق اکبرؓ کے پاس لے گئے ۔ صدیقؓ نے انہیں اپنے اور عمرؓ کے درمیان بٹھا لیا اور یہ دونوں اکابر حضرت ابومسلم خولانی سے بڑی تفصیل سے وہ تمام واقعہ اور معاملہ سننے لگے جو جھوٹے مدعی نبوت اسود عنسی نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ کسی نے سچ کہا کہ جو تحفظ ختم نبوت کا عزم کر لے اس کے لیے آ ج بھی ابراہیمی انعام کے دروازے کھلے ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ لینے والے بدلتے ہیں دینے والا تو وہی ہے ۔اور یہ دینے والا پہلے بھی قادر تھا ، آج بھی ہے ، اور آئند ہ بھی رہے گا۔