(بیاد ڈاکٹر نذیراحمد شہیدؒ)
روتی، چیختی، سسکتی اور تڑپتی ہوئی عورتیں گھر کے صحن میں داخل ہوتیں اور اس کی امی کے گلے لگ جاتیں۔ وہ عورتیں خود تو بہت روتیں مگر اس کی ماں کی آنکھوں سے چند آنسو نکلتے جنھیں وہ جلد ہی اپنے دوپٹے کے پلو سے پونچھ ڈالتیں۔ وہ شاید صبر کی چٹان بن چکی تھیں۔ زندگی کو انہوں نے کچھ اس نہج سے برتا تھا کہ صبر و استقامت نے ان کی انگلی تھام لی تھی۔ عورتیں جلد ہی چیخنا چلانا بند کر دیتیں لیکن اندر ہی اندر سسکتی رہتیں۔ کوئی سپارہ اٹھا لیتی اور کوئی چہرہ گھٹنوں میں چھپائے غم کی تصویر سی بنی ہوتی۔ وہ ننھی سی بچی ماں کے گھٹنے پہ سر رکھے لیٹی رہتی۔ اکثر عورتیں ماں سے مل کر اس کے سر پر بھی ہاتھ پھیرتیں اور کچھ اس طرح کے الفاظ بولتیں جو اس کی سمجھ میں نہ آتے۔
چھوٹے کمرے کے سوراخ سے پانی ہلکا ہلکا بہتا ہوا صحن کی طرف آتا دکھائی دیتا جس میں خون کی ہلکی سی آمیزش بھی نظر آتی۔ یہ خون اس شہید کا تھا جسے ۸ جون ِ۱۹۷۲ء کی سیاہ رات کو خون کی عبا پہنا دی گئی۔ نو بج کر پچاس منٹ پہ اعلان ہو گیا کہ وہ مردِ درویش اس چھوٹی اور عارضی زندگی سے ابدی زندگی کے سفر پہ گامزن ہو چکا ہے۔ پورے شہر میں ایک کہرام بپا تھا اور ہر آنکھ اشک بار تھی لیکن اس ننھی سی بچی کو کچھ علم نہ تھا کہ اس کی زندگی میں کیا حادثہ رونما ہو چکا ہے۔ اس کے لیے تو بس یہ ایک منظر تھا کہ چھوٹے کمرے کے درمیان میں ایک چارپائی پڑی تھی جس پہ اس کا باپ سویا ہوا تھا۔ وہ حیران ضرور تھی کہ پہلے تو اس کے گھر میں اتنی عورتیں نہیں آئی تھیں۔ آج وہ یہ منظر حیرت سے دیکھ رہی تھی کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد چھوٹے کمرے کا دروازہ کھول دیا جاتا، خواتین کا ایک ریلا اندر داخل ہو جاتا اور وہ خود بھی کبھی ماں کی انگلی تھامے اور کبھی اس کی قمیص پکڑے اندر داخل ہو جاتی۔ کمرے میں موجود خواتین شہید کی میت کا دیدار کرتیں اوردوسری طرف سے واپس صحن میں چلی جاتیں۔ پھراور خواتین آ جاتیں۔ اور وہ اس کی ماں کے ساتھ اس وقت تک کمرے میں رہتیں جب تک کہ شہید کے دیدار کے لیے مردوں کی باری کا اعلان نہ ہو جاتا۔ گھر کے باہر لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو اپنے محسن، اپنے دوست اور رفیق کا آخری دیدار کرنا چاہتے تھے۔ کمرے کا دروازہ جو گھر کی طرف کھلتا تھا بند کر دیا جاتا اور مرد قطار اندر قطار دیدار کے لیے کمرے میں ا ٓ جاتے۔ یہ سلسلہ جب بہت طویل ہو گیا تو وہ ننھی گڑیا اکتا سی گئی اور اپنی ہمجولیوں کے ساتھ چھت پر پہنچ گئی۔ دورانِ کھیل اس کی ماموں زاد نے کہا تمھارے ابو تو فوت ہو گئے ہیں اب کچھ دیر کے بعد لوگ انھیں قبرستان لے جائیں گے اور دفن کر دیں گے۔ اس کو ایسے لگا جیسے کسی نے اس کے ننھے سے دل پر ایک گھونسا دے مارا ہو۔ وہ تلملا کر بولی، جی نہیں میرے ابو تو زندہ ہیں۔ وہ کیسے مان لیتی جب کہ اس نے خود اپنے باپ کو کمرے میں چارپائی پہ لیٹے دیکھا تھا اور چہرہ بھی ایسا خوبصورت ، مسکراتا ہوا اور زندگی سے بھر پور کہ موت اس چہرے کے قریب بھی نہ آسکے۔ شاید زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے باپ کو اتنے قریب سے اور اتنی دیر تک دیکھا تھا کہ آج بھی صرف وہی مسکراتا ہوا اور بند آنکھوں والا چہرہ اس کے ذہن کے کسی نہاں خانے میں محفوظ ہے۔
بس اس ایک منظر کے سوا اسے اپنے باپ کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں۔ ذہن کے کسی گوشے میں چند دھندلکے سے نقوش ہیں اور بس۔جب وہ شہید ہوئے تو اس کی عمرچار سال تھی۔ ویسے تو چار پانچ سال کے بچے کا اپنے ماں باپ سے اتنا تعلق ہو چکا ہوتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ ایسے میں باپ یا ماں میں سے کوئی منظر سے ہٹ بھی جائے تو ان کا چہرہ اور ان کی یاد زندگی بھر ذہن میں رہتی ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب بچوں کا اکثر وقت اپنے والدین کی گود میں کھیلتے گزرا ہو۔ باپ اگر دن بھر تلاشِ روزگار میں گھر سے باہر بھی رہتا ہو تو شام کو روزانہ گھر واپس آجاتا ہو۔ ہاں یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب بچہ اکثر باپ کو ہاتھی یا گھوڑا بنا کر گھر کے صحن میں گھوما کرتا ہو۔ مگر زندگی کے ایسے روزوشب تو عام لوگوں کے ہوتے ہیں۔ وہ تو خاص تھے لیکن انھوں نے اپنی پوری زندگی عام لوگوں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ویسے تو زیادہ تر وقت وہ دوروں پہ رہتے لیکن جب گھر آتے تو بھی کلینک پہ ہی زیادہ وقت گزرتا ۔ اس دن پورے علاقے بلکہ پورے ملک کی فضا سوگوار تھی، ہر شخص اپنے آپ کو یتیم سمجھ رہا تھا لیکن اس کے اپنے یتیم بچوں کے لیے یہ ایک ویسا ہی دن تھا جس کے وہ شروع سے عادی تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے وہ گھر سے باہر نکلتے تو کسی غریب کی جھونپڑی میں اس کی دلجوئی کے لئے پہنچے ہوتے یا کسی مظلوم کی دادرسی کیلئے یا پھر جیل کی اونچی دیواروں کے پیچھے قید کاٹنے کے لیے مگر آج وہ زندگی کی ہر قید سے آزاد ہو کر اپنے رب کے حضورپہنچ چکے تھے۔ چل اے نفسِ مطمئنہ اپنے رب کی طرف، وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی!