خلیفہ وقت نے اپنے معزز مہمان کو خوش آمدید کہا اور انہیں نہایت عزت و احترام سے شاہی مہمان خانے میں ٹھیرایا۔مہمان کے ساتھ ان کا نوجوان بیٹا بھی تھا۔ یہ ایک دن شاہی اصطبل میں داخل ہوا ۔ وہاں ایک گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی لیکن گھوڑا منہ زور تھا اس نے اس زور سے اس کے سینے میں ٹانگ ماری کہ یہ وہیں اللہ کو پیاراہو گیا۔ باپ بیٹے کو دفن کر کے لوٹ رہا تھا کہ ٹانگ میں شدید درد محسوس ہوا ۔ کسی علاج سے افاقہ نہ ہوا تو طبیبوں نے تجویز کیا کہ اس کا علاج یہی ہے کہ ٹانگ کاٹ دی جائے ورنہ زہر سارے جسم میں سرایت کر جائے گا۔ اس زمانے میں اس طرح کے آپر یشن کے لیے کوئی نشہ آور چیز پلائی جاتی تھی ۔ لیکن اس مہمان نے کوئی بھی ایسی چیز پینے سے انکا ر کر دیا اور کہا کہ میرا عضو کاٹتے وقت جو درد مجھے ہو گی اس کے بدلے میں مجھے ان شا ء اللہ ثواب ملے گا اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی نشہ آور چیز میرے جسم کا حصہ بنے ۔ چنانچہ جراح ٹانگ کاٹنے کے لیے تیار ہوا تو بہت سے آدمیوں کو بھی بلا لیا گیا کہ جو ان کو پکڑ کررکھیں تا کہ تکلیف سے یہ ہلنے نہ پائیں۔ مہمان نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں تم لوگ اپنا کام کرو ،میں اپنا کام کرتا ہوں۔ ادھر جراح نے جسم کاٹنا شروع کیا ادھر انھوں نے لا ا لہ الا اللہ کا ورد شرو ع کیا اور اسی حالت میں ٹانگ کاٹ دی گئی۔ اس کے بعد خون بند کرنے کے لیے زخم کو کھولتے ہوئے تیل میں ڈبویا گیا تو اس تکلیف کو آپ برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہو گئے ۔ عمر بھر میں یہ پہلا موقع تھا کہ آپ قرآن مجید نہ پڑھ سکے ورنہ ہمیشہ یہ معمول رہا کہ ایک چوتھائی قرآن دن میں دیکھ کر پڑھتے اور پھر رات کے وقت یہی حصہ نوافل میں تلاوت کرتے ۔
قرآن مجید سے اس قد ر تعلق اور محبت کرنے والے اس مہمان کا نام تھا عروہ بن زبیرجن کے نانا صدیق اکبرؓ ، جن کی دادی حضور ﷺ کی پھوپھی صفیہ ، جن کی خالہ ام المومنین عائشہؓ ، جن کی والد ہ اسماؓ اور جن کے والد حواری رسول ﷺ زبیرؓ بن عوام تھے۔
دمشق کے شاہی محل سے جب یہ مدینے اس حال میں لوٹے کہ ایک ٹانگ کٹ چکی تھی اور بیٹا اللہ کو پیار ا ہو گیا تھا تو لوگوں نے دلاسا دینے کی کوشش کی تو فرمایا کہ اللہ نے مجھے چار بیٹے عطا کیے ایک اس نے لے لیا تین ابھی باقی ہیں ۔ اسی طرح اس نے چار اعضا دیے ایک اس نے لیے لیا تین ابھی باقی ہیں ۔ اس کا شکر ہے ۔ اس نے کم لیا اور زیاد ہ میرے پاس رہنے دیا ۔ اس کا شکر ہے وہ اگر یہ بھی نہ رہنے دیتا تو ہم کیا کر لیتے ۔ وہ اپنی اولاد کوہمیشہ اس بات کی تلقین کیا کرتے کہ اللہ کی راہ میں صدقہ اس طرح کیا کر و جس طرح تم اپنے کسی پیارے عزیز کو تحفہ دیا کرتے ہو اور فرماتے کہ راہ خدامیں کوئی ایسی چیز صدقہ نہ دینا جو تم کسی عزیز کو دیتے ہوئے شرماؤ۔
عروہ کی یہ آرزو تھی کہ وہ روزے کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوں تا کہ آب کوثر سے روزہ افطار کر سکیں۔ اکہتر برس کی عمر میں اللہ نے ان کی یہ آرزو بھی پورری کر دی اور غالباً وہ بھی اسی امید پر، عمر بھرعلم و عمل ، صبر و شکر اور انفاق فی سبیل اللہ کی ‘کوثر’ بہاتے رہے تھے۔