اس دن بھی شہر کی مسجد وں میں معمول کے مطابق عصر کی اذان ہوئی مگر کسی مسجد میں جماعت نہ ہو سکی ۔ جماعت کیسے ہوتی کہیں کوئی بالغ مرد موجو د ہی نہ تھا وہ تو سب کے سب مرکزی مسجد میں جمع ہو رہے تھے ۔جہاں نماز کے ساتھ حق اور سچ کے ساتھی کا جنازہ ہونے والا تھا۔لوگوں کو اس جنازے میں شامل ہونا اپنی اپنی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے زیا دہ عزیز تھا۔ جس طرح اس کا جنازہ پڑھنا اس وقت لوگوں کو عزیزہو رہا تھا اسی طرح زندگی میں بھی اس شخص کی صحبت اختیار کرنا اور اس کی باتیں سننالوگوں کو محبوب ہواکرتا تھا۔ محبوب کیوں نہ ہوتا انہوں نے اللہ کو اپنا محبوب بنا لیا تھا اور اللہ نے انہیں مخلوق کا محبوب بنا دیا تھا۔
حق کے یہ ساتھی ابھی چودہ برس کے تھے کہ مدینے سے بصر ہ منتقل ہو گئے۔ اسی نسبت سے بصر ی کہلائے ،اگرچہ نام حسن تھا لیکن بصری بھی نام کا ایسا جزو بنا کہ بصرہ حسن کے ساتھ اور حسن بصر ے کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گیا اور تاریخ انہیں حسن بصری کے نام سے جاننے لگی۔ حسن کا نام ام المومنین ام سلمی ؓ نے تجویز کیا تھا اور انہیں کی گود نہ صرف یہ کھیلے تھے بلکہ ان کا دودھ بھی پیا تھا ۔ حسن کا بچپن امھا ت المومنین کے گھروں میں کھیلتے اور جوانی عثمان ؓبن عفان، علی ؓبن ابی طالب ، عبداللہؓ بن عمرؓ ، انسؓ بن مالک اور جابرؓ بن عبد اللہ جیسے جلیل القدر صحابہ کی صحبت میں گزری تھی شاید اسی کا اثر تھا کہ ان کی شخصیت علم و عمل ، حق و سچ اور تقوی و طہارت کا مجسمہ بن گئی تھی۔
حسن اگرچہ ابن غلام تھے یعنی ان کے والد یسار، زید بن ثابتؓکے غلام اور ان کی والد ہ خیرۃ، حضرت ام سلمیؓ کی کنیز لیکن اس ابنِ غلام کی عزت و مقام کے آگے بادشاہوں کی عزت ہیچ نظر آتی ہے ۔وقت کے ظالم حکمران نے شہر کے وسط میں اپنے رہنے کے لیے ایک عالیشان محل تعمیر کروایااور جب مکمل ہوا تو لوگوں کو اس کی سیر کی دعوت دی تا کہ لوگ اس کی تعریف کریں تو اسے سکون میسر آئے ۔ حسن نے سوچا کہ نصیحت کا اچھاموقع ہے ہاتھ سے کیوں جانے دیا جائے ۔ یہ بھی وہاں جا پہنچے اور لوگوں سے خطاب کر تے ہوئے کہنے لگے‘ ‘ہمیں معلوم ہے کہ فرعون نے اس سے زیادہ خوبصورت ، عالیشان اور مضبوط محل تعمیر کروائے تھے لیکن اللہ نے فرعون کو بھی ہلاک کر دیا اور اس کے محلات کو بھی ، کاش وقت کے اس ظالم حکمران کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان والے اس سے ناراض ہیں اور زمین والوں نے اسے دھوکے میں رکھا ہوا ہے’’۔ وہ لوگ جو تھوڑی دیر پہلے تک اس محل کی خوبصو رتی سے متاثر ہو رہے تھے ۔ ان پہ حقیقت کھل گئی ،اور انہیں صاف محسوس ہونے لگا کہ یہ محل بھی مٹی اور ہمارے قدموں تلے بھی مٹی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ ‘کھڑ ی مٹی ’ ہے اور وہ ‘ پڑی مٹی ’ ۔ اصل میں ہے، سب مٹی۔ حجاج اپنے محل کی یہ توہین برداشت نہ کر سکا۔ حکم ہوا ،گرفتار ہوئے ۔دربار بلا یا گیا ،جلاد منگوایا گیا، چمڑے کی چاد ربچھ گئ اور تلوار بے نیام ہو گئی لیکن جونہی حجاج کی نظریں ان سے دوچار ہوئیں تو اس پر ایک عجیب طرح کی ہیبت چھا گئی اور اس نے انہیں عزت و احترام سے رخصت کر دیا۔ لوگو ں نے پوچھا آپ نے کیا پڑھا تھا ۔فرمایا میں نے اپنے اللہ سے کہا تھا ‘‘کہ الہی ساری مخلوق کے دل تیرے ہی قبضے میں ہیں اور تو ہی ہر مصیبت میں میرا ملجا و ماوی ہے ’’۔ اور حقیقت بھی یہی تھی ،ان کے قدم چلتے ،تو اللہ کے لیے اور رکتے، تو بھی اللہ کے لیے ، ان کے ہاتھ اٹھتے، تو اللہ کے لیے اور نہ اٹھتے، تو بھی اللہ کے لیے ، ان کی زبان بولتی ، تو اللہ کے لیے اور چپ رہتی ، تو بھی اللہ کے لیے ،یہی وجہ ہے کہ آج صدیوں بعد لوگ انہیں یاد کرتے ہیں تو بھی اللہ کے لیے۔