بخاری مرحوم کے لیے ان کے ایک مرید باصفا کا نذرانہ اشک
وقت کی موجوں پہ بہتے بہتے آج سے ساڑھے تین برس پہلے خاکسار کا سفینہ حیات دارالتذکیر کے ساحل سے ہمکنا ر ہوا ۔ شروعاتِ روزگار ہی میں دو خوبصورت انسانوں سے شناسائی ہوئی ۔ جن میں سے ایک جوانِ رعنا فصیح الدین اشر ف اور دوسرے بے مثال پروفیسر اشرف بخاری جنہیں اب کرچی کرچی دل کے ساتھ مرحوم لکھنا پڑ رہا ہے۔‘اشرفین’ سے محبتوں کا یہ سفر تین برسوں پر محیط ہے ۔ اس دوران میں فصیح الدین اشرف نے ہم سے جی کھول کر مختلف موضوعات پر کتب منگوائیں۔ جب کہ بخاری مرحوم کی دو کتب کی اشاعت کا شرف بھی ہمیں حاصل ہوا۔ کتابیں بھی باقی ہیں اور کتاب خواں بھی موجود’ لیکن صاحبِ کتاب عازمِ سفرِ جاوداں ہو کر اس شہر خموشاں کے باسی بن گئے کہ جہاں لوگوں کو جاتے تو دیکھا ہے مگر وہاں سے واپس آتے نہیں دیکھا۔
بخاری صاحب کی وفات کے دنوں میں فصیح الدین اشرف محکمانہ سیمنار میں شرکت کے لیے ٹوکیو گئے ہوئے تھے۔ بخاری مرحوم کی دائمی مفارقت کی روح فرساخبر انہیں وہیں موصول ہوئی۔ جانے کس دل گردے کے ساتھ انہوں نے اس شکستہ خاطر اور جگر پاش خبر کو سنا ہو گا۔ عالمِ دل کی یہ کیفیات وہی جان سکتا ہے جس کی ذات کسی ایسے طوفان کی زد میں آئی ہو۔تاہم ۲۴۔جنوری ۲۰۰۵ کو ٹوکیو سے محترمی فصیح الدین نے اپنے ایک خط کے ساتھ بخاری مرحوم کے بچھڑ جانے پہ اپنی کیفیات و احساسات غم سے لبریز ایک تاثراتی مضمون ارسا ل فرمایاجو من وعن پیشِ خدمت ہے۔ (محمد شبیر قمر۔ مینجر دارالتذکیر)
(پروفیسر اشرف بخاری مرحوم کی حیات و علمی خدمات کی تفصیل کے لیے سوئے حرم کے آئندہ شماروں کا انتظار فرمائیں)
ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ فون پر مجھ سے فرمایا کہ آپ جاپان میں پتا کرائیں کہ ہیپاٹائٹس سی کا واقعی کوئی ‘‘تیر بہدف’’ علاج انھوں نے دریافت کیا ہے ؟ میں نے کہا معلوم کرکے فون پر بتا دوں گا۔ فرمایا، ضروری نہیں، خط لکھ دیں۔ دوسرے روز خط لکھا اور ایکسپریس سے بھیجا۔ ایک آدھ روز بعد فون کیا تو پتا چلا کہ طبیعت ناساز تھی، رحمان کمپلیکس چلے گئے ہیں۔ شام کو دوبارہ فون کیا تو ان کی بیٹی نے بتایا کہ پاپا بات نہیں کر سکتے، آرام کی گولیاں بھی دی ہیں، لیکن اشارے سے کہہ رہے ہیں کہ انکل سے میری بات کراؤ۔ ان کی آواز پہلی بار اتنی کمزور اور طبیعت اتنی خراب محسوس ہوئی۔ صرف اتنا ہی فرمایا، آپ میرے لیے دعا کریں اور میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں۔ چند سیکنڈ کی اس گفتگو نے میرے اندر عجیب سی بے چینی پیدا کی۔ کئی سال پر محیط تعلق خاطر میں یہ پہلا موقع تھا کہ میری ان سے اتنی مختصر بات ہوئی تھی ورنہ محفل ہو یا فون پر بات چیت ہو رہی ہو،وقت گزرنے کا احساس باقی نہیں رہتا تھا، اور گھنٹوں ان کی عالمانہ صحبت سے فیضیابی اور سیرابی نہ ہوتی تھی۔ یہ جنوری کی بیس تاریخ تھی۔ میں جاپان ایک بین الاقوامی سیمینار کے سلسلہ میں آیا ہوں۔ آج میرے ملک میں عید ہونی تھی اور آج ہی بخاری صاحب نے ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑنا تھا۔ میں وطن عزیز سے پہلی بار کسی باہر ملک آیا ہوں۔ فطرتاً بھی خلوت پسند اور گوشہ نشین ہوں۔ میں تو وطن سے دوری کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتا پھر یہ اتنا بڑا صدمہ کیسے برداشت کروں؟ ‘‘صبح عید’’ گھر والوں نے ‘‘شامِ غم’’ کی یہ المناک خبر دی تو پہلے سے غم زدہ دل اور بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا۔ آج میں بچپن کے بعد زندگی میں پہلی بار بچوں کی طرح رویا ہوں۔ غم تو یہ ہے کہ یہاں کوئی دلاسا دینے والا بھی نہیں ہے۔ اس پرُ ہجوم دنیا میں میری طرح ہر کوئی اکیلا ہے۔
چند گھنٹے گزرے، اپنے آپ ہی کو دلاسا دیا، پھر بوجھل قدموں اور کانپتے ہاتھوں کا سہارا لیتے ہوئے فون اٹھایا۔ فون ہمیشہ اجلال اشرف (بخاری مرحوم کا بیٹا) ہی اٹھاتا ہے، میں ہمیشہ پہلا جملہ یوں بولتا رہا ہوں کیا بخاری صاحب گھر پر ہیں؟ اجلال کہتا ہاں جی گھر پر ہیں، یہ لیں بات کریں اور فون بخاری صاحب کے حوالہ کر دیتا۔ آج بھی حسب معمول میں نے ایسا ہی کہا مگر پہلے جملے کی ساخت کچھ یوں تھی، ‘‘اجلال! مجھے پتا ہے کہ بخاری صاحب گھر پر ہیں لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ آج وہ گھر پر ہوتے ہوئے بھی مجھ سے بات نہیں کر سکیں گے۔’’ اس کے بعد دونوں طرف سے صرف رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کون کس کو دلاسا دے رہا تھا، یہ معلوم نہ ہو سکا۔ لوگوں کو زندوں سے شکایت ہوتی ہے اور مجھے مرحوم بخاری صاحب سے شکایت ہے کہ اتنی جلدی؟ میرے آنے تک تو انتظار کیا ہوتا! ابھی جاتے ہوئے تو آپ نے مجھے فرمایا تھا کہ ‘‘ان شاء اللہ آپ کی وطن واپسی تک میں فرانس کے مشہور شاعر بودلیئر پر اپنی کتاب مکمل کر چکا ہوں گا۔ سب کچھ تیار ہے، بس ذرا نظر ثانی کرنی ہے اور چند ایک حوالہ جات بڑھانے ہیں۔’’ افسوس ، بخاری صاحب نے نہ میرے آنے تک انتظار کیا اور نہ اپنا وعدہ پورا کر سکے۔ مجھے ان سے شکایت ہے۔
میں پشاور میں ہوں اور ان سے ملنے نہ جاؤں یہ ناممکن تھا، میں پشاور میں ہوں اور ایک کامیاب محقق کی طرح وہ مجھے ڈھونڈ نہ نکالیں۔ یہ بھی ناممکن تھا، میں کبھی ان کا باقاعدہ شاگرد نہیں رہا ہوں البتہ جتنا کچھ ان سے سیکھا ہے شاید ہی کسی اور استاذ سے اتنا سنابھی ہو، سیکھنا تو دور کی بات۔ میرے پاس ان کی ذاتی آراء پر مبنی ان کی عالمانہ گفتگو کا بہت سارا حصہ محفوظ ہے۔ کوئی شعر، کسی مصنف کا نام یا کسی کتاب کا حوالہ اگر نوٹ نہ کر سکا تو بعد میں کمالِ محبت کا اظہار فرماتے ہوئے لکھ کر دے دیتے۔ مستقبل میں ان پر لکھنے والے اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
میں کوئی نقاد نہیں ہوں، البتہ ایک طالب علم کی حیثیت سے اسے یہ کہہ سکتا ہوں کہ سنجیدگی، وضعداری ، متانت اور سلامت ِ طبع ان کو قدرتِ کاملہ سے بے حد و بے پایاں عطا کی گئی تھی۔ تاہم خوش طبعی، بذلہ سنجی، لطافت اور مزاح پیدا کرنے کی صلاحیت ان کی انتہائی سنجیدگی میں بھی جھلکتی رہتی تھی۔ ویسے سنجیدگی اور مزاج دو متضاد باتیں ہیں اور علم و ادب کی تاریخ میں ایسے اصحاب، جو سنجیدہ بات مزاح میں کر سکیں کہ دلوں میں اترے اور طبیعتوں کو شاداب کرے، انگلیوں پر ہی گنے جا سکتے ہیں۔ کراچی اور لاہور سے لے کر پشاور تک کے اصحاب علم وفن میں بہت سارے با کمال ادباء سے میرے ذاتی مراسم ہیں۔ مگر یقین جانئے صوبہ سرحد میں ان جیسی نابغۂ روزگار اور بالغ نظر شخصیت کوئی اور نہیں دیکھی۔ ایک ایسی شخصیت جن کی کوئی بات علمیت، استدلال اور ثبوت کے بغیر نہ ہو۔ ان سے استفادہ کرنے میں صرف عوام نہیں خواص بھی شامل ہیں۔ چند ایک کا تو مجھے ذاتی طور پر بھی علم ہے۔
پروفیسر بخاری مرحوم خاکسار سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اپنی کتاب ‘‘کالم نگر’’ کو خاکسار کے نام سے منسوب کیا۔ نہ صرف ان کے بچے بلکہ ناشر ادارے دارالتذکیر کے مینجر شبیر قمر رانا صاحب بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے کئی مرتبہ ان سے استدعا کی کہ نہ میں اس قابل ہوں نہ مجھے شہرت پسند ہے۔ ہنس کر فرماتے تھے ‘‘آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کو رسوا کرکے ہی رہیں گے، کب تک چھپتے رہیں گے؟’’ کئی بار ان سے گزارش کی کہ وقت گزر رہا ہے، یہ تحقیقات جس طرح کہ آپ سوچ رہے ہیں، عمر نوح سے بھی سر نہ ہو سکیں گی۔ اس لیے خدارا! یہ مضامین اور یہ مقالے شائع کروائیں۔ پھر وہی مزاح۔ ہنس کر فرماتے، ‘‘بس آپ دعا کریں، چند ایک مسائل ہیں، یہ گزر جائیں تو میں اشرف بخاری سے فارغ بخاری بن کر دو ایک ماہ میں ساری کتابیں فائنل کر لوں گا۔’’ ہائے افسوس! مرنجان مرنج اور عالم و فاضل یکتائے روزگار محقق اپنی تمام تر تحقیق اور علمیت کے باوجود یہ نہ جان سکے کہ ایک دو ماہ بعد وہ مزاحاً نہیں حقیقتاً فارغ بخاری بن جائیں گے۔ ان کے مزاج پر سنجیدگی غالب آئی اور ان کا کہا سچ ثابت ہوا بھلے وہ مزاح ہی کیوں نہ تھا۔
پروفیسر بخاری مرحوم نے زندگی کا بھر پور علمی لطف اٹھایا ۔ البتہ عزیز احمد اور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی جیسے اصحابِ قلم سے لے کر مجھ خاکسار جیسے طالب علم تک اپنے پیچھے بے شمار سوگواران کی ایسی صف چھوڑی ہے جن کے دل زخم زخم ہو چکے ہیں۔ آج ہر طالب علم اور ہر سچا طالب علم اور ہر غیر جانبدار صاحبِ قلم اشکبار ہو گا …… کوئی اور ہو نہ ہو البتہ جاپان کی سرزمین پر یہ خبر آج مجھ پر ایسی گری ہے گویا جاپان میں پھر سے ایٹم بم گرائے گئے ہوں۔ آپ کہیں گے یہ مبالغہ ہے۔ لیکن ہرگز نہیں۔ میرے احساس کو صرف وہی جان سکتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ اردو زبان و ادب کے حوالہ سے پورے ملک میں کتنے لوگ پروفیسر بخاری مرحوم کی ہم سری کر سکتے ہیں؟ بہت ہی کم ثقہ اور ٹھوس علمی انداز کے مالک باقی رہ گئے ہیں۔ علم کے اس طرح اٹھ جانے سے میرے اندر بے پناہ تکلیف اٹھتی ہے اور وہ بھی اس طرح سے کہ ان کے بعد ان کی جگہ لینے والا بھی کوئی نہ ہو۔
میں اس وقت ٹوکیو کے شہر میں بیٹھا ہوں۔ کبھی اکیلے میں روتا ہوں اور کبھی قلم اٹھا کر اپنے تاثرات لکھتا ہوں۔ بار بار گھڑی کو دیکھ رہا ہوں کہ پاکستانی وقت کے مطابق، جہاں آج عید ہے، پروفیسر بخاری ابھی ‘‘نہائے’’ ہوں گے، ابھی ‘‘عید’’ کے نئے کپڑے پہنے ہوں گے، اور اب عیدگاہ (معاف فرمائیے) آرام گاہ کی طرف چل دیے ہوں گے۔ ایک ایسی آرام گاہ کی جانب جہاں کے آرام میں ایک ابدی نشہ ہے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا ہے۔ مجھے ان سے شکایت ہے کہ نہ وہ میرے آنے کا انتظار کر سکے،نہ اپنی کوئی کتاب فائنل کر سکے اور نہ ‘‘روزنامہ مشرق’’ میں اپنا وہ آخری کالم لکھ سکے جس کا کبھی کبھی وہ مجھ سے ذکر فرماتے تھے۔ میں ان سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بخاری صاحب آپ تو بڑے دھیمے مزاج کے مالک تھے، ہر کام بڑے آرام اور پوری تحقیق سے کیا کرتے تھے، یہ پھر مرنے میں اتنی جلدی کیوں کی؟ غالباً آپ نے پہلی بار کوئی کام اتنی جلدی میں کیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے سوال کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے اسی لیے تو آپ خاموش ہیں۔ ورنہ پروفیسر بخاری صاحب سے کوئی سوال کیا جائے اور وہ خاموش رہیں، یہ ناممکن ہے۔
ٹوکیو(جاپان) میں اس وقت شام کے سات بجے ہیں جبکہ پاکستان میں اس وقت سہ پہر کے تین بج رہے ہیں۔ غنی خان مرحوم نے غالباً اسی موقع کے لیے کہا تھا۔ (ترجمہ بالمفہوم)
‘‘ہاتھ باندھے اور زبان خموش کی گئی، سہ پہر کے وقت یوں بیٹھا ہوں’ جیسے کوئی پر ٹوٹا شوخ پرندہ سرِ شام اکیلے بیٹھا ہو’ یاد رکھو، جوانی کی شامِ غم اور بڑھاپے کی صبح عید’ نہ کبھی ایک جیسے ہو سکتے ہیں اور نہ کبھی ہو سکیں گے’’