اسلام کی بنیاد
اسلام کا سیدھا سادا مذہب دو قضایا پر مبنی ہے ۔ خدا ایک ہے او ر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ انبیاء کے آخری نبی ہیں ’ جو وقتاً فوقتاً ہر ملک اور ہر زمانے میں اس غرض سے مبعوث ہوتے تھے کہ نوع انسانی کی رہنمائی صحیح طرز زندگی کی طرف کریں۔
ختم نبوت کے تصور کی تہذیبی قدروقیمت
ختم نبوت کے تصور کی تہذیبی قدر و قیمت کی توضیح میں نے کسی اور جگہ کر دی ہے ۔ اس کے معنی بالکل سلیس ہیں …… محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں جس سے انکا ر کفر کو مستلزم ہو جو شخص ایسے الہام کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے ۔ قادیانیوں کا اعتقاد ہے کہ تحریک احمدیت کا بانی ایسے الہام کا حامل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام عالم اسلا م کو کافر قرار دیتے ہیں ۔
اسلام کی حد فاصل
اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے جس کے حدود مقرر ہیں یعنی وحدت الوہیت پر ایمان ’ انبیاء علیہ السلام پر ایمان اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم رسالت پر ایمان ’ در اصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم او رغیر مسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لیے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں ۔ مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں او ررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں ’ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعے وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں او ررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کو نہیں مانتے ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا ۔ ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا ۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں او رمسلمانوں میں شامل نہیں ہیں ۔
صرف پتھر تبدیل نہیں ہوتے
( جب علامہ مرحوم پر ان کی کسی سابقہ تحریر کا حوالہ دے کر قادیانی اخبار ‘‘سن رائز ’’ نے اعتراض کیا کہ پہلے تو علامہ اس تحریک کو اچھا سمجھتے تھے اب خود ہی اس کے خلاف بیان دینے لگے ہیں تو اس کے جواب میں علامہ مرحوم نے حسب ذیل بیان دیا )
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اب سے ربع صدی پیشتر مجھے اس تحریک سے اچھے نتائج کی امید تھی ۔ اس تقریر سے بہت پہلے مولوی چراغ مرحوم نے جو مسلمانوں میں کافی سربرآوردہ تھے او رانگریزی میں اسلام پر بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے ’ بانی تحریک ( مرزا غلام احمد) کے ساتھ تعاون کیا او رجہاں تک مجھے معلوم ہے کہ کتاب موسومہ ‘‘براہین احمدیہ ’’ میں انہوں نے بیش قیمت مدد بہم پہنچائی ۔ لیکن کسی مذہبی تحریک کی اصل روح ایک دن میں نمایاں نہیں ہو جاتی۔اسے اچھی طرح ظاہر ہونے کے لیے برسوں چاہییں ۔ تحریک کے دو گروہوں کے ( لاہوری ۔ قادیانی) باہمی نزاعات اس امر پر شاہد ہیں کہ خود ان لوگوں کو جو بانی تحریک کے ساتھ ذاتی روابط رکھتے تھے ’ معلوم نہ تھا کہ تحریک آگے چل کر کس راستہ پر پڑ جائے گی ۔ ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا جب ایک نئی نبوت ’ بانی اسلام کی نبوت سے اعلی تر نبوت کا دعوی کیا گیا ۔ او رتمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا۔ بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی ۔ جب میں نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا کلمات کہتے سنا ۔ درخت جڑ سے نہیں پھل سے پہچانا جاتا ہے ۔ اگر میرے موجودہ رویہ میں کوئی تنا قض ہے ’ تو یہ بھی ایک زندہ او رسوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے بقول ایمرسن ‘‘ صرف پتھر اپنے آپ کو نہیں جھٹلا سکتے ۔ ’’
قادیانی ’ تلعب بالدین
حکومت کو موجودہ صورت حال پر غور کرنا چاہیے اور اس معاملہ میں جو قومی وحدت کے لیے اشد اہم ہے عام مسلمانوں کی ذہنیت کا اندازہ لگانا چاہیے ۔ اگر کسی قوم کی وحدت خطرے میں ہو تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ معاندانہ قوتوں کے خلاف مدافعت کرے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدافعت کا کیا طریقہ ہے ؟ او روہ طریقہ یہی ہے کہ اصل جماعت جس شخص کو تلعب بالدین کرتے پائے اس کے دعاوی کو تحریر وتقریر کے ذریعہ سے جھٹلایا جائے ۔ پھر یہ کیا مناسب ہے کہ اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے حالانکہ اس کی وحدت خطرہ میں ہو اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری اجازت ہو ۔ اگرچہ وہ تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو ۔ (حرفِ اقبال سے ماخوذ)