لوگوں کی زندگیاں جعلی ادویات تیار کرنے والوں اور سرکاری مہربانوں کے خصوصی مراسم کی قربان گاہ پہ بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
شہر کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے آپریشن تھیٹر سے یکدم دھاڑوں اور چیخ و پکارکی آواز آنا شروع ہوگئی۔ آپریشن تھیٹر کے قریبی وارڈوں میں بھی خوف پھیل گیابعض مریض اور ان کی لواحقین رشتہ دار خواتین بھی اس چیخ و پکار میں شامل ہو گئیں۔ در اصل ہوا کچھ یوں کہ آپریشن تھیٹر میں ایک مریضہ کی سرجری کا منصوبہ اس وقت ناکام نظر آنے لگا جب ایک جونیئر سرجن نے انیستھیزیا کا انجیکشن لگا کر پھر آپریشن شروع کیا تو نرم خلیوں پر نشتر چلتے ہی خاتون مریضہ درد سے دھاڑی اور باقاعدہ مزاحمت شروع کردی ایسی صورتحال میں جونیئرز اور زیرتربیت سرجن حضرات پریشان ہو گئے۔ پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے سینئر سرجن تشریف لائے اور انیستھیزیا کا تیسرا انجیکشن لگانے کے بعد بھی مریض خاتون کو بے ہوش نہ کیا جا سکا تو سینئر سرجن نے ہسپتال کے ملازم کو بلا کر اسی قسم کا مگر مخصوص کمپنی کاانجیکشن لانے کا فوری حکم دیااس دوران میں مریضہ کی آہ و بکا جاری رہی۔ جب مطلوبہ نیا انجیکشن لگا تو مریضہ کی سرجری مکمل ہو سکی ۔در اصل مریضہ کو پہلے لگائے گئے انیستھیزیا کے تین انجیکشن سرکاری سٹور کے ہونے کے علاوہ مقامی کمپنی کے تیار کردہ تھے جن کا‘‘اثر’’ مریضہ ’ڈاکٹرز او ردیگر مریضوں کے علاوہ ہسپتال میں موجود لوگوں نے بھی دیکھ لیا۔ اس واقعے کے بعد سرکاری عملے کی روایتی پھرتی اور ‘‘خفیہ مخبری’’ کے باعث متعلقہ کمپنی نے مزید بدنامی اور چھاپے کے خوف سے مارکیٹ اور ہسپتال سے تمام انجیکشن اٹھوا لیے۔ یہ صرف ایک واقعہ تھا اس طرح کے واقعات روزانہ ہمارے ہسپتالوں میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن مریضوں کی مجبوریوں’غربت کے اندھیروں اور سرکاری حکام کی نا اہلی تلے دب کر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسی جعلی ادویات تیار کرنے والوں اور ‘‘سرکاری مہربانوں’’ کے ‘‘دیرینہ مراسم’’ کے باعث پاکستان میں لوگوں کی مجبوریاں اور زندگیاں اس ملی بھگت کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ لالچی فارما سیوٹیکل مالکان پیسے کی خاطر انسانی صحت اور زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ‘‘سرکاری سبھا’’پر کھڑی یہ فارما سیوٹیکل کمپنیاں لوگوں سے سہارے چھیننے میں مصروف ہیں۔ کوئی قانون اور پکڑ نہ ہونے کی وجہ سے مقامی اور انٹر نیشنل دواساز کمپنیوں نے ‘‘مافیا’’ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ انسانی خدمت کے نام پر یہ کمپنیاں سستے زہر کے ذریعے پاکستانیوں سے رقم بٹورنے کے علاوہ ان کی صحت اور زندگیاں چھین رہی ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ پاکستان میں تین بڑی وجوہات کے باعث ملٹی نیشنل اور خاص طور پر فارما سیوٹیکل کمپنیاں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔پہلے یہ کہ پاکستان میں صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث ادویات کی کھپت بہت زیادہ ہے دوسرے یہ کہ مغربی دنیا کے برعکس پاکستان میں سیلف میڈیکیشن اور ڈاکٹری نسخوں کے بغیر ادویات کی فروخت پر بھی کوئی ممانعت نہیں۔تیسرے پاکستان میں صحت اور ادویات کی ریگولیشن کے قوانین اور رولز بڑی بڑی کمپنیوں پر لاگو نہیں ہوتے یا کیے نہیں جاتے اور وہ اپنی مرضی سے ادویات تیار کر کے ان کی مارکیٹنگ کرتی رہتی ہیں۔ جعلی اور دونمبر ادویا ت کی بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو بالکل ہی جعلی ہیں اور صحت کی بجائے صحت کی دشمن ہیں جبکہ دوسری قسم میں کمزور فارمولے کے ساتھ کچھ اثر پذیر میڈیسن بھی ہیں۔جبکہ دونوں قسم کی دوائیاں تیار کرنے کا مقصد لوگوں کی صحت نہیں بلکہ پیسے کمانا ہی ان کا کام ہوتا ہے۔ ایسی ادویات سے متعددلوگ اپنی صحت گنوا چکے اور متعدد کی روحیں پرواز کر گئیں۔ لیکن رشوت خور سرکاری حکام اور منافع خور دواساز اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی حالانکہ وزارت صحت کا سب سے پہلا کام میڈیسن کی رجسٹریشن ہے اور اس کے لیے فارما سیوٹیکل کمپنی کو مجوزہ لوازمات اور لیبارٹری تفاصیل کی لسٹیں ظاہر کرنا پڑتی ہیں جبکہ محکمہ صحت کی متعلقہ ریگولیٹری اتھارٹی کا کام ان کمپنیوں کے دعوؤں اور ریکارڈ کی چیکنگ کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی میڈیسن کی تیاری کے کئی مراحل فارمولے کی تیاری’جانوروں پر تجربات’نتائج اور پھر انسانوں پر تجربات کے بعدہی میڈیسن کی تجارتی بنیادوں پر تیاری کا مرحلہ آتا ہے۔پاکستان میں اس طرح کی کوئی لیبارٹریاں نہیں جوٹیسٹ یا تصدیق کے مراحل انجام دے سکیں۔یہاں صرف دوسرے ملکوں کی ریسرچ اور نتائج پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ یہاں ادویات کے تجزیے بالکل نہیں کیے جاتے۔ 1976کا ڈرگ ایکٹ صرف ایلوپیتھک ادویات کے لیے ہے متبادل میڈیسن تیار کرنے والے تمام قانونی پابندیوں سے آزاد ہیں۔ ہربل اور ہومیو ادویات تیار کرنے والے ادارے تو تمام بیماریوں کا حل بیان کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اگر صحت مند شخص بھی ان کا بروشر پڑھ لے تو ہر دوا اسے خود کے لیے موزوں نظر آتی ہے۔ ان ادویات کو ‘‘اوور دی کاؤنٹر’’ادویات میں گنا جاتا ہے اب تو بہت سے ملک ہومیواور ہربل ادویات کو ریگولیٹ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کیونکہ ایسی رپورٹیں سامنے آئی ہیں کہ ہربل ادویات میں بھی نقصان دہ اور مضر اثرات والے کیمیکلزشامل کیے جارہے ہیں۔ ایسی ادویات کی پروپیگنڈے جیسی تشہیر پر پابندی ہے اور نہ ہی ان کی فروخت میں کوئی رکاوٹ’ ہربل اور ایلو پیتھک میڈیسن تیار کرنے والی کمپنیاں 50پیسے میں تیار ہونے والی ٹیبلٹ 20روپے میں فروخت کر رہی ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام اس صورتحال سے واقف ہونے کے باوجود آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں فارما سیوٹیکل کمپنیاں انجیکشنز پر 90فیصد اور دیگر ادویات پر 75فیصد منافع حاصل کر رہی ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے کہ پاکستانی لوگ پیسہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور زندگیاں بھی دے رہے ہیں۔
نو سائیڈ ایفیکٹ پرا پیگنڈا
پاکستان میں نو سائیڈ ایفیکٹ پراپیگنڈے سے بھی ہومیو اور ہربل ادویات کی فروخت جاری ہے حالانکہ ایسی ادویات کی فروخت دیگر ممالک میں بند ہے جیسے ‘‘کاوا کاوا کے اجزا’’پر مشتمل ہربل دوا جو انسانی جگر کے لیے نقصان دہ ہے’ کی فروخت پر برطانیہ میں 2002ء سے پابندی ہے ۔ لیکن پاکستان میں تاحال یہ میڈیسن فروخت ہو رہی ہے۔ بطور ٹانک استعمال ہونے والے ہربل کیپسول ‘‘جن سنگ’’ کے مضر اثرات سامنے آچکے ہیں۔ سلمنگ میڈیسن کے نام پر بھی ایک لوٹ مچی ہے۔ سلمنگ میڈیسن میں فینفلیورا من گردوں کے نقصان کے علاوہ کینسر کا باعث بھی بن رہی ہے۔ بعض ادویات میں مرکری، آرسینک اور سٹیرائڈز شامل کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ادویات اپنے مضر اثرات کے باوجود کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں اور محکمہ صحت نے ایسی ادویات کی تشہیر اور فروخت پر آنکھیں بندکررکھی ہیں۔
یہاں کوئی پابندی نہیں
دنیا کے دیگر ممالک میں جن ادویات پر پابندی ہے وہ پاک دھرتی میں کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں جس کا سہرا محکمہ صحت کے سر جاتا ہے اگر غلطی سے محکمہ صحت والے کچھ ادویات بین بھی کر دیتے ہیں تو بھی ان کی مارکیٹ میں فروخت جاری رہتی ہے جیسے ROFECOXIBگروپ کی ادویات’ نیول جین’ باسکو پا ن وغیرہ پابندی کے با وجود فروخت ہو رہی ہیں۔ ادویات پر بین تو لگ جاتا ہے لیکن ڈاکٹرز ان سے واقف نہیں ہوتے حتیٰ کہ لاہور کے چیف ڈرگ انسپکٹر کے پاس بھی بین شدہ ادویات کی لسٹ موجود نہیں ہے۔
جنوبی کوریا میں فلو اور موٹاپا کم کرنے والی 170ادویات بین کر دی گئی ہیں کیونکہ PPAکے اجزا والی ادویات دماغ کی اندرونی بلیڈنگ اور اردگرد کے ٹشوز کی کمزوری کا باعث بنتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو PPAکی فلو کے لیے دیگر ادویات میں شمولیت ضروری خیال کی جاتی ہے۔ ایسٹروجن کی حامل ادویات خواتین میں چھاتی کے کینسر کا سبب بن رہی ہیں۔ ہارٹ اٹیک کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں جن ڈرگ انسپکٹرز کے پاس بین شدہ لسٹیں نہیں وہ خاک چیکنگ کریں گے ؟ دواساز کمپنیوں کی یہ لوٹ مار محکمہ صحت کی ملی بھگت سے جاری ہے محکمہ صحت کے لوگ صرف دفتری میٹنگز اور کاغذی کاروائیاں کرتے ہیں جبکہ عوام صحت کے بنیادی حق پر بھی حق نہیں رکھتے کیونکہ وہ صحت کے لیے میڈیسن خریدتے ہیں جو ان کی صحت اور زندگی کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہیں۔
معروف شخصیات بھی جعلی ادویات سے نہ بچ سکیں۔ سابق گورنر پنجاب الطاف حسین جب علیل ہوئے تو پاکستان میں علاج سے ٹھیک نہ ہونے پر مغربی ملک گئے وہاں علاج میں وہی نسخے تجویز ہوئے جو پاکستان میں جاری تھے اور وہ ٹھیک ہوگئے جس پر پتا چلا کہ پاکستان میں انہیں جعلی ادویات مل رہی تھیں۔ اسی طرح ملکہ ترنم نور جہاں اوراستاد نصرت فتح علی خان بھی جعلی ادویات سے نہ بچ سکے۔ نور جہاں نے بی بی سی سے انٹر ویو میں شکوہ کیا تھا کہ وطن عزیز میں جعلی دواسازوں نے اثر و رسوخ کی بنا پر عوام کی صحت سے کھیلنا شروع کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرا اور نصرت فتح علی خان کا غلط علاج ہوا اور ہمیں جعلی ادویات دی گئیں۔ نور جہاں نے پاکستان میں جاری میڈیسن امریکہ منگواکر تجزیہ کروایا تو پتہ چلا کہ پاکستان میں ملنے والی مہنگی مہنگی ادویات بھی جعلی تھیں حتیٰ کہ ملکہ مرحوم کے مطابق جعلی ادویات کے سبب ان کا نوکر زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔
سٹکرنگ اور ٹیمپرنگ
یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ پاکستان کے میڈیکل سٹورز میں ادویات کی قیمتیں مٹا کر خود سے تیار کردہ اضافی قیمت کے سٹکرز لگا دیے جاتے ہیں۔ یہ سٹکرز مارکیٹ میں بنے بنائے ملتے ہیں یا منافع خور میڈیکل سٹورز والے خود چھپوا لیتے ہیں۔ دوسری طرف ادویات کی قیمتوں کے علاوہ ایکسپائری تاریخوں کو بھی ٹیمپر کر دیا جاتا ہے ۔ جس کے لیے خصوصی مہریں اور طریقے وضع کر رکھے ہیں۔ آنکھوں ’کانوں اوردیگر حساس جسمانی حصو ں کے لیے بنائی گئی مہنگی ادویات اگر ایکسپائر ہو جائیں تو نئی تاریخیں ڈال دی جاتی ہیں۔ ایک عینی شاہد کے مطابق سروسز ہسپتال کے سامنے ایک سٹور سے خریدے گئے انجیکشنز لگوانے والے پانچ افراد اپنی بینائی تقریباً ضائع کر بیٹھے۔ جون 2002ء میں کراچی میں ایک چھاپے کے دوران ایک فلیٹ سے ملٹی نیشنل و لوکل کمپنیوں کے برانڈز’پندرہ ہزار جعلی بوتلیں’ کیمیکل ڈرمز’ پیٹنٹ کمپنیوں کی ادویات کی خالی بوتلیں ’ خالی ڈبے اور ایکسپائری ڈیٹ بدلنے والی مہریں اور لا تعداد سٹکرز قبضہ میں لیے گئے۔ معروف کمپنی کے شربت ہائیڈرولین کی دس ہزار بوتلیں اور گلیکسوز ڈی کے ہزاروں ڈبے بھی پکڑے گئے۔ محلے دار سمجھتے تھے یہ کسی میڈیسن کمپنی کا سٹور ہے حالانکہ وہاں دو نمبر ادویات کی تیاری ہوتی تھی۔ لاہور میں بوہڑ والا چوک’ لنڈا بازار میں ہربل اور خاص طور پر دونمبر ہربل کی کھلے عام تجارت ہوتی ہے۔ جبکہ انار کلی ’بھاٹی گیٹ مسلم مسجد کے قریب ایلو پیتھک جعلی ادویات کا اندرون خانہ کاروبار ہوتا ہے۔ ایسی مارکیٹوں میں ڈاکٹرز کو ملنے والے سیمپلز اور سرکاری ہسپتالوں کی ادویات 35سے 40فیصد تک رعائتی نرخوں پر ملتی ہیں ۔ لیکن گاہک ‘‘اعتبار’’ کا ہو تو سودا ملتا ہے۔ ایک اور قباحت جو سامنے آئی ہے وہ یہ کہ عموماً سرکاری ہسپتال سرکاری پیسہ ہضم کرنے کے لیے سستی اور مقامی کمپنیوں کی ادویات کے آرڈر دے کر دہرا منافع لیتے ہیں ۔ ایک طرف زیادہ ریٹ دکھا کر سستی ادویات کا حصول دوسری طرف سستی کمپنیوں سے کمشن لے کر عوام کی صحت سے کھیلتے ہیں۔ پتا نہیں منافع’ رشوت ’سفارش اور صحت و موت کا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟
(بشکریہ نوائے وقت ۹جنوری ۲۰۰۵)