منتخب کالم
اردو میڈیم سکول
ڈاکٹر صفدر محمود
میں نے قیام پاکستان کے بعد اسکول جانا شروع کیا۔ اس دور میں ذریعہ تعلیم اردو تھا، انگریزی چھٹی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی۔ حساب اور سارے سائنس مضامین کی درسی کتابیں اردو میں تھیں۔ انگریزی ذریعہ تعلیم صرف چند مشنری اسکولوں تک محدود تھا جہاں روسا کے بچے پڑھتے تھے۔ گزشتہ ساٹھ ستر برس کے دو ران جتنے ادیب، شاعر، سائنس دان ا ور زندگی کے ہر شعبے میں قومی اور بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے لوگ ہمارے قومی افق پہ ابھرتے اور چھاتے رہے ان کی بہت بڑی اکثریت انہی اردو میڈیم اسکولوں کی فارغ التحصیل تھی۔ مجھے کہنے دیجئے کہ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں جتنے عظیم ،بے مثل اور نامور ادیب، شاعر، فلاسفر، مذہبی اسکالرز، معلم، صحافی، لکھاری،علماء ،سائنسدان اور ماہرین ان اردو میڈیم اسکولوں نے پیدا کئے ان کا عشر عشیر بھی انگریزی میڈیم اسکول پیدا نہ کرسکے۔ علامہ اقبال مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہونے سے قبل اردو میڈیم اسکول اور مسجد کے صحن میں بیٹھ کر قرآن حکیم پڑھتے رہے، ان کی بنیاد مولوی میر حسن نے رکھی اور جب پنجاب حکومت نے علامہ اقبال کو ’’سر‘‘ کے خطاب کا اعزاز دینا چاہا تو علامہ نے شرط یہ رکھی کہ پہلے میرے استاد مولوی میر حسن کو خطاب دیا جائے تب وہ قبول کریں گے۔ گورنر نے حیرت سے کہا لیکن مولوی میر حسن کی کوئی تصنیف نہیں ہے تو علامہ نے اپنی فطری حاضر جوابی سے کام لیتے ہوئے جواب دیا’’میں ان کی تصنیف ہوں‘‘۔ گورنر لاجواب ہوگیا، اس کی سوال پوچھتی زبان گنگ ہوگئی اور اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے مولوی میر حسن کے لئے بھی خطاب منظور کردیا۔ علامہ اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے نامور استاد آرنلڈ کے شاگرد تھے اور جب آرنلڈ واپس کیمرج چلا گیا تو علامہ اسے یاد کرکے سرد آہیں بھرتے تھے اور ایسے’’فراق زدہ‘‘ خطوط لکھتے تھے جیسے ایک عاشق اپنی دلربا محبوبہ کو لکھتا ہے لیکن اس کے با وجود وہ اپنے آپ کو تصنیف مولوی میر حسن کی کہتے تھے جو سیالکوٹ میں عربی فارسی اور اردو پڑھانے میں نام کما چکے تھے اور قرآن حکیم، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی مضامین پر گہری نظر رکھنے کے سبب احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بیسوی صدی کے پاکستان اور ہندوستان کے ادیبوں ،لکھاریوں کی فہرست پر نظر ڈال لیں یہ سب اردو میڈیم اسکولوں کی پیداوار تھے اور انہوں نے انگریزی بحیثیت ایک زبان اور مضمون کے عام طور پر چھٹی جماعت سے پڑھنی شروع کی تھی۔ فہرست طویل ہے کس کس کا نام لکھوں۔ نام لکھنے پہ آؤں تو کالم میں صرف نام ہی آسکیں گے لیکن لطف کی بات ہے کہ اس ا ردو میڈیم نے ہمیں انگریزی کے اعلیٰ درجے کے لکھاری بھی دئیے جن میں پطرس، فیض سے لے کر اقبال تک سبھی شامل ہیں جن کی انگریزی پر انگریز بھی دنگ رہ جاتے تھے۔ ان میں وہ امیر علی بھی شامل ہیں جن کا قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ نصف صدی سے زیادہ تک ساری دنیا میں پڑھا جاتا تھا اور ان میں مولانا محمد علی جوہر بھی قابل ذکر ہیں جن کی انگریزی دانی کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان میں ہمارے وہ استاد بھی شامل ہیں جو لندن، کیمرج اور آکسفورڈ جیسی عالمی سطح کی درسگاہوں سے انگریز اساتذہ سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے دو استاد انگریزی کے مضمون میں انگلستان سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر آئے تھے اور یہ ساٹھ سترسال قبل کا کارنامہ ہے۔ اردو میڈیم تعلیم ان کی انگریزی دانی میں ذرہ بھر بھی حائل نہ ہوئی۔
حضرت علی کا قول سمندر کو کوزے میں بند کردیتا ہے۔ فرمایا مانگنا ہے تو اللہ سے مقدر مانگو میں نے بڑے بڑے عالموں کو جاہلوں کی نوکری کرتے دیکھا۔ یارو برا نہ منانا۔ میں نے پاکستان کے اکثر حکمرانوں کوبصیرت اور اہلیت کی نہیں بلکہ مقدر کی پیداوار دیکھا تب میں مقدر کا ضرورت سے زیادہ قائل ہوگیا لیکن اس موضوع پر پھر کبھی۔بات قدرے دور نکل گئی، ہاں تو میں کہہ رہا تھا ہمارے مایہ ناز سائنس دانوں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ثمر مبارک مند اور ان کے اکثر ساتھیوں کا تعلق اردو میڈیم اسکولوں سے ہے جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔ قائد اعظم بھی کئی برسوں تک مدرستہ السلام سندھ میں پڑھتے رہے جہاں اردو اور انگریزی ساتھ ساتھ پڑھائی جاتی تھیں۔ یارو ہر شخص کا اپنا اپنا مقدر ہوتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور کچھ حصہ اپنی محنت سے بناتا ہے۔ شاید محنت کی توفیق بھی مقدر ہی کا حصہ ہو، مجھے معلوم نہیں۔ دوستو! امام غزالی نے کیا خوب بات کہی ہے بلکہ ایک راز سے پردہ اٹھادیا ہے۔ فرماتے ہیں’’دنیا نصیب اور آخرت محنت سے ملتی ہے لیکن لوگ محنت دنیا کے لئے کرتے ہیں اور آخرت کو نصیب پہ چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔دراصل اولاد آدم تضادات ،غلط فہمیوں اور فریب میں گرفتار ہے ۔