پیارے مسلمانو!
السلام علیکم
میں ایک مسجد ہوں۔ میں بیت اللہ کی بیٹی ہوں۔ اللہ نے اپنے برکات،انوارات اور رحمتوں کے نزول کے لیے میرا ہی انتخاب کیا۔یہیں سے یہ ساری رحمتیں اور برکتیں مسلمانوں میں بٹتی ہیں۔ دن رات فرشتے میرے ہی دامن میں اترتے ہیں ۔ اورمیں ان کو آتا جاتا دیکھتی رہتی ہوں۔
میں مسلمانوں کی تاریخ کے ہر موڑ کی شاہد ہوں۔ بلکہ یہ کہنا زیاد ہ مناسب ہو گاکہ مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز مجھ ہی سے ہوتا ہے۔وہ بھی کیا خوبصورت وقت تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبا کی وادی میں مجھے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کر رہے تھے! میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلنے والے ہر’ہر مقدس ارشاد کو سنتی اور صحابہ کے ولولہ انگیز جذبات کو بھی دیکھتی۔قبا کی وادی کے بعد مجھے مدینے میں دو یتیم بچوں کی جگہ خرید کر تعمیر کیا گیا اور یہاں میرا نام مسجد النبی رکھا گیا۔ اس جگہ کے دس سال میری زندگی کا عزیز ترین سرمایہ بن ہیں۔ جو’ اب کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ ان برسوں میں مَیں نہ صرف یہ کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنتی بلکہ انھیں دیکھتی بھی رہتی۔میری صبحیں بھی ان کے دم سے آباد اور میر ی شامیں بھی انہی کے دم سے پررونق تھیں۔حضور اپنے وقت کا بیشتر حصہ میرے ہی دامن میں بسر کیا کرتے تھے۔لوگ ان سے ملنے ،انھیں دیکھنے اور ان سے تعلیم پانے میرے ہی صحن میں آیا کرتے تھے۔دنیا کی سب سے پہلی مسلمان ریاست کی تاسیس بھی میری ہی چھت تلے ہوئی۔ غزوات کے لیے مجاہدین کے لشکروں کو میں ہی رخصت کیا کرتی اور فاتحین کی آمد پر مَیں ہی سب سے پہلے انھیں خوش آمدید کہا کرتی تھی۔ میری زندگی سے اگر وہ دس سال نکال دیے جائیں تو پھر شاید کچھ بھی باقی نہ بچے۔ کیونکہ میری ساری عزت، میرا سارا وقاراور میری ساری عظمت’انھیں کے دم سے تو ہے۔اس لیے میں اب بھی ہر آنے والے کو ان دنوں کی کہانی ضرور سناتی ہوں۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ مجھے بھی سب کی طرح اللہ کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور مجھے اپنے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رخصت کرنا پڑا۔ لیکن یہ بات اب بھی میرے لیے طمانیت کا باعث ہے کہ حضورؐ اب بھی میرے ہی پہلو میں آرام فرما ہیں۔
پھر میں نے اپنی آنکھوں سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا جو کہہ رہے تھے:‘‘مسلمانو! میں تم پر خلیفہ بنایا گیا ہوں ۔ حالانکہ میں تم سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں کوئی اچھا کام کروں تو میرا ساتھ دو اور اگر میں سیدھی راہ سے بھٹک جاؤں تو مجھے سیدھا کر دو۔ تم میں سے جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک سب سے طاقتور ہے۔ جب تک کہ میں اس کا حق اسے نہ دلا دوں۔ اور تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے کہ جب تک میں اس سے حقدار کا حق نہ لے لوں۔’’
پھر میں نے اپنے دامن میں عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا۔اسی طرح عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر جو سنگ باری ہوئی اس کی بھی میں عینی شاہد ہوں۔ پھر میری ہی بہن نے حیدرِکرّار، فاتحِ خیبر حضرت علی المرتضیٰ کا وہ خطبہ سنا جس میں انھوں نے فرمایا:‘‘ میری ڈاڑھی اور سر کے بال ضرور خون سے رنگین ہوں گے۔’’ اور پھراس کے دروازے پر وہ بھی شہید ہو گئے۔
میرے دامن میں مسلمانوں کی تاریخ کے کتنے ہی خوشگوار لمحات کی یاد محفوظ ہے۔ یہ لمحات مجھے آج بھی یاد آتے ہیں تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیتی ہوں اور پھرکتنے ہی نا خوشگوار لمحات ایسے بھی ہیں کہ جن کی یاد مجھے آج بھی رُلا دیتی ہے۔
سارے کے سارے صحابہ، صدیقین، شہدا اورصالحین کو مجھ سے کتنی محبت ہوا کرتی تھی۔ اور وہ کتنی توجہ کے ساتھ میرا دامن آباد رکھا کرتے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جو مصنوعی روشنیوں کے بجائے اپنے قلب و روح کے نور سے مجھے روشن کیا کرتے تھے۔
مسلمانوں کی عظمتوں کے سارے قافلے میرے ہی دامن سے نکلا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے علم کے سارے مراکز مجھ ہی سے وابستہ تھے۔سیاست، حکومت،تجارت،شجاعت سب کا تعلق مجھ ہی سے تھا۔ مسلمان جب کسی علاقے کو فتح کرتے تو اپنی ہمت اور شجاعت کے نشان یعنی اسلامی علم کو لہرانے کے ساتھ ساتھ میرا سنگِ بنیاد بھی رکھا کرتے تھے ۔ اپنے گھروں سے زیادہ، وہ مجھے آباد کرنے کی فکر کیا کرتے ۔ دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں میں میری کوئی ساعت بھی مسلمانوں کے وجود سے خالی نہ ہوتی۔
ہائے! مجھے جب بھی انس رضی اللہ عنہ کے وہ الفاظ کہ‘‘ لوگ مسجدوں پہ فخر کریں گے مگر ان کو آباد بہت کم رکھیں گے۔’’ یاد آتے ہیں تو خون کے آنسو روتی ہوں۔کہ وہ دن آج مجھ پر آ گئے ۔میرا دامن جو کہ رونقوں کا مرکز اور خوشیوں کا منبع تھا۔ آج کیسی ویرانی اس کے اندر اتر آئی ہے۔ آج مسلمان میرے فلک بوس مینار، توبناتے ہیں ۔زروجواہر سے بھی، مجھ کو سجاتے ہیں۔قیمتی پتھروں، نایاب لکڑی اور نوادرات سے بھی میرے دامن کو بھرتے ہیں۔ لیکن! مجھے اپنے وجود کے لمس سے محروم رکھتے ہیں۔ کتنے ہی دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ میں ایک ایک مسلمان کی زیارت کے لیے ترس جاتی ہوں۔میری کتنی ہی بہنیں ایسی ہیں کہ جن کاقفل جمعے کے جمعے اور بعض بیچاری ایسی ہیں کہ جن کا قفل عید الفطریا عید الاضحی پر ہی کھلتا ہے۔
تنہائی سے مجھے خوف آتا ہے اور اسی تنہائی نے مجھے نحیف اور بیمار کر دیا ہے۔ کتنی ہی دفعہ مَیں خدا کے بندوں کے ذریعے قوم سے دست بستہ عرض کر چکی ہوں ۔لیکن میری آہ و فریاد کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آج ایک دفعہ پھر مَیں امتِ مسلمہ کے نام خط لکھ رہی ہوں۔ کہ شاید ان پر اس طرح ہی کچھ اثر ہو جائے ۔اگر میرا یہ خط بھی حسب سابق نظر انداز ہو گیا تو پھر میرے قلب وجگر سے وہ صدا بلند ہوگی جو کہ صدیوں، مسلمانوں کو سنبھلنے نہ دے گی۔دل نہیں چاہتا کہ ایسا ہو مگر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
والسلام
مسجدِ مظلوم
(عربی ادب سے ماخوذ)