برصغیر پاک و ہند میں دو قومی نظریے کا پہلا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب خلفائے راشدین کے عہد میں تقریباپچیس صحابہ کرام اس علاقے میں تشریف لائے اور بعد میں تقریبا اڑتیس تابعین اور ایک سو چالیس تبع تابعین نے یہاں دعوت اسلام کی ذمہ داری ادا کی۔
دوسرے دو ر کا آغاز محمد بن قاسم ؒ سے ہوتا ہے اس دور میں اسلام اپنی ہمہ گیر خوبیوں اور محمد بن قاسم کے حسن سلوک سے اس علاقے میں مقبول ہونا شروع ہوا اور یہ ہی وہ پہلا موقع تھا کہ جب ہندو مت کی معاشرتی تفریق متزلزل ہو نا شروع ہوئی۔
تیسرے دورکا آغاز ۹۸۸ ء میں سلطان محمود غزنوی کے حملوں سے ہوتا ہے جس کے کچھ عرصہ بعد شہاب الدین غوری نے ہندستان میں مستقل اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ غوری سلطنت کے بعد غلاماں،خلجی، تغلق، سادات اور لودھی خاندانوں نے بر صغیر پر حکومت کی۔ مسلم بادشاہوں کا نمایاں وصف عدل و انصاف کی پاسداری اور رواداری تھا ۔ جس کی وجہ سے بر صغیر میں بین المذہبی ا من و ہم آہنگی کی روشن روایات قائم ہوئیں۔ ان ا دوار میں محدثین و بزرگان دین نے بھی اسلام کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔
چوتھے دور کا آغاز سلطان ظہیر الدین بابر سے ہوتا ہے جنہوں نے پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر خاندان مغلیہ کی حکومت کی بنیاد رکھی۔اس دور میں ہندوؤں جین مت اور بدھ مت کی طرح اسلام کو بھی ہندو مت میں مدغم کرنے کی ترکیب سوجھی۔ رام اور رحمان میں فرق نہیں کا نعرہ لگا کر متحدہ قومیت کاتصور پیش کیا۔ بھگتی تحریک اور دین الٰہی اسی سلسلہ کی اہم کڑیاں ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی استقامت اور جدوجہد سے دین الٰہی کا فتنہ نیست ونابود ہوگیا۔اورنگ زیب کے عہد میں اسلامی اقدار و اصلاحات کو نمایاں فروغ حاصل ہوا۔ لیکن اورنگ زیب کے جانشین نا اہل ثابت ہوئے۔ ان کی تن آسانی اور عیش پرستی ضرب المثل بن گئی۔ اہل یورپ جو تجارت کی غرض سے ہندستان آئے تھے۔ انہوں نے اس دور میں منہ مانگی مراعات حاصل کر لیں۔
پانچویں دور کا آغاز حکیم الامت شاہ ولی اللہؒ سے ہوتا ہے جہنوں نے مسلمانوں کی دینی’ اخلاقی’ معاشی و معاشرتی اصلاح کا کام شروع کیا ۔دوسری طرف امت مسلمہ کی سیاسی برتری کے لیے کابل کے حکمران احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی جس نے ۱۷۶۱ ء میں مرہٹوں کا زور ختم کر دیا۔ لیکن بتدریج برصغیر میں انگریزوں کاعمل دخل بڑھتا گیا جو بالآخر ۱۸۵۷ کے بعد پورے ہندستاں کے بلا شرکت غیرے حکمران بن گئے۔اس سے قبل سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید بطریق جہاد انگریزوں کو شکست دینے اور مسلم حکومت کے احیا کی بھر پور مخلصانہ جدوجہد کر چکے تھے جو بوجو ہ ناکام ٹھہری تھی ۔
چنانچہ تاریخ کے اس دور میں دو قومی نظریے کے احیا کا چھٹا دور سر سید احمد خان سے شروع ہوتا ہے جو مسلمانوں کی بیداری کے لیے تعلمی طریقے سے متحرک ہوئے ۔اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کے داعی ہوئے کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں جن کے مذہبی ،تاریخی و سیاسی حالات اور سماجی رسم ورواج ہندوؤں سے جدا ہیں۔ برصغیر کے اس وقت کے معروضی حالات میں’ دو قومی نظریے کا عملی دور اصل میں یہی تھا اگرچہ بہت سے نظریاتی ادوار اس سے قبل گزر چکے تھے۔سر سید نے دو قومی نظریہ کو بنیاد بنا کر جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستوں کا کوٹہ بھی مانگا۔اسی تسلسل میں ۱۹۰۶ میں مسلم لیگ قائم ہوئی۔جس نے بعد میں قائداعظم کی انتھک محنت اور جد وجہد کے نتیجے میں دو قومی نظرے کوعملی روپ دیا۔ اس سے قبل علامہ محمد اقبال اپنے خطبہ میں پاکستان کا تصور پیش کر چکے تھے اگرچہ اس سے قبل اور بھی لوگ مثلا چوہدری رحمت علی اور مرتضی احمد خاں میکش بھی واضح طور پر مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کاتصور پیش کر چکے تھے لیکن بوجوہ ان کے نظریے مقبولیت حاصل نہ کر سکے۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کی قراد داد نے نصب العین کو بالکل واضح اور مبرہن کر دیا اوراکثر مسلم زعما نے کانگرس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کر لی اور پھر اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۶۶ ھ بمطابق ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آگیا اور دو قومی نظریے کی حقانیت تابہ ابد اس کرہ ا رضی کے نقشے پر ثبت ہو گئی۔
دو قومی نظریے کاساتواں دو ر اس وقت جاری ہے لیکن اس میں ایک دفعہ پھر اس نظریے کی نظریاتی اور عملی بنیادیں کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان لمحات میں ضرورت ہے کہ قوم پر پوری تاریخ واضح کی جائے ۔ تا کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہم اپنی نظریاتی بنیاد کی حفاظت کے لیے سرگر م عمل ہو سکیں ورنہ دنوں کا ہیر پھیر اور زمانے کی گردش قوموں پر وقت کو الٹ پلٹ کر تی رہتی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ یہ نظریہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو ورنہ ہمیں یا ہماری آئندہ نسلوں کو ایک دفعہ پھر اس کے احیا کے لیے خون کے سمند ر عبور کرنا ہوں گے۔