افاداتِ غامدی ’ تحریر: محمد صدیق بخاری
سونامی کے بعد یہ سوال شدت سے دہرایا جار ہا ہے کہ سونامی یا دیگر قدرتی آفات ’ زلزلے ’ سیلاب وغیر ہ کیوں آتے ہیں اور معصوم بچے ’ بے گناہ عورتیں اورصالح جوان بھی آخر کیوں اس کا شکار ہو جاتے ہیں؟ کیا اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا یا وہ اند ھا دھند فیصلے کرتا ہے؟یا پھر یہ ہے کہ اسے اپنی مخلوق پر رحم نہیں آتا وغیرہ۔
اصل میں ایسے اشکالات اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم اس کائنات کی سکیم کو نہیں سمجھ رہے ہوتے ۔ اور اپنے ذہن اور معیار کے مطابق قیاس آرائیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کائنا ت کے خالق نے یہ کائنات عدل اور مساوات کے اصول پر نہیں بنائی بلکہ آزمائش کے اصول پر بنائی ہے ۔ عدل اور مساوات کو تقاضا تو ؒواقعی یہ ہی ہے کہ معصوم بچے اور صالح لوگ آفات اور مصائب سے بچ جائیں۔ لیکن جب یہ اصول کائنات میں کار فرماہی نہیں تو پھر ہم اس کی توقع کیوں کر رہے ہیں؟ خالق نے ہر قوم اور ہر فرد کے لیے آزمائشیں طے کر رکھی ہیں۔ اور وہ اپنی حکمت کے مطابق ان پر یہ امتحان اور آزمائشیں بھیجتا رہتاہے۔ہر ہر فرد کی نوعیتِ امتحان مختلف ہے ۔ گویا کہ کمر ہ امتحا ن میں پیپر تو ہو رہا ہے لیکن ہر امید وار کا پیپر الگ الگ ہے اور اس طر ح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر امید وار کی اصل لیاقت اور استعداد جانچی جا سکے۔
دوسر ااس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ اس کائنات کا مالک ہے ہم اس کی ملک ہیں ۔ مالک کو اپنی ملک پر پورا پورا اختیار ہوتاہے اور ملک کو کبھی اعتراض کا حق نہیں ہوتا۔ مالک اپنی ملک کے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا مجاز ہوتا ہے اور وہ اپنی ملک سے جو چاہے کام لے ’ جتنا چاہے کام لے اور جب چاہے کام لے۔ اس کو جن حالات میں چاہے رکھے ’ جتنا چاہے رکھے اور جب چاہے رکھے۔ اللہ کے مالک ہونے کا تصور یقینا ہمارے بہت سے اشکالات کو رفع کرسکتا ہے۔
تیسر ی بات یہ ہے کہ اس طر ح کی آفات موت کی ایک اجتماعی شکل ہوتی ہیں۔ اللہ موت کو ایک ہی وقت میں اورا یک ہی جگہ جمع کر کے نمایاں کر دیتا ہے تا کہ دوسروں کو تنبہ ہو۔ موت ہمارے ارد گرد دن رات ہوتی رہتی ہے لیکن وہ چونکہ ایک معمول کی چیز بن گئی ہے اس لیے بعض اوقات اپنے ماحول کی اموات سے ہمیں تنبیہ نہیں ہوتی تو اللہ اس طرح کا انتظام کردیتے ہیں۔ہمار ے ماحول میں دن رات معصوم بچے بھی مر رہے ہیں ’ بے گنا ہ عورتیں اور صالح جوان بھی مر رہے ہیں کوئی بیماری سے ’ کوئی حادثے سے ’ کوئی ویسے ہی لیکن ہم ان کے بارے میں یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ اللہ ظالم ہے کہ اس معصوم بچے کو ماردیا۔ کیوں کہ ہم موت کے ان طریقوں کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں اور اس طر ح کے آفات کے لیے تیار نہیں ہوتے اس لیے یہ عجیب محسوس ہوتا ہے۔ ورنہ یہ بھی اصل میں موت کا مظاہر ہ ہی ہے بس ذرا اجتماعی شکل میں ہے۔جس طر ح ہم اپنے ماحول میں یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اس کی موت اسی طرح مقد ر تھی تو یہاں بھی یہی اصول ہے کہ ان لوگوں کی موت بھی اسی طرح مقد رتھی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس دنیا میں روزانہ پندرہ لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں لیکن چونکہ وہ الگ الگ جا رہے ہوتے ہیں اس لیے ہم محسوس نہیں کرتے ۔ اگر انہی پند رہ لاکھ لوگوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو کتنی ہیبت ناک صورت حال ہو جائے گی۔ایسے ہی اسے سمجھ لیں کہ سونامی کے شکار لوگوں پر موت تو آنی ہی تھی بس اسے ایک جگہ جمع کر دیاگیاہے۔ جس طر ح عام ماحول میں نیک ’ بد ’ عورت ’ مرد ’ بوڑھے جوان ہر کسی پر بغیر کسی تخصیص یا استحقاق یا استثنا کے موت آر ہی ہے اسی طرح آفات میں آتی ہے۔باقی رہایہ کہ اس اجتماعی کیفیت سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ اس میں اللہ کی حکمت کے تین امکانات ہوسکتے ہیں۔
جو بچ گئے ان کی شکر کی آزمائش ہے اور جن کے اعزہ و اقربا چلے گئے ان کی ساتھ صبر کی آزمائش بھی ہے۔ باقی عبرت توسب کے لیے ہے اور سبق بھی کہ اللہ کس قد ر قدرت کا حامل ہے اور اس قدر قادر مطلق کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوناہے۔سزا کا امکا ن بھی ہوتا ہے لیکن سب کے لیے نہیں بلکہ مخصوص لوگوں کیلئے ۔ بعض اوقات اس طر ح کی آفات میں جو نیک لوگ تکلیف کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے رحمت اس اعتبا ر سے ہوتی ہے کہ یہ تکلیف ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اورآخر ت کی اعتبار سے انہیں فائدہ ہو جاتا ہے۔
عذاب کی بات کہنی مشکل ہے کیونکہ عذاب ہمیشہ اخلاقی اصولوں پر آتا ہے۔مختصراً یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ سونامی میں اللہ تعالی نے موت کو ایک جگہ جمع کر کے نمایا ں کر دیا ہے او ر اس میں بیک وقت آزمائش ’ سزا’ عبرت تینوں پہلو بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ایک یا دو بھی۔
بہر حال انسانوں کو قرآن کی اس آیت کے تحت اللہ سے پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ کہ جس میں اللہ نے کہاہے کہ ڈرو اس آزمائش سے جو صرف برے لوگوں پر ہی نہ آئے گی۔
واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب ( انفال ۔۲۵) اور بچتے رہو اس فتنہ سے جو مخصوص طور پر انہی لوگوں کو نہیں لاحق ہو گا جنہوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہو گا اور جان رکھو کہ اللہ سخت پاداش والا ہے۔
سونامی کے بعد باقی انسانیت پر ایک اور آزمائش شروع ہو گئی ہے وہ یہ کہ اب وہ اپنے آفت زدہ بھائیوں کی کس نیت’ کس جذبے اور کس طرح سے مدد کرتے ہیں۔ ایک اخلاقی ذمہ دار ی ہے جو سب پر عائد ہوتی ہے ۔ الاقرب فالاقرب کے اصول پر جس کا جتنا رشتہ ہو اتنی ہی ذمہ داری ہوتی ہے ۔مسلمانوں پر اس لحاظ سے دہر ی ذمہ داری ہے کہ ایک تو ان کا اسلام کا رشتہ ہے او ر دوسرا انسانیت کا۔ لیکن باقی معاملات کی طرح یہاں بھی مسلمان کمزوری کا‘‘بھر پور’ ’ مظاہر ہ کر رہے ہیں۔خاص طور پر مذہبی طبقہ تو بالکل ہی خاموش ہے ۔اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔