ڈاکٹر عبادت بریلوی کے فکر انگیز مشاھدات اور تاثرات
میں بحیثیت ایک استاد کے پانچ سال تک لندن یو نیو رسٹی کے سکول آف اور ئینٹل سٹڈیز میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتارہا ۔ اس زمانے میں مجھے انگلستان کے نظام تعلیم اور خاص طور پر اعلٰی تعلیم کے نظام کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور کچھ ایسے تجربات ہوئے جن کے نقوش میرے دل و دماغ پر ثبت ہیں اور وہ کبھی مٹ نہیں سکتے ۔
میں یہ سمجھ کر انگلستان پہلی دفعہ گیا تھا کہ وہاں وہی ماحول ہو گا جو انگریز وں نے اپنے نو آبادیاتی نظام کے تحت بر صغیر ہندو پاکستان میں قائم کیا تھا او رجس میں ایک طرح کی رعونت اور تکبر سب سے زیادہ نمایاں تھا ۔ دوسرے پر بھروسہ نہ کرنے کی وجہ سے انتظامی معاملات میں پیچیدگی بھی اس کی خاص خصوصیت تھی ۔ عوام سے رابطہ نہ رکھنا اور ان سے دور رہنا نو آبادیاتی نظام کو چلانے کیلیے ضروری تھا اور انگریز اس سر زمین پر اپنی ڈیڑھ دو سو سالہ تاریخ میں اس اصول پر پوری طرح عمل کرتے رہے ۔ لیکن انگلستان میں جاکر دیکھا تو وہاں دنیا ہی دوسری تھی ۔ وہاں کسی میں رعونت دیکھی نہ تکبر ۔ برخلاف اس کے یوں محسوس ہوا کہ گویا انسانوں کے درمیان تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ غریب ’ امیر ’ عالم سب ایک دوسرے کے برابر ہیں اور سب کیلیے معاشرے میں عزت و احترام ہے ۔ اور اس صورت حال کا عکس نہ صرف انتظامی محکموں میں بلکہ تعلیم کے نظام میں بھی مجھے نظر آیا ۔
وہاں ہر تعلیمی ادارے میں طالب علم کا داخلہ بہت دیکھ بھال کر کیا جاتا ہے ۔ سکول کی سطح تک تو تعلیم لازمی ہے لیکن جب اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئی طالب علم یونیو رسٹی میں داخلہ لینا چاہتا ہے تو اسے خوب ٹھونک بجا کر دیکھا جاتا ہے ۔ اس کا پورا تعلیمی ریکارڈ ’ اس کا مزاج ’ اس کی دلچسپیاں ’ اس کے رہن سہن کا انداز ’ غرض پروفیسر جب ان تمام پہلوؤں کو دیکھ لیتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے تب اس کو بی۔اے آنرز میں داخل کرتا ہے ۔ انٹرویو سخت ہوتا ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ طالب علم کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جائیں او ریہ دیکھا جائے کہ جن مضامین کو وہ پڑھنا چاہتا ہے ان میں اس کو کس حد تک دلچسپی ہے ۔ کم و بیش ہر ایسے طالب علم کو جب داخلہ ملتاہے تو اس کو اپنی اعلٰی تعلیم جاری رکھنے کے لیے گرانٹ ملتی ہے جس کو ہم و ظیفہ کہہ سکتے ہیں ۔ حکومت بھی گرانٹ دیتی ہے اور دوسرے ٹرسٹ وغیر ہ بھی اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ اس طرح داخل ہو کر وہ تین چار سال تک فرسٹ ڈگری یعنی بی ۔ اے آنرز کے لیے کام کرتا ہے ۔ اساتذہ سے قریب رہتا ہے ۔ ان کے لیکچر سنتاہے ۔ ٹٹوریل میں حاضرہوتا ہے ۔ سیمیناروں میں شرکت کرتا ہے ۔ لائبریریوں میں بیٹھتا ہے او ر صبح سے شام تک اس کے کام کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ یونیورسٹیاں اور کالج آٹھ’ نو بجے کھل جاتے ہیں اور رات آٹھ بجے تک کھلے رہتے ہیں ۔پروفیسر زیادہ تر اپنے کمروں میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں لیکن ان پر کوئی پابندی نہیں ۔ جس وقت جہاں بھی ان کو جانا ہو جا سکتے ہیں۔ البتہ لیکچروں کا جو وقت ہے اس کی پابندی ہر پروفیسر کے لیے ضروری ہے لیکن اس کا احتساب وہ خود کرتا ہے کوئی اور اس کا احتساب کرنے کا مجاز نہیں ۔
انگلستان میں پروفیسر کاکام صرف تدریس ہی نہیں ’ تحقیق بھی ہے اور بیشتر پروفیسر تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے خاص مضمون میں منصوبوں کے تحت’ تحقیق کا کام کرتے رہتے ہیں ۔ اس سے علوم میں اضافے کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ ہر پروفیسر اپنی اپنی جگہ اپنے علم کا ماہر ہوتا ہے اور اس علم میں اپنی تحقیق سے اضافہ کرنا اس کا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے ۔ جو پروفیسر تحقیق کا زیادہ کام نہیں کرتا اور شائع کچھ نہیں کرتا اس کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ’ چاہے وہ تدریس کا کام کتنا زیادہ ہی کیوں نہ کرے ۔ اساتذہ عام طور پر ہفتے میں ۵’۶ لیکچروں سے زیادہ لیکچر نہیں دیتے ۔ لیکن بعض ایسے پروفیسر بھی ہیں جن کیلیے ہفتے میں ایک لیکچردینا بھی کافی سمجھا جاتا ہے اور بعض ایسے پروفیسر بھی ہیں جو شاید ایک لیکچر بھی نہیں دیتے۔ لیکن ان کے علمی اور تحقیقی کام اس طر ح جاری رہتے ہیں کہ کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔
پروفیسروں کو ہر اعتبار سے آزاد تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا کوئی بھی نظریہ ہو ’ کوئی بھی خیال ہو’ اس سے حکومت یا یونیو رسٹی کو کوئی سروکار نہیں ۔ ہر شخص آزاد ہے ۔ انگلستان میں جمہوری نظام ہے اور انگریز بڑے روایت پرست لوگ ہیں ۔ لیکن یونیورسٹی میں اگر کوئی پروفیسر ارباب اختیار سے سیاسی اختلاف رکھتا ہو تو اس کو گنا ہ گار نہیں سمجھا جاتا ۔ اسے پوری آزادی ہے ۔ سیاسی معاملات میں نہ صرف پروفیسر اظہار خیال کر سکتے ہیں بلکہ سیاست میں بھی حصہ لے سکتے ہیں ۔ چنانچہ بعض پروفیسر پارلیمنٹ کے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں اور انہیں یونیورسٹی یا کسی کے کالج سے اجازت کی ضرورت نہیں ۔
طالب علم بھی ہر اعتبار سے آزاد ہے لیکن اس کے باوجود ایک ڈسپلن ہر ادارے میں موجود ہے۔ مثلاً طالب علم لیکچر سے غیر حاضر نہیں ہو سکتا ’ ہو گاتو اس کا خمیازہ اس کو بھگتنا پڑے گا ۔ استاد کے سامنے اس کا ہاتھ باندھ کر بیٹھنا ضروری ہے ۔ لیکن کلاس کے بعد جب وہ کمرے سے نکل جائے تو وہ آزاد ہے اور اس پر کوئی پابندی نہیں ۔ استاد جو کام اس کو دے گا بہرحال وہ کام اس کو کرنا پڑے گا ۔ اگر وہ نہیں کرے گا تو ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ استاد کے سامنے کسی قسم کا سیاسی احتجاج یا کسی قسم کی بدتمیزی انگلستان کی روایت نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انگلستان میں پروفیسر پروفیسر ہے اور طالب علم طالب علم ۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا ماحول ہے ۔ کوئی کسی کا راستہ نہیں روکتا ۔ کوئی کسی کو پریشان نہیں کرتا ۔ کوئی کسی کے بارے میں بے کار قسم کی باتیں نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ لوگوں کو اتنی فرصت ہی نہیں ہے اور دوسرے یہ چیز ان کے مزاج سے بھی تعلق نہیں رکھتی ۔ پروفیسر ایک بہت مصروف شخص ہوتا ہے ۔ لیکن طالب علم کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتاہے ۔ بعض طلبااگر کسی ذاتی الجھن یا پریشانی میں مبتلا ہو جائیں اور ان کے کام میں رکاوٹ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو استاد یا پروفیسر اس کی مدد کرے گا اور اس الجھن سے نجات دلائے گا تا کہ اس کا کام نہ رکے ۔
ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے ۔ میں نے پشاور کے ایک پروفیسر صاحب کو پی ۔ ایچ ۔ ڈی کرنے کے لئے لندن بلایا ۔ انہیں ان کی یونیو رسٹی نے وظیفہ دیا مگر یہ وظیفہ دو سال کے لیے تھا ۔ پی۔ ایچ ۔ ڈی کا کام تین سال سے پہلے مکمل نہیں ہو سکتا تھا ۔ اس لیے اب مسئلہ یہ تھا کہ تیسرے سال کا وظیفہ کون دے ۔ میں نے ان کی یونیورسٹی کو لکھا او ردرخواست کی کہ ایک سال کے لیے وظیفے کی مدت بڑھا دی جائے لیکن جواب نفی میں آیا اور بہت کچھ کہنے سننے کے باوجود یہ کہا گیا کہ یہ صاحب قرض لے سکتے ہیں واپس آکر وہ قرض ادا کریں ۔ ظاہر ہے کہ پا ؤنڈ خرچ کر کے روپوں میں قرضہ ادا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ میں نے یہ دیکھ کر سکول آف اور ینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کے ارباب اختیار سے بات کی او ران سے یہ مشورہ طلب کیا کہ کیا کرنا چاہئے تو جواب ملا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ ایک سال کا وظیفہ ہم دے دیں گے تاکہ ان کا کام نہ رکے او روہ کامیاب ہو کر جائیں ۔ چنانچہ اس طرح ان کا کام تیسرے سال جاری رہا اور انکو پی ۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری ملی ۔ چنانچہ اب وہ پشاور یونیورسٹی میں پروفیسر اور صدر شعبہ ہیں ۔
ایک اور بات جو میں نے وہاں کے تعلیمی نظام میں دیکھی وہ مجھے بہت عجیب معلوم ہوئی ۔ مثلاً کسی کو آپ سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس اختلاف میں بغض اور عناد کی کوئی جگہ نہیں ۔ چونکہ انگلستان میں ہر شخص کو اپنے خیالات ظاہر کرنے کا حق ہے ’ ماتحت’ افسر سے اختلاف کر سکتا ہے ’ طالب علم ’ اپنے پروفیسر سے اختلاف کر سکتا ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ اس کے خیالات سے پوری طرح متفق ہو ’ اس کے باوجود وہ اس کے علم کا احترام کرتا ہے اور اس کو اپنا استاد سمجھتا ہے ۔ کوئی کسی اختلاف کو ذاتی اختلاف نہیں بناتا اور دشمنی کی فضا پیدانہیں کرتا ۔
یہاں ایک او راہم واقعہ مجھے یاد آیا ۔ انگلستان کے دوران قیام میں میں نے یہ کوشش کی کہ پاکستان سے زیادہ سکالر وہاں جاکر پی۔ ایچ۔ ڈی کریں ۔ چنانچہ ایسے سکالر آئے جو میری نگرانی میں پی۔ایچ۔ڈی کر رہے تھے ۔ لندن میں پی۔ایچ۔ڈی کیلیے پہلے ایم ۔اے میں داخلہ ہوتا ہے اور اگر استاد چاہے تو سال بھر کے بعد یہ سفارش کر سکتا ہے کہ بغیر امتحان کے انکو پی۔ایچ۔ڈی میں ٹرانسفر کر دیا جائے ۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا ۔ یہ بات ہندوستان پاکستان کے شعبے کے سربراہ کو کچھ زیادہ پسند نہیں آئی ۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ لندن کی پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کو عام نہ کیا جائے ’ نہ زیادہ لوگوں کو ایم۔اے کی ڈگریاں ملیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک ملاقات میں مجھ سے کہا کہ آپ زیادہ لوگوں کے لیے پی۔ایچ۔ڈی کی سفارش نہ کریں تو بہتر ہے ۔ میں نے اس پر جواب دیا ‘‘کیا آپ اس موضوع سے واقفیت رکھتے ہیں جس پر سکالر کام کر رہاہے اور جس کامیں نگران ہوں ؟’’ انہوں نے کہا ۔ ‘‘نہیں!’’ اس لیے میں نے کہا ۔ ‘‘میر ا موقف صحیح ہے کیونکہ میں اس مضمون کو جانتاہوں اور جو سکالر میرے ساتھ کام کررہاہے وہ اس قابل ہے کہ اس کو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری دی جائے ۔’’ صدر شعبہ نے کہا ۔ ‘‘جب کل آپ کمیٹی فارہائر سٹیڈیز میں آئیں گے تو بات ہو جائے گی ۔ ’’ دوسرے دن جب میں کمیٹی میں پہنچا تو صدر شعبہ موجود تھے ۔ کمیٹی کی صدارت افریقی زبانوں کے ایک سینئر پروفیسر کر رہے تھے ۔ جب یہ مسئلہ زیر غور آیاتو انہوں نے بجائے ہندوستان پاکستان کے صدر شعبہ کے پوچھنے کے مجھ سے کہا ۔ ‘‘آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کے پیش نظر ہم آپ کی سفارش منظور کرتے ہیں ۔’’ صدر شعبہ نے اپنے اختلاف کا اظہار کیا ۔ لیکن میٹنگ کے صدر نے یہ کہہ کر اس پر بحث بند کر دی ۔ ‘‘ جب سپر وائزر نے تحریر میں سفارش کر دی ہے تو اس موضوع پر بحث کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے کمیٹی اس سفارش کو منظور کرتی ہے ۔ ’ ’ میٹنگ ختم ہوگئی اور جب ہم سینٹ ہال سے باہر نکلے تو شعبہ ہندوستان و پاکستان کے صدر نے میرے گلے میں باہیں ڈالیں ۔ مجھے مبارکباد دی اور مجھ سے یہ کہا ۔ ‘‘ آپ کی بات مانی گئی ۔ ہمیں خوشی ہوئی ۔ میر ااختلاف اصولی تھا ۔ ’’ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔ بعد میں معلو م ہوا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک خط لکھا جس میں میری بہت تعریفیں کیں اور یہ کہا ۔ ‘‘اگر ممکن ہو سکے تو انہیں دو ایک سال مزید لندن میں ہمارے ساتھ رہنے دیجئے۔ یہ بہت اصول کے آدمی ہیں ا ور میں ان سے بہت خوش ہوں ۔ ’’ آج تک میر ی ان پروفیسر صاحب سے گہری دوستی ہے ۔ اختلاف نے اس دوستی کا کچھ نہیں بگاڑا کیونکہ وہ اختلاف اصولی تھا ۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ انگلستان میں جو معاشرہ ہے وہ خاصامتوازن او رنارمل ہے ۔ وہاں چھوٹی چھوٹی باتوں میں اختلاف دشمنی کی صورت اختیا ر نہیں کرتا اور یہی اس کی صحت مندی کی علامت ہے ۔ تعلیمی اداروں میں یہ صورت کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے ۔ کیونکہ تعلیم نے ہر شخص کو اتنا روشن خیال او رکشادہ دل بنادیا ہے کہ نہ وہ کسی سے نفرت کرتا ہے ’ نہ کسی کو نقصان پہچانتا ہے اور نہ کسی کو تکلیف دیتا ہے ۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن اس اختلاف سے وہ مسموم فضا پیدا نہیں ہوتی جو عام طور پر ترقی پذیر ممالک میں ہمیں نظر آتی ہے ۔
غرض انگلستان کے نظام تعلیم میں اس معاشرے کا عکس جھلکتا ہے جو صحت مند بنیادوں پر قائم ہے ۔ ہر شخص فرض شناس ہے اور اپنا کام تن دہی سے کرتا ہے ’ طالب علم بھی اور استاد بھی ۔ استاد اور طالب علم کا رشتہ بڑی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے کیونکہ انگلستان کے نظام تعلیم میں تعلیم کا صرف لیکچر ہی پر خاتمہ نہیں ہو جاتا ’ استاد اور طالب علم کا ذاتی سطح پر بھی ایک رشتہ ہوتا ہے ۔ بعض یونیورسٹیاں تو ایسی ہیں جہاں استاد اپنے طالب علموں کو لیکچر دیتا ہی نہیں ’ مثلاً آکسفورڈ او رکیمبرج ۔ وہاں ٹیوٹوریل کی سطح پر استاد اور طالب علم کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یونیورسٹی کی طرف سے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا پروگرام بنایا جاتا ہے ’ ماہرین اس پر لیکچر دیتے ہیں اور طالب علموں کو ان لیکچروں میں شریک ہونے کی اجازت ہوتی ہے ۔ جس استاد کے ٹیو ٹوریل میں جو طالب علم ہوتے ہیں وہ انہیں بتا دیتا ہے کہ فلاں پروفیسر کے لیکچرمیں شرکت ضروری ہے ۔ پھر اس پر ٹیوٹوریل میں بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال ہوتا ہے اس طرح اس موضوع کے تمام گوشے طالب علم کے سامنے آجاتے ہیں ۔ انگلستان میں نہ صرف پروفیسر کو آزادی حاصل ہے بلکہ اس کی بڑ ی عزت ہے ۔ وہ اپنی دنیا میں مست ہے اور کوئی شخص اس کے نظام میں خلل انداز نہیں ہو سکتا ۔ وہ اپنی دنیا میں ایک بادشاہ ہے اور اس کا کام علم اور تعلیم کی حکمرانی ہے۔ جو طالب علم ایسے پروفیسروں کے ساتھ اس ماحول میں تعلیم حاصل کرے گا ظاہر ہے کہ اس میں بھی یہی خصوصیات پیداہوں گی ۔ یہی سبب ہے کہ دنیا میں اتنے انقلاب آنے کے باوجود انگلستان کے نظام تعلیم میں کوئی ایسا انقلاب نہیں آیا جو اس کی روایت کو درہم برہم کرتا ۔ پرانی پرانی عمارتوں میں استاد اور طالب علم آج بھی وہاں اسی طرح علم حاصل کرتے ہیں جیسے آج سے صدیوں پہلے کیا کرتے تھے ۔
بشکریہ:ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور ۔مئی ۱۹۹۱