‘‘ہم کو ایک عملی اور حقیقت پسندانسان کے نقطہ نظر سے تحریک قادیانیت کا تاریخی جائزہ لینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے اسلام کی تاریخ اصلاح و تجدید میں کون سا کارنامہ انجام دیا اور عالم اسلام کی جدید نسل کو کیا عطا کیا۔ نصف صدی کی اس پر شور اور ہنگامہ خیز مدت کا حاصل کیا ہے؟ تحریک کے بانی نے، اسلامی مسائل اور متنازع فیہ امور پر، جو ایک وسیع و مہیب کتب خانہ یادگار چھوڑا ہے اور جو تقریباً ۷۰ برس سے موضوع بحث بنا ہوا ہے، اس کا خلاصہ اور ماحصل کیا ہے؟ قادیانیت عصر جدید کے لیے کیا پیغام رکھتی ہے؟
ایسے نازک وقت میں،جبکہ ہندوستان ، ذہنی و سیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہوا تھا، مرزا غلام احمد صاحب اپنی دعوت اور تحریک کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ عالم اسلام کے حقیقی مسائل و مشکلات اور وقت کے اصلاحی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور علم و قلم کی طاقت ایک ہی مسئلہ پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ وفات مسیح اور مسیح موعود کا دعویٰ۔ اس مسئلہ سے جو کچھ وقت بچتا ہے وہ حرمت جہاد اور حکومت وقت کی وفاداری اور اخلاص کی دعوت کی نذر ہو جاتا ہے۔ ربع صدی کی تصنیفی و علمی زندگی اور جدوجہد کا موضوع اور ان کی دلچسپیوں کا مرکز یہی مسئلہ اور اس کے سلسلہ میں مخالفین سے نبرد آزمائی اورمعرکہ آرائی ہے۔ اگر ان کی تصنیفات سے ان مضامین کو خارج کر دیا جائے ، جو حیات مسیح و نزول مسیح اور ان کے دعاوی اور اس سے پیدا ہونے والے مباحث سے متعلق ہیں تو ان کے تصنیفی کارنامہ کی ساری اہمیت اور وسعت ختم ہو جائے گی۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ اس عالم اسلام میں جو پہلے سے مذہبی اختلافات اور دینی نزاعات کا شکار تھا اور جس میں اب کسی نزاع کے برداشت کرنے کی طاقت نہ تھی، وہ نئی نبوت کا علم بلند کرتے ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے، اس کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اور مسلمانوں کے درمیان ایک آہنی اور ناقابل عبور دیوا ر کھڑی کر دیتے ہیں، جس کے ایک جانب ان کے متبعین کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو چند ہزار افراد پر مشتمل ہے، دوسری طرف پورا عالم اسلام ہے جو مراکش سے چین تک پھیلا ہوا ہے اور جس میں عظیم ترین افراد، صالح ترین جماعتیں اور مفید ترین ادارے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے عالم اسلام میں بلا ضرورت ایسا انتشار اور ایک ایسی نئی تقسیم پیدا کر دی، جس نے مسلمانوں کی مشکلات میں ایک نیا اضافہ اور عصر حاضر کے مسائل میں نئی پیچیدگی پیدا کر دی۔
مرزا غلام احمد صاحب نے درحقیقت اسلام کے علمی و دینی ذخیرہ میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا، جس کے لیے اصلاح و تجدید کی تاریخ ان کی معترف اور مسلمانوں کی نسلِ جدید ان کی شکر گزار ہو۔ انھوں نے نہ تو کوئی عمومی دینی خدمت انجام دی، جس کا نفع دنیا کے سارے مسلمانوں کو پہنچے، نہ وقت کے جدید مسائل میں سے کسی مسئلہ کو حل کیا۔ نہ ان کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لیے جو سخت مشکلات اور موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے، کوئی پیغام رکھتی ہے۔ نہ اس نے یورپ اور ہندوستان کے اندر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی جدوجہد کا تمام تر میدان، مسلمانوں کے اندر ہے اور اس کا نتیجہ صرف ذہنی انتشار اور غیر ضروری مذہبی کشمکش ہے، جو اس نے اسلامی معاشرے میں پیدا کر دی ہے ۔ وہ اگر کسی چیز میں کامیاب کہے جا سکتے ہیں تو صرف اس میں کہ انھوں نے اپنے خاندان اور ورثاء کے لیے سر آغا خان کے اسلاف کی طرح ، پیشوائی کی ایک مسند اور ایک دینی ریاست پیدا کر دی ہے، جس کے اندر ان کو روحانی سیادت اور مادی عیش و عشرت حاصل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں وہ ذہنی انتشار نہ ہوتا، جس کا پنجاب خاص میدان تھا، اگر انگریزی حکومت کے اثر سے اسلامی معاشرہ میں اسلام کی بنیادیں متزلزل اور اسلامی ذہن ماؤف نہ ہو چکا ہوتا، اگر مسلمانوں کی نئی نسل دینی تعلیمات اور اسلام کی تجدیدی شخصیتوں اور عظمت انسانی کی حقیقی صفات سے اتنی بے خبر نہ ہوتی اور آخر میں حکومت وقت کی پشت پناہی اور سرپرستی نہ ہوتی، تو یہ تحریک جس کی بنیاد زیادہ تر الہامات، خوابوں، تاویلات اور بے کیف و بے مغز نکتہ آفرینیوں پر ہے اور جو عصر جدید کے لیے کوئی نیا اخلاقی و روحانی پیغام اور مسائل حاضرہ کو حل کرنے کے لیے کوئی مجتہدانہ مقام نہیں رکھتی، کبھی بھی اتنی مدت تک باقی نہیں رہ سکتی جیسی کہ اس برسرِ انحطاط سوسائٹی اور اس پراگندہ دماغ، پراگندہ دل نسل میں رہ سکی۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اور دعوت سے انحراف اور ان مخلصین و مجاہدین کی (جو ماضی قریب میں اس ملک میں پیدا ہوئے اور اسلام کے عروج اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنا سب کچھ مٹا کر چلے گئے) ناقدری کی سزاخدا نے یہ دی کہ ہندوستانی مسلمانوں پر ایک نئے ذہنی طاعون کو مسلط کر دیا اور ایک شخص کو ان کے درمیان کھڑا کر دیا جو امت میں فساد کا مستقل بیج بو گیا ہے۔
دمشق یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ کے سامنے اسلام کی تاریخ اصلاح و تجدید کے موضوع پر ایک سلسلہ تقریر کے دوران میں، راقم سطور نے تحریک باطنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
‘‘حضرات! میں جب باطنیت، اخوان الصفاء اور ایران کی بہائی اور ہندوستان کی قادیانیت کی تاریخ پڑھتا ہوں تو مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ ان تحریکوں کے بانیوں نے اسلام اور بعثت محمدی کی تاریخ پڑھی تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص تنہا جزیرۃ العرب میں ایک دعوت لے کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں نہ مال ہے نہ اسلحہ۔ وہ ایک عقیدہ اور ایک دین کی دعوت دیتا ہے۔ اور کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ایک نئی امت، ایک نئی حکومت، ایک نئی تہذیب وجود میں آتی ہے۔ وہ تاریخ کا رخ تبدیل کر دیتا ہے اور واقعات کا دھارا بدل دیتا ہے۔ ان کی بلند حوصلہ طبیعتوں نے ان سے کہا کہ اس کا نیا تجربہ کیوں نہ کیا جائے۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ ذہانت، دماغی صلاحیت، تنظیمی لیاقت بھی رکھتے ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہیں، پھر کیوں تاریخ اپنے آپ کونہ دہرائے گی اور کس طرح انہی واقعات کا ظہور نہ ہو گا، جو طبعی اسباب اور عمل کے ماتحت گزشتہ دور میں ہو چکے ہیں۔ ان کو امید تھی کہ پھر اسی معجزہ کا ظہور ہو گا، جس کا تاریخ نے چھٹی صدی میں مشاہدہ کیا، اس لیے کہ فطرت انسانی ناقابل تبدیل ہے اور لوگوں میں ہمیشہ سے ہر دعوت قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔’’
ان بلند حوصلہ انسانوں نے اس یکہ و تنہا ہستی کو تو دیکھا، جو بغیر کسی سرمایہ اور بغیر کسی فوجی طاقت و حمایت کے ایک دینی دعوت لے کر کھڑی ہوئی لیکن اس کے پیچھے اس ربانی جماعت اور ارادۂ الٰہی کو نہیں دیکھا جو اس کی کامیابی، غلبہ اور قیامت تک کا باقی رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور جس نے اعلان کر دیا تھا۔
ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکونo
‘‘وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسولؐ ہدایت اور سچے دین کے ساتھ، تاکہ سب دینوں پر غالب کرے، خواہ شرک کرنے والے کتنا ہی برا مانیں۔’’
نتیجہ یہ ہوا کہ وقتی طور پر ان کی کوششیں کامیاب اور بارآور ہوئیں اور انھوں نے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے ساتھی اور پیرو پیدا کر لیے۔ ان میں سے بعض (باطنیہ) نے عظیم الشان سلطنت (فاطمیہ) بھی قائم کر لی اور یہ سلطنت عرصہ تک پھلی پھولی اور ایک زمانہ میں اس نے سوڈان سے مراکش تک قبضہ کر لیا، لیکن جب تک ان کی تنظیم، ان کے مخفی انتظامات اور ان کی شعبدہ بازیاں باقی رہیں، یہ عروج بھی باقی رہا۔ لیکن پھر وقت آیا کہ یہ سب عروج و اقتدار اور یہ سب ترقی و اقبال ایک افسانہ بن کر رہ گیا، ان کے مذہب ایک مختصر دائرہ میں محدود ہو کر رہ گئے، جن کا زندگی پر کوئی اثر اور دنیا میں کوئی مقام نہیں۔
اس کے بالمقابل اسلام جس کو رسول ؐ اللہ لے کر آئے، وہ آج بھی دنیا کی عظیم ترین روحانی طاقت ہے اور آج اس کے ساتھ ایک عظیم الشان امت ہے۔ آج بھی وہ ایک تہذیب رکھتا ہے اور بہت سی سلطنتوں اور قوموں کا مذہب ہے۔ نبوت محمدیؐ کا آفتاب آج بھی بلند اور روشن ہے اور تاریخ کے کسی دور میں بھی وہ گہن میں نہیں آیا۔’’