چہرے

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اکتوبر 2006

            جون کی چلچلاتی دھوپ تھی اور وہ جمعہ کی نمازکے لیے مسجد میں داخل ہورہا تھا کہ مسجد کے دروازے پر پڑی ایک چارپائی دیکھ کر کانپ کررہ گیا۔چارپائی پر، دھوپ میں ، اکیلی ، بے یار و مددگار نعش پڑی تھی ۔یہ منظر اس کے ساتھ اس کے ساتھ ایسا چپکا کہ وہ نہ تو خطبے میں سکون سے بیٹھ سکا اور نہ نماز میں توجہ دے سکا۔

            نماز کے بعد وہ اور اس کا دوست باہر نکلنے کو ہی تھے کہ مولوی صاحب نے اعلان فرمایا:‘‘حضرات فلاں صاحب جو کہ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے تھے ان کی نمازِ جنازہ ابھی فوراً ادا کی جائے گی۔سب حضرات شرکت فرماویں۔

            اس کے دوست نے کہا : اب جنازہ پڑھ کر ہی جائیں گے ۔وہ چارپائی کے قریب کھڑے ہوگئے۔ اس کا دوست کچھ دیر بعد گویا ہُوا کہ مولوی صاحب نے تو اعلان کیا تھا کہ فوراً بعد جنازہ ہوگا، اور اب دس منٹ ہوگئے اور مولوی صاحب آئے ہی نہیں جنازہ دھوپ میں پڑا ہے، لوگ بھی سب دھوپ میں کھڑے ہیں، کیا مولوی صاحب کو یہ سب پتا نہیں ہے؟ اس نے چپکے سے کہا: چپ کر جاؤ۔اس وقت تو اس کا دوست خاموش ہوگیا لیکن جب اگلے دس منٹ کے بعد بھی مولو ی صاحب مسجد کے دروازے تک تشریف نہ لائے تو اس کے غصے کی انتہا نہ رہی ، اب کی بار اس نے مجھے ایک حدیث یاد دلائی اور مجھے اس کے منہ سے حدیث کے الفاظ سن کر خوشی ہوئی کہ چلو اس سے کوئی تو اچھی بات سنی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے قول کا مفہوم یوں ہے کہ تین چیزوں میں کبھی دیر نہ کرو ان میں سے ایک چیز جنازہ بھی ہے جب کہ وہ تیار ہوجائے۔ اور اس کے بعد بولا کیا مولوی کو یہ حدیث یاد نہیں ہے؟ میں نے اس کو پھر چپ کرایا اور کہا کہ ابھی جمعہ کی نماز ختم نہیں ہوئی ۔ اس نے کہا کہ نماز تو سلام کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے ۔میں نے کہانہیں پگلے ابھی صلوۃ و سلام باقی ہے۔میرا کہنا درست ثابت ہوا تھوڑی ہی دیر بعد مسجد کے سپیکروں سے سلام کی آواز بلند ہوئی اور پھر اگلے دس منٹ بعد مولوی صاحب تشریف لے ہی آئے۔مولوی صاحب نے اپنے کھڑے ہونے کے لیے سائے کی جگہ تلاش کی اور پھر دو منٹ میں جنازہ پڑھایا اور چل دیے……

            اس دوران میں جب کہ مولوی صاحب کا انتظارہو رہا تھا اس کے دوست کو یہاں اور بھی دو قسم کی شخصیات دیکھنے کا موقع ملا۔

             ایک جوان اپنی گاڑی میں آیا اور اس نے چارپائی کے بالکل قریب لاکر گاڑی کی skitلگائی، ڈیک کی آواز اونچی کی اور پھر گاڑی کو چنگھاڑنے پر مجبور کر کے وہاں سے بھاگ نکلا۔

            اورکچھ ہی لمحوں کے ایک اور مہنگی ترین گاڑی اپنی بارعب چال کے ساتھ نمودار ہوئی کچھ دورجا کے وہ گاڑی رکی اور اس میں سے ایک نہایت معزز شخصیت باہر نکلی۔انہوں نے باہر نکلتے ہی قریب ہی کھڑے ریڑھی بان سے ہاتھ ملایا، اس سے حال چال پوچھا اور اس کے بعد وہ بھی اس وقت تک دھوپ میں کھڑے رہے جب تک کہ جنازہ نہیں ہوگیا۔

            جنازہ پڑھنے کے بعد وہ اپنے دوست سے مختلف سوال کرنے لگاجن میں سے اہم یہ تھا کہ جتنی شخصیات یہاں دیکھیں، ان میں بہتر کون تھا، سائے میں کھڑے ہونے والے مولوی صاحب، گاڑی والا نوجوان، یا ایر کنڈیشنڈ گاڑی سے اتر کر جنازے کے انتظار میں دھوپ میں کھڑے ہونے والے بزرگ۔ مگر دوست جو اس کے سب سوالوں کا جواب دے رہاتھا اب کی بار کوئی جواب نہ دے سکا کیونکہ ان سب لوگوں کے چہروں پہ کوئی اور نا م لکھا تھا اور عمل پر کچھ اور ، اوردوست دونوں ہی نام پڑھنے سے قاصر تھا۔