اگر آپ کسی کو ہزار روپے کا نوٹ دیں اور اُس سے کہیں کہ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر اِس قسم کے لاکھوں نوٹ پڑے ہیں، وہ بھی تمہارے ہیں ۔چاہو توفوراً یہ لے لو اور چاہو توفاصلہ طے کر کے وہ سب لے لو۔ ایسا آدمی کیا کرے گا۔ یقیناوہ اس ایک کو نظر انداز کرتے ہوئے زیادہ کی طرف دوڑ پڑے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ دُنیا اور آخرت کا ہے۔ موجودہ دُنیا آخرت کا تعارف ہے یہاں آدمی اِن نعمتوں اور لذتوں کی ابتدائی پہچان حاصل کرتا ہے جن کو خدا نے بہترین شکل میں جنت میں بسا رکھا ہے۔ یہ اِس لیے ہے تاکہ آدمی جز سے کل کو سمجھے۔ وہ قطرے کو دیکھ کر سمندر کا اندازہ کرے۔ اگر آدمی کو دُنیا کی صحیح معرفت حاصل ہوجائے تو اس کے لیے دُنیا کی حیثیت ہزار روپے کے ایک نوٹ سے زیادہ کی نہیں ہو گی۔وہ چھوٹی لذت کو چھوڑ کر بڑی لذت کی طرف بھاگ پڑے گا یعنی وہ دُنیا کو بھول کر آخرت کی طرف دوڑ پڑے گا۔ اس کے برعکس جو شخص دُنیا کی صحیح نوعیت کو نہ سمجھے وہ موجودہ دُنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے گا۔ جنت میں اصل لذت ہے اور دُنیا میں صرف فریبِ لذت۔ پھول’ چاند ستارے اس لیے ہیں کہ وہ آدمی کو آخرت کے حُسن کی یاد دلائیں مگر انسان انھی کو آخری چیز سمجھ کر انھی کے درمیان اپنی مستقل جنت بنانے لگتا ہے۔ دُنیا کی لذتیں اس لیے ہیں تاکہ انسان کو ہمہ تن آخرت کا چاہنے والا بنا دیں مگر انسان انھی لذتوں میں ایسا کھوتا ہے کہ اس کو آخرت کی یاد بھی نہیں آتی۔
خدا نے ہماری زندگی کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ ہماری زندگی کا مختصر حصہ موجودہ دُنیا میں ہے اور اس کا بقیہ تمام غیرفانی حصہ موت کے بعد آنے والی دُنیا میں۔ اس دُنیا کو خدا نے عمل کی جگہ بنایا ہے اور بعد کی دُنیا کو عمل کا بدلہ پانے کی جگہ۔ جو شخص موجودہ دُنیا کی دلفریبی میں گم ہوجائے اس نے اپنی آخرت کو کھو دیا۔ ایسا شخص آخرت میں پہنچے گا تو وہاں کی ابدی نعمتوں کو دیکھ کر اس کا سینہ حسرتوں اور نااُمیدی کا قبرستان بن جائے گا۔ وہ کہے گا میں بھی کیسا نادان تھا میں نے جھوٹے عیش کی خاطر حقیقی عیش کو کھو دیا۔ میں نے جھوٹی آزادی سے فریب کھا کر اپنے آپ کو حقیقی آزادی سے محروم کرلیا۔
جنت خدا کی پسندیدہ دُنیاہے ۔ ہمیشہ کی خوشیوں اور راحتوں کی دُنیا ،جہاں نہ دکھ ہے نہ شوروغل’ نہ رنج ہے نہ حادثہ۔ ہرقسم کی پریشانیوں سے آزاد دُنیا۔
آیئے قرآن و حدیث کی روشنی میں جنت کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے الفاظ سے جنت کے عیش و آرام کا حقیقی تصور قائم کرنا مشکل ہے۔ یہ اس لیے کہ ہماری زبان کے سارے الفاظ اس دُنیا کی چیزوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مثلاً انگور یا شہد کے لفظوں سے ہمارا ذہن بس اسی قسم کے انگور اور شہد کی طرف جاسکتا ہے جن کو ہم نے دیکھا اور چکھا ہے۔ ہم جنت کے ان انگوروں اور شہد کی اصل حقیقت اور کیفیت کا تصور کیسے کرسکتے ہیں جو اپنی خوبیوں کے لحاظ سے یہاں کے انگوروں اور شہد سے ہزاروں لاکھوں درجہ زیادہ بہترین ہوں گے اور جن کا کوئی نمونہ ہم نے نہیں دیکھا۔حقیقت تو وہیں معلوم ہو گی۔اسی لیے حضورﷺ نے فرمایا کہ جنت ایسی جگہ ہے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل پر اس کا گمان گزرا۔
قرآن و حدیث میں جنت کے ذکر کا مقصد یہ نہیں کہ لوگوں کے سامنے وہاں کا مکمل نقشہ آئے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں جنت اور اس کی نعمتوں اور لذتوں کا شوق اُبھرے تاکہ وہ اچھے اعمال اختیار کریں جو جنت میں پہنچانے والے ہیں۔
جنت…… قرآن کی روشنی میں
۱- ‘‘(پس اللہ بھی) انھیں تازگی اور سرور عطا کریگا اور اُن کے صبر (و ثبات) کے صلے میں اُنھیں (رہنے کو) بہشت اور (پہننے کو) ریشمی لباس عنایت کرے گا وہ بہشت میں تختوں پر تکیے لگائے (بیٹھے) ہوں گے۔ وہاں نہ اُن کو (سورج کی) تپش معلوم ہوگی اور نہ جاڑے کی ٹھِر۔ اور درختوں کے سائے اُن پر جھکے ہوئے ہوں گے اور اُن کے پھل (ہر وقت) اُن کے اختیار میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں اور جب چاہیں توڑیں اور کھائیں)۔ اور اُن کے سامنے چاندی کے برتن اور شیشے کے آبخورے گردش میں ہوں گے اور وہ شیشے (بھی کانچ کے نہیں بلکہ) چاندی کے ہوں گے اور اُن کو کارکنان قضا و قدر نے ٹھیک (جنتیوں کی ضرورت کے) اندازے کے مطابق بنایا ہوگا۔ اور (اِس کے علاوہ) وہاں اُن کو (ایسی شراب کے) جام بھی پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کے پانی کی آمیزش ہوگی۔ (یہ) جنت میں (سونٹھ کے پانی کا ایک) چشمہ ہوگا جسے ‘سلسبیل’ کہا جاتا ہے۔ اور جنتیوں (کی خدمت) کے لیے (ایسے) لڑکے دوڑتے پھرتے ہوں گے جو سَدا (لڑکے ہی) رہیں گے (اور ایسے خوبصورت ہوں گے کہ) تم اُن کو (چلتے پھرتے) دیکھو تو اُن کو بکھرے ہوئے موتی گمان کرو۔ (اور بہشت کی مجموعی حالت کو) دیکھو تو وہاں تمھیں (ہرطرح کی) نعمت اور ایک بڑی سلطنت (کا سازوسامان) دکھائی دے گا۔ جنتیوں پر سبز ریشمی ابرق اور دَبیز کپڑے ہوں گے اور اُن کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ اور اُن کا ربّ اُن کو شرابِ طہور عطا کرے گا۔ (جنتیو! یہ ہے تمھارا صلہ کہ تمھاری سعی (آج) مقبول ہوئی’’ (الدھر ۷۶:۱۱-۲۲)
۲- ‘‘(رہے) متقین (تو وہ) اَمن کی جگہ میں ہوں گے’ (یعنی) باغوں اور چشموں میں’ ریشم کی باریک اور دَبیز پوشاکیں پہنے ہوئے (ایک دوسرے کے) آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ ہوگی اُن کی شان اور ہم گوری گوری آہو چشم عورتیں اُن کی زوجیت میں دے دیں گے۔ وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کے میوے (منگا کر کھا) رہے ہوں گے اور پہلی (دفعہ) کی موت کے سوا (جو دُنیا میں آچکی) وہاں اُن کو موت (کی تلخی) کبھی چکھنی نہ پڑے گی اور اللہ انھیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ (اے پیغمبرؐ! یہ سب) تمھارے ربّ کے فضل سے ہوگا۔ یہی بڑی کامیابی ہے’’۔ (الدخان ۴۴:۵۱-۵۷)
۳- ‘‘جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا جاتا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں بہت سی نہریں دودھ کی ہیں جن کا ذائقہ بدلا ہوا نہ ہوگا اور بہت سی شراب کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوگی اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جو بالکل صاف ہوگا اور ان کے لیے وہاں ہر قسم کے پھل ہوں گے اور ان کے ربّ کی طرف سے بخشش ہوگی ایسے لوگ ان جیسے ہوسکتے ہیں؟ جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور کھولتا ہوا پانی ان کو پینے کو دیا جائے گا سو وہ ان کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا’’ (محمد ۴۷:۱۵)
۴- ‘‘اہل جنت اس دن اپنے مشغلوں میں ہوں گے۔ وہ اور اُن کی بیویاں سایہ میں مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گی۔ ان کے لیے وہاں طرح طرح کے میوے ہوں گے اور جو کچھ مانگیں گے ان کو ملے گا’ رحمت و کرم والے پروردگار کی طرف سے ان کو سلام فرمایا جائے گا’’۔ (یٰس ٓ ۳۶: ۵۵-۵۸)
۵- ‘‘اے میرے بندو! تم پر آج کوئی خوف نہیں اور نہ تم غمگین ہو گے یعنی وہ بندے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تھے اور (ہمارے) فرمانبردار تھے۔ تم اور تمھاری (ایماندار) بیویاں خوش خوش جنت میں داخل ہوجاؤ۔ ان کے پاس سونے کی رکابیاں اور گلاس لائے جائیں گے اور جنت میں وہ سب کچھ ہے جس کو لوگوں کے جی چاہتے ہیں اور آنکھیں جس سے مزہ لیتی ہیں اور (اے میرے نیک بندو) تم اسی جنت میں رہو گے اور یہ جنت جس کے تم مالک کر دیئے گئے ہو تمھارے اعمال کا صلہ ہے تمھارے لیے بہت سے میوے ہیں جن کو تم کھاؤ گے’’۔ (الزخرف ۶۸:۷۳)
۶- ‘‘متقی لوگ بلاشبہ (جنت کے) باغوں اور سامانِ عیش میں ہوں گے۔ (اور) جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا ہوگا اس کی وجہ سے خوش حال اور ان کا پروردگار ان کو عذابِ دوزخ سے محفوظ رکھے گا اپنے اعمال کے بدلے میں مزہ کے ساتھ خوب کھاؤ اور پیو۔ تکیہ لگائے ہوئے تختوں پر جو برابر بچھائے ہوئے ہوں گے۔ اور ہم ان کا بڑی بڑی آنکھوں والیوں سے بیاہ کردیں گے۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کی راہ میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی (درجہ میں) ان کے ساتھ شامل کردیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم اُنھیں عطا کریں گے۔ (اور) وہاں وہ آپس میں (بطورِ خوش طبعی کے) جامِ شراب میں چھینا جھپٹی بھی کریں گے اس میں نہ بکنا ہوگا اور نہ کوئی گناہ کی بات اور نوجوان خدمت گار جو ایسے ہوں گے جیسے چھپائے ہوئے موتی اُن کے آس پاس پھریں گے’’۔ (الطور ۱۷:۲۴)
۷۔ ‘‘اور جو آگے بڑھنے والے ہیں (ان کا کیا کہنا) وہ آگے بڑھنے والے ہیں وہی (خدا کے) مقرب ہیں۔ نعمتوں کی بہشتوں میں ۔وہ بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہوں گے اور تھوڑے سے پچھلوں میں سے (لعل و یاقوت وغیرہ سے) جڑے تختوں پر آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے’ نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ (ایک ہی حالت میں) رہیں گے ان کے آس پاس پھریں گے یعنی آبخورے اور آفتابے اور صاف شراب کے گلاس لے لے کر۔ اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں گی’ اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں گے’ اور پرندوں کا گوشت جس قسم کا ان کا جی چاہے۔ اور بڑی آنکھوں والی حوریں’ جیسے (حفاظت سے) تہ کیے ہوئے (آبدار) موتی’ یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ’ ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا) اور داہنے ہاتھ والے (سبحان اللہ) داہنے والے کیا ہی (عیش میں) ہیں (یعنی) بے خار کی بیریوں اور تہ بہ تہ کیلوں اور لمبے لمبے سایوں اور پانی کے جھرنوں اور میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں جو نہ کبھی ختم ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے ’ اور اُونچے اُونچے فرشوں میں۔ ہم نے ان حوروں کو پیدا کیا تو ان کو کنواریاں بنایا۔ (اور شوہروں کی) پیاریاں اور ہم عمر داہنے ہاتھ والوں کے لیے (یہ) بہت سے اگلے لوگوں میں سے ہیں اور بہت سے پچھلوں میں سے’’۔ (الواقعہ ۱۰:۴۰)
۸- ‘‘سو کسی شخص کو خبر نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں (یعنی نیک لوگوں) کے لیے خزانۂ غیب میں موجود ہے’’۔ (السجدہ ۳۲:۱۷)
جنت احادیث نبویؐ کی روشنی میں
نبی ﷺ نے فرمایا:
۱- ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور کسی کان نے نہیں سنا اور کسی انسان کے دل میں اس کا خیال نہیں گزرا’’۔ (مسلم)
۲- ‘‘جو گروہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگا اس کے افراد (سر سے پاؤں تک روشنی’ سفیدی اور خوبصورتی میں) چودھویں کے چاند کی طرح ہوں گے انھیں تھوک نہیں آئے گانہ ناک اور قضائے حاجت کی نوبت آئے گی۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے چاندی کی ہوں گی ان کی دھونیاں عود کی ہوں گی۔ اور ان کے پسینے سے مشک کی خوشبو آئے گی’’۔ (ترمذی)
۳- ‘‘جنت کے دو باغ ایسے ہیں کہ ان کی ہر چیز چاندی کی ہے یہاں تک کہ برتن بھی چاندی کے ہیں اور دو باغ ایسے ہیں کہ ان کی ہر چیز سونے کی ہے یہاں تک کہ ان کے برتن بھی سونے کے ہیں’’۔ (مسلم)
۴- ‘‘جنت میں لوگ ہر جمعہ کو ایک بازار میں آئیں گے تو شمال سے ایسی ہوا چلے گی جو ان کے چہرے (یعنی سارے بدن) اور لباس پر مشک اور دوسری خوشبوئیں بکھیر دے گی اس سے ان کا حسن و جمال بڑھ جائے گا (بازار سے فارغ ہوکر) وہ گھر لوٹیں گے تو اپنے گھر والوں کو پہلے سے زیادہ حسین جمیل پائیں گے گھر والے ان سے کہیں گے خدا کی قسم! اب تم پہلے سے زیادہ حسین اور خوبصورت لگتے ہو۔ وہ ان سے کہیں گے خدا کی قسم! ہمارے جانے کے بعد تمھارے حسن و جمال نے بھی تو بہت ترقی کی ہے’’۔ (مسلم)
۵- ‘‘اگر اہل جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانکے تو ان دونوں کے درمیان (یعنی جنت سے لے کر زمین تک) روشنی ہی روشنی ہوجائے۔ اور مہک اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے سر کی صرف اُوڑھنی بھی دُنیا و مافیہا سے بہتر ہے’’ (بخاری)
۶- ‘‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا جنت میں جنتیوں کو مخاطب کر کے پکارے گا کہ یہاں صحت ہی تمھارا حق ہے اور تندرستی ہی تمھارے لیے مقدر ہے اس لیے اب تمھیں کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا اور تمھارے واسطے یہاں چین اور عیش ہی ہے ۔اب کبھی تمھیں کوئی تنگی تکلیف نہ ہوگی’’۔ (مسلم)
۷- ‘‘جنت کی تعمیر اس طرح ہے کہ ایک اینٹ سونے کی’ اور ایک اینٹ چاندی کی اور اس کا مسالہ (جس سے اینٹوں کو جوڑا گیا ہے) تیز خوشبو دار مشک ہے۔ اور وہاں کے سنگریزے جو بچھے ہوئے ہیں وہ موتی اور یاقوت ہیں اور وہاں کی خاک گویا زعفران ہے۔ جو لوگ اس جنت میں پہنچیں گے ہمیشہ عیش اور چین سے رہیں گے اور کوئی تنگی’ تکلیف ان کو نہ ہوگی۔ اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہاں ان کو موت نہیں آئے گی اور کبھی ان کے کپڑے پرانے اور خستہ نہ ہوں گے اور ان کی جوانی کبھی زائل نہ ہوگی’’۔ (ترمذی)
۸- ‘‘سب سے کم اور نچلا درجہ جس جنتی کا ہوگا اور جس کے بعد کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا اس کی نگاہ سو سال کی مسافت تک جاتی ہوگی۔ جہاں تک اس کی نگاہ جائے گی وہاں اسے ڈیرے اور خیمے ہی نظرآئیں گے جو موتیوں اور دوسرے سازوسامان سے لدے پڑے ہوں گے’’۔
۹- ‘‘جنت کی چیزوں میں سے ایک ناخن کے برابر کوئی چیز ظاہر ہوجائے تو زمین اور آسمان کے کناروں کے درمیان جو کچھ ہے اسے چمکا دے۔ اگر ایک جنتی مرد اپنے کنگن سمیت دُنیا میں جھانکے تو سورج کی روشنی کو اس طرح ختم کردے جس طرح سورج کی روشنی تاروں کی روشنی کو ختم کر دیتی ہے’’۔ (ترمذی)
۱۰- ‘‘جنت میں ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں اس کا پانی موتی اور یاقوت پر بہتا ہے۔ اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے’’۔ (ترمذی)
۱۱- ‘‘جنت میں سو درجے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ سب سے اعلیٰ ترین درجہ کا نام فردوس ہے جب بھی اللہ تعالیٰ سے (جنت کا) سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو’’۔ (ترمذی)
دِیدار رَب
جو بندہ اپنے خالق اور رب کی بے شمار نعمتیں اس دُنیا میں پا رہا ہے اور پھر جنت میں پہنچ کر اس سے بھی زیادہ بہترین نعمتیں پائے گا لازماً اُس کے دل میں تڑپ پیدا ہوگی کہ کسی طرح اپنے اس محسن اور کریم ربّ کو دیکھ پاتا جس نے اسے وجود بخشا اور اس پر اس طرح نعمتیں انڈیل رہا ہے اور جو ایسی حسین دُنیا کا خالق ہے۔ جس نے سورج کو چمکایا’ تاروں کی محفل سجائی جو درختوں کی سرسبزی’ پھولوں کی رنگینی و مہک کا خالق ہے۔ ایسا خدا کیسا عظیم اور کیسا حسین ہوگا اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ پس اگر اسے کبھی بھی یہ نظارہ نصیب نہ ہو تو یقینا اس کی لذت و مسرت اور اس کے عیش میں بڑی کمی رہے گی اور اللہ تعالیٰ جس بندہ سے راضی ہوکر اس کو جنت میں پہنچائیں گے اس کو ہرگز اس سے محروم نہیں رکھیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرمائیں گے: کیا تم چاہتے ہو میں تم کو ایک چیز مزید عطا کروں؟ (یعنی جو کچھ تم کو اب تک عطا ہوا’ اس سے مزید اور اس سے بہتر ایک خاص چیز اور عنایت کروں) وہ بندے عرض کریں گے آپ نے ہمارے چہرے روشن کیے (یعنی کامیابی اور خوبصورتی عطا فرمائی) اور دوزخ سے بچاکر جنت میں داخل کیا (اب اُس کے آگے اور کیا چیز ہوسکتی ہے جس کی ہم خواہش کریں گے) اِن بندوں کے اِس جواب کے بعد یکایک حجاب اُٹھ جائے گا (یعنی اُن کی آنکھوں سے پردہ اُٹھا دیا جائے گا) پس وہ رُوئے حق اور جمالِ الٰہی کو بے پردہ دیکھیں گے پس اُن کا حال یہ ہوگا (اور وہ یہ محسوس کریں گے) کہ جو کچھ اب تک اُنھیں ملا تھا اِس سب سے زیادہ محبوب اور پیاری چیز اُن کے لیے دیدار کی نعمت ہے’’۔ (مسلم)
جنت کیسے حاصل ہوگی؟
جنت کا حال اور وہاں کی نعمتوں کی کچھ تفصیل آپ نے پڑھی۔ یقینا وہاں رہنے کو دل بھی چاہتا ہوگا۔ بارہا آپ نے جنت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی ہوگی اور بلاشبہ ہر مسلمان کے دل میں جنت کا شوق اور وہاں جگہ ملنے کی تڑپ بھی ضرورہے۔ لیکن طلب اور ذوق و شوق کے ساتھ اعمال صالح کی پونجی کا اہتمام کرنا بھی لازم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا’’۔ (العنکبوت: ۲۹)
اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘میری تمام اُمت جنت میں داخل ہوگی مگر جس نے انکار کیا (وہ جنت میں داخل نہ ہوگا)۔ پوچھا گیا: یارسولؐ اللہ! کس نے انکار کیا؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا’’۔ (بخاری)
لہٰذا ایسی قیمتی جنت کسی کو سستے داموں نہیں مل سکتی۔ یہ تو اس خوش نصیب کا حصہ ہے جو حقیقی معنوں میں خدا کا مومن بندہ ہونے کا ثبوت دے۔ مومن ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اپنی عام زندگی کے ساتھ کچھ اسلامی تعلیمات کا جوڑ لگا لے۔ مومن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ہی آدمی کی پوری زندگی بن جائے۔
موجودہ دُنیا وہ مقام ہے جہاں جنتی دُنیا کے شہریوں کاانتخاب ہو رہا ہے ۔ امتحان کی مصلحت کی بناء پر موجودہ دُنیا میں آدمی کو اختیار دیا گیا ہے۔ وہ آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔ مگر یہ آزادی برائے آزمائش ہے نہ کہ برائے انعام۔ جو لوگ آزاد ہونے کے بعد بھی اپنے آپ کو اللہ کا فرمانبردار بنائیں گے اورجو مجبور نہ ہوتے ہوئے بھی اللہ کی مرضی کو اپنے اُوپر طاری کریں گے، وہی اللہ کے نزدیک اس قابل ٹھہریں گے کہ وہ اللہ کی جنتی دُنیا کے باسی بن سکیں۔ جو شخص آزادی پاکر سرکشی کرے، اپنے بنائے ہوئے طریقوں پر چلے وہ خدا کی نظر میں مجرم ہے آخرت کی نعمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
جنت کی قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے جو شخص اپنے وجود کو اللہ کے لیے قربان کرے گا وہی جنت کو پائے گا۔ وجود کی قربانی دیئے بغیر جنت کا حصول ممکن نہیں۔ ہر آدمی کی زندگی میں اکثر ایسا لمحہ آتا ہے جب کہ خدا کا دین اس سے کسی قسم کی قربانی مانگتا ہے۔ نفس کی قربانی’ جذبات کی قربانی’ مال کی قربانی’وقت کی قربانی، زندگی کی قربانی۔ ایسے مواقع پر جو شخص مطلوبہ قربانی پیش کردے وہ خدا کے انعام کا مستحق ہوگیا۔ جو شخص ہچکچا کر رک گیا وہ خدا کی نعمتوں سے محروم ہوگیا۔
جنت جھوٹی تمناؤں سے ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے حق دار وہی ٹھہریں گے جو اس کے حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو ہرقسم کی گندگیوں سے خواہ وہ فکری و نظری ہوں یا عملی و اخلاقی’ پاک کرنے کی جدوجہد کریں گے۔ ہر ایک جانتا ہے کہ غلام کی قدروقیمت کا انحصار اس کی خدمت پر ہے لیکن خود اپنے معاملے میں وہ اس حقیقت کو فراموش کرجاتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ جس رب کا غلام ہے حکم تو اس کا ایک نہ مانے لیکن انعام دُنیا اور آخرت دونوں میں سب سے بڑھ کر پائے۔ ساتھ ہی انسان انھی غلاموں کی قدر کرتا ہے جو قابلِ قدر خدمات انجام دیتے ہیں لیکن اپنے مالک اور رب کے متعلق یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کے ہاں نیکوکار اور بدکار میں کوئی فرق نہیں۔ اس نے ان کے ساتھ جو معاملہ دُنیا میں کیا ہے اس سے بہتر معاملہ آخرت میں کرے گا خواہ اس کے ایک حکم کی بھی تعمیل نہ کرے اور ساری زندگی اپنے نفس کی غلامی میں گزار دے۔
ہر وہ آدمی جو اپنے رب کے یہاں اس حال میں پہنچنا چاہتا ہو کہ اس کا رب اس سے راضی ہو اور اس کو نعمتوں بھری جنت میں داخل کرے اس کے لیے ایک ہی راہ ہے اور وہ راہ قرآن ہے جس کے ذریعے وہ اللہ کا حکم معلوم کرے اور پھر پیغمبرکی زندگی میں اس حکم کا عملی نمونہ دیکھے اور ان دونوں چیزوں کی روشنی میں زندگی گزارے۔ اس کے سوا جتنی صورتیں ہیں سب بھٹکنے کی صورتیں ہیں نجات کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں۔
نادان ہیں وہ لوگ جو جنت کی تمنا کرتے ہیں مگر گناہوں میں لت پت ہیں اور اعمال صالحہ کے سرمایہ سے غافل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور اس کے عوض ان کے لیے بہشت تیار کی ہے ’’ (توبہ ۹:۱۱۱)
جب جان اور مال خدا کو بیچ دیئے تو ان پر اب اپنا کیا اختیار۔ اب تو مالک کی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے تب ہی جنت ملے گی۔ جنت ان کے لیے نہیں ہے جن کو نماز کے لیے موذن پکارے تو وہ سوتے رہ جائیں یا کاروبار پر نماز کو قربان کرڈالیں۔ زکوٰۃ کا وقت آئے تو جی چرانے لگیں’ رمضان آئے تو روزے بھول جائیں۔ حج فرض ہو تو مال کی محبت میں حج کیے بغیر مرجائیں۔ کاروبار میں حرام و حلال کا ذرا خیال نہ کریں۔ لوگوں کا مال اور حقوق دبانے کو کمال جانیں۔ قرآن و حدیث پر کوئی توجہ نہ دیں۔ ضیعفوں پر ظلم کریں۔ رشوتوں کے لین دین کو عین حق جانیں۔ یتیموں کا مال کھا جائیں اور میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کریں۔ نوافل کی ادائیگی سے گھبرائیں اور ذکراللہ سے گریز کریں۔ پھر بھی جنت کے بلند درجات کی تمنا کریں۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے۔ جنت حاصل کرنے کے لیے نفس کو قابو کرنا پڑتا ہے۔ شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں جو نفس کو ناگواری ہوتی ہے اسے سہنا پڑتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘دوزخ کو خواہشوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو ناگواریوں سے ’’۔ (مسلم)
‘‘ہوشیار وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو پالے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں کے پیچھے لگائے رہے اور بغیر عمل کے اللہ سے اُمید رکھے’’۔ (ترمذی)
جسے دوزخ سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کا فکر ہوگا وہ دُنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دے گا اور جان و مال کو جنت کے مقابلہ میں عزیز نہ جانے گا۔ جتنی نیکیاں کرے گا کم سمجھے گا ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘دوزخ جیسی چیز میں نے نہیں دیکھی جس کے (عذاب و مصیبت سے) بھاگ کر بچنے والا سو رہے (اسی طرح) جنت جیسی رغبت اور لذت کی چیز میں نے نہیں دیکھی جس کا طلب گار سوتا رہے’’۔ (ترمذی)
کتنے ہی لوگ ہیں جو نماز کے لیے صبح نہیں اٹھتے لیکن چند روپوں کی خاطر تمام رات جاگ کر گزار دیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:‘‘اہلِ جنت کو کسی چیز پر اتنی حسرت نہیں ہوگی جتنی اس لمحہ پر جو دُنیا میں اللہ کی یاد کے بغیر گزر گیا’’۔ (طبرانی)
آپ کو زندگی کے صرف چند سال حاصل ہیں ان میں آپ اپنے لیے ناقابل تصور مستقبل تعمیر کرسکتے ہیں۔ دوسری صورت میں روزِ قیامت آدمی کے سامنے عالیشان مواقع ہوں گے مگر وہ ان سے محروم رہے گا کیونکہ اس نے ان کے لیے دُنیا میں تیاری نہیں کی ہو گی۔
آپ دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں صرف وہی شخص کوئی مقام پاتا ہے جس نے اس کے لیے بے پناہ جدوجہد کی ہو۔ ٹھیک اسی طرح آخرت کے درجات عالیہ بھی وہی لوگ پائیں گے جنھوں نے اپنے آپ کو اس کے لیے کھپا دیا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘یہ بے شک بڑی کامیابی ہے ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے’’۔ (مطففین ۸۳:۲۶)
آخری بات
قرآن حکیم اور احادیث رسولؐ میں جنت کی جو تفصیلات دی گئی ہیں ان کا مطالعہ کرنے سے تصور کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسی دلفریب سرزمین آجاتی ہے جہاں راحت اور سکون ہی سکون ہے ایک ابدی زندگی جس کو نہ کسی موت پر ختم ہونا ہے اور نہ کسی غم کے کانٹے سے اُلجھنا ہے۔جہاں دکھوں کے نشتر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ایسی سرزمین جس میں خونریز جنگیں اور ان کی ہولناکیاں نہیں ہوتیں’ جہاں بیماریوں اور بے روزگاریوں کی اذیتیں پاگل نہیں کرتیں’ جہاں انسان ایک دوسرے سے کینہ و بغض نہیں رکھتے’ فریب نہیں دیتے ایک دوسرے کی نیتوں پر حملے نہیں کرتے’ گلے نہیں کاٹتے۔ جہاں نسلوں’ رنگوں اور زبانوں کی بنا پر خون کی ندیاں نہیں بہائی جاتیں۔ جہاں ‘‘کل کیا ہوگا’’ کا خدشہ راتوں کی نیند حرام نہیں کرتا۔ وہ سرزمین کتنی خوبصورت’ کتنی مقدس’ کتنی ارفع اور کتنی دلفریب ہوگی۔ خوش بخت ہے وہ انسان جو وہاں پہنچ جائے۔
آخرت کی زندگی کی یہ خوبی کہ وہ دائمی ہوگی بڑی ہی اہم ہے۔ اگر موجودہ مختصر سی زندگی میں نیکی’ صبر’ دیانت داری’ فرض شناسی اور اطاعت خدا و رسولؐ اختیار کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی خوشگوار زندگی مل جاتی ہے جس کی ابتدا تو ہے لیکن انتہا نہیں ہے تو پھر کس قدر نفع کا سودا ہے اور کتنا نادان ہے وہ ،جو یہ سودا کرنے سے سستی برتے یا سرے سے اسے نفع کا سودا سمجھنے ہی سے انکار کر دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں درست راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭