قیام پاکستان کے پس منظر میں ایک دل گداز آپ بیتی۔ چشم دید واقعات ۔ حقیقی تاریخ کا بیان
پیش نامہ
ایک بیوہ ماں جب اپنے اکلوتے جوان بیٹے کی لاش پر ماتم کرتی ہے تووہ یہ نہیں جانتی اور نہ جاننا چاہتی ہے کہ ادب کیا ہوتا ہے ، شاعری کسے کہتے ہیں اور خطابت کس فن کا نام ہے ؟ لیکن اس کے باوجود اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ ادب کی جان ہوتے ہیں ، شاعری کی روح ہوتے ہیں اور خطابت ان پر قربان ہوتی ہے ۔
یہی اور بالکل یہی کیفیت ان الفاظ کی ہے جن میں ماسٹر تاج الدین نے مشرقی پنجاب کی ہولناک تاریخ میں لدھیانہ اور امرت سر کے بازاروں ، سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے ہو کر پہلے اپنے صفحہ دماغ پر خود بخودابھرتے ہوئے محسوس کیا اور جو اب صفحہ کاغذ پر سیاہ روشنائی کی صورت میں آپ کے سامنے ہیں ۔
ماسٹر صاحب نے ان اوراق کو ‘‘آپ بیتی’’ کا نام دیا ہے لیکن حقیقت میں یہ ‘‘آپ بیتی’’ نہیں ، قاتل کے حملوں سے گھائل ہونے والی ایک ایسی سسکتی ہوئی روح کی بے ساختہ پکار ہے جس میں نہ کہی ہوئی باتیں ، کہی ہوئی باتوں سے زیادہ ہوتی ہیں ،یہ ‘‘آپ بیتی’’ نہیں ، ان لاکھوں بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کی زبان بے زبانی کی تڑپتی ہوئی فریاد ہے ، جو لدھیانہ اور امرتسر میں سسک سسک کر دم توڑ گئے ، بھرے گھروں سے نکالے گئے اور بیدردی سے لوٹے گئے ۔
ماسٹر تاج الدین کی یہ ‘‘آپ بیتی’’ ان واقعات کی تفصیل نہیں ہے جو خود ان کی ذات پر بیتے ، یعنی ان مظالم کی داستان نہیں ہے جو ان کی جان پر توڑے گئے ، بلکہ اپنے ان لاکھوں بھائیوں کی داستان مظلومی ہے جن کی خاطر ماسٹر صاحب اس وقت لدھیانہ اور امرتسر کے خون آلود گلی کوچوں میں گشت کرتے رہے جب تک کہ انہیں ایک ایک کر کے پاکستان نہ بھیج دیا۔ حالات کی یہ ستم ظریفی بھی کتنی عجیب ہے کہ ٹھیک اس وقت جب آگ اور خون کی ہولناک بارش سے بدحواس ہو کر ہر شخص پر نفسی نفسی کی کیفیت طاری تھی اور بڑے بڑے سورما دوسروں سے منہ موڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے ، امرتسر سے لیکر لدھیانہ تک صرف ماسٹر صاحب کی ذات وہ تنہا ذات تھی جو اپنی جان سے بے پروا ہو کر دیوانہ وار ادھر ادھر دوڑ رہی تھی ، اور پروانہ وار اپنے بھائیوں پر نثار ہو رہی تھی۔ جب گولیوں کی بوچھاڑ اور تلواروں کی جھنکار کی آواز سن کر بڑے بڑے مدعیان قیادت اپنی جان کو لیکر بھاگ کھڑے ہوئے تھے ، عین اس وقت ماسٹر صاحب اس ہنگامہ محشر سے دور بھاگنے کے بجائے اسی کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ بندوق کی گولیاں ان کے پاس سے گزر رہی تھیں ، اوپر سے اینٹوں کا مینہ برس رہا تھا اور لوگ چیخ رہے تھے ، ماسٹر جی ، ماسٹر جی ، بھاگو ، ورنہ جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، لیکن ماسٹر جی ایک ایسے دیوانے کی طرح جسے اپنی جان سے زیادہ اپنے عزیزوں اور بھائیوں کی جان پیاری ہوتی ہے ، بیچ محشر میں کھڑے دوسروں کی عافیت کا بندوبست کر رہے تھے ۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ ان کی جان بچ گئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اگست سے لے کر اکتوبر تک مشرقی پنجاب کے میدانوں میں ایک بار بھی اپنی جان بچانے کی پروا نہ کی ، اور اس وقت تک اس حشر آفریں سرزمین سے قدم نہ اٹھایا جب تک کہ ایک مسلمان بھی وہاں موجود رہا ۔
ایک چھریرے جسم کا پتلا دبلا انسان جس کی داڑھی کے سفید بال اس کی عمر اور ضعف کا پتا دیتے ہیں ، ایک ایسے محشر ستان میں یوں دیوانہ وار پھرے اور پھر جب خدا کی قدرت سے زندہ وسلامت لاہور پہنچ جائے ، تب بھی اس خدمت کا کوئی صلہ نہ مانگے ، نہ الاٹمنٹ کی درخواست، نہ نقصانات کے معاوضہ کا مطالبہ اور کرے تو یہ کرے کہ خاموشی کے ساتھ ایک گوشہ میں بیٹھ کر اپنے ان خونی مشاہدات کو دل کے آنسوؤں سے کاغذ پر رقم کرنے بیٹھ جائے ۔ اللہ اکبر! اگر یہ انسان ہے تو پھر فرشتہ کسے کہتے ہیں ؟
میں نہیں جانتا کہ میرے دل میں گداز ہے یا نہیں ، البتہ اتنا جانتا ہوں کہ کسی سخت سے سخت المناک سانحہ کے موقع پر بھی عموماً میرے آنسو مجھ سے دھوکا کرتے ہیں ، اور ایسا بہت کم ہوا ہے جب کسی حادثہ نے میرے دل کی کیفیت کو آنکھوں سے ظاہر کیا ہو ، لیکن ماسٹر صاحب کے یہ اوراق جن میں شاید رلانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے ، مجھے رلائے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں ، جس میں لکھنے والا اپنے تخیل کے زور سے المناک واقعات کو جمع کرتا ہے ، لیکن اس کے باوجود لاکھوں المناک افسانے ان اوراق کے آگے ہیچ ہیں ۔ ماسٹر جی نے عبارت آرائی یا انشا پردازی کی کوشش کہیں نہیں کی ، لیکن دل کے سچے جذبات کی سچی ترجمانی اور واقعات کی حقیقی تصویر کی حقیقی عکاسی نے ان کے الفاظ میں وہ بے ساختہ پن پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے ہزار عبارت آرائیوں اور لاکھ انشا پردازیوں کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔
آخر میں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ ماسٹر تاج الدین کا شمار ان بزرگوں میں ہے جو ہندو مسلم اتحاد کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے اور اسی بنا پر غیروں سے زیادہ اپنوں کے مطعون بنے رہے ، اس لیے آج ہندو سکھوں کی درندگی کی جو عینی شہادت ان کے قلم سے آپ کے سامنے ہے ، وہ ایک ایسی قیمتی دستاویز ہے جسے وقت کا مورخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا ۔
ان سطور کو ان اوراق یا ان اوراق کے مصنف کا تعارف نہ سمجھیے ، یہ صرف میرے جذبہ استعجاب کی ایک جھلک ہیں ، ورنہ اصل تعارف تو خود اصل اوراق ہیں ، آفتاب کا تعارف خود آفتاب ہی ہوا کرتا ہے ۔ابو سعید بزمی مدیرروزنامہ‘‘احسان’’لاہور
قسط ۔۳
تیسرے دن پھر وہی حادثہ
لاشیں دفنانے کے بعد دو دن تک ہمارے دلوں پر غم کے بادل چھائے رہے، ہمیں سکھ قوم کی بربریت پر غصہ آتا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا کہ ان گاڑیوں کی جن میں تباہ حال مسلمان سوار ہو کر آتے ہیں باقاعدہ حفاطت کیوں نہیں ہوتی، ان کے ہمراہ فوج کیوں نہیں آتی، کن ارمانوں سے یہ لوگ پاکستان کی طرف سفر کرتے ہیں، اور کس بے دردی سے انھیں بے کسی کی موت مرنا پڑتا ہے۔
میں لاچار تھا اور اس بارے میں کچھ بھی نہ کر سکتا تھا، یہ کام حکومت کا تھا، تاہم میں نے کرنل سے شکایت کی اور کہا:‘‘جو فوجی گاڑی کے ہمراہ تھے وہ کیا کرتے رہے،ہمارے سینکڑوں مسلمان بھائیوں کو مارنے والوں میں سے کتنے مرے اور اگر ان لوگوں نے ان بلوائیوں پر فائر نہیں کیے، تو یہ عجیب تماشا ہے کہ فوج کی ہمراہی کے باوجود مسافروں کو بے دریغ تہ تیغ کیا جاتا ہو۔’’کرنل نے بات سنی اور ماتھے پر شکن ڈال لی، تیسرے ہی دن رات کو بارہ بجے کے بعد دو تین میل کے فاصلہ سے چیخ وپکار کی آوازیں سنائی دیں، لوگ سو رہے تھے مگر میں جاگ رہا تھا، کافی دیر درد ناک چیخیں سنائی دیتی رہیں، مگر یہ اندوہناک آوازیں ہمارے کیمپ سے دوسری جانب شہر کے اس پار سے آرہی تھیں، مجھے یہ گمان گزرا کہ سکھوں نے ہندوؤں پر حملہ کر دیا ہو گا، اب اس قوم کو خون کی چاٹ پڑ گئی ہے، ہندوؤں پر دھاوا بول دیا ہو گا، تاکہ انھیں لوٹ کر ان کی عورتوں کو اٹھا لے جائیں۔بہر حال کافی دیر طبیعت پریشان رہی، پھر خاموشی اور سناٹا چھا گیا، رات نے پھر موت کا سا سکوت طاری کر دیا، صبح اٹھ کر کیمپ کے کام میں اس درجہ مصروف ہوا کہ رات کی بات بھول گئی۔صبح آٹھ بجے کے قریب ایک دس سال کا مسلمان لڑکا برہنہ سر، چہرہ اداس، کیمپ میں پہنچا، وہ سلیس اردو بول رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا، ‘‘کہاں سے آرہے ہو؟’’ اس بچے نے جواب دیا، ‘‘دہلی سے چلا تھا، گاڑی لدھیانہ سے کچھ فاصلہ پر تھی کہ اسے سکھوں نے روک لیا، چند سکھ ہمارے ڈبہ میں تلواریں سونت کر آدھمکے، سب سے پہلے انھوں نے میری دادی اماں کو مارا، ‘‘اف میرے اللہ۔’’ یہ کہا اور آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے، نو عمر لڑکا سہما ہوا تھا، ہم نے تسلی دی اور اسے چائے وغیرہ پلا کر داستان غم سنی، وہ بتانے لگا۔ ‘‘اس کے ہمراہ سارا خاندان تھا، اس کے والد، چچا ان کی بیویاں ، بچے وغیرہ۔’’ جب ہم نے پوچھا تم کیسے بچ گئے؟ اس نے کہا:‘‘مجھے اٹھا کر ایک شخص نے کھڑکی میں سے باہر پھینک دیا، لمبی لمبی گھاس پر گرا، مجھے مطلق چوٹ نہ آئی، اٹھا اور اٹھ کر بھاگا، چاندنی رات تھی، لائن کی پٹری پر چلتے چلتے تھک گیا، ایک جگہ کچھ روشنی نظر آئی، میں پٹری سے نیچے اترا اور روشنی کی جانب چل دیا، راستہ میں قبریں تھیں شاید میں قبرستان میں سے گزر رہا تھا، مجھے ڈر تو بہت محسوس ہوا، اور جب سکھوں کی مکروہ صورتوں کا تصور آتا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے، گرتا پڑتا روشنی کے پاس پہنچا، وہاں ایک فقیر دھونی رمائے بیٹھا تھا، اس نے پوچھا اس وقت کہاں سے آئے ہو، میں نے ماجرا سنایا، فقیر نے مجھے تسلی دے کر پاس بٹھا لیا۔ ابھی پو پھٹنے والی تھی کہ میں وہاں سے چل پڑا۔ جب شہر کے قریب پہنچا تو ایک سکھ ہاتھ میں کرپان لیے مسواک کرتا چلا آرہا تھا، میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ جونہی میں سہم کر کھڑا ہوا اس نے میری طرف نگاہ ڈالی اور نہایت بھدی زبان میں مجھ سے کچھ پوچھنے لگا۔ ابھی وہ مجھ سے بات کر ہی رہا تھا کہ ایک ہندو ادھر آنکلا، وہ بھی میرے پاس آگیا، میں چپ تھا اور کوئی جواب نہ دیتا تھا، سکھ نے کہا، اچھا اس کا پاجامہ کھول کر دیکھو، کہ مسلمان ہے یا ہندو۔ میں نے خدا کا واسطہ دیا، سکھ نے کرپان پر ہاتھ رکھ کر کہا، لو بھئی یہ تو مسلمان ہے خدا کا نام لے رہا ہے۔ صبح صبح شکار مل گیا، جوں ہی اس نے کرپان نکالی ہندو نوجوان بیچ میں آگیا، کہنے لگا بچہ ہے اسے مارنا اچھا نہیں سکھ نہ مانتا تھا مگر اس ہندو نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بھاگ جانے کو کہا، اور خود سکھ کو روک کر کھڑا ہو گیا، میں سر پاؤں رکھ کر بھاگا اور سٹیشن سے ہوتا ہوا کیمپ تک پہنچا ہوں۔
لڑکا بہت ہی ہوشیار تھا، مگر وہ بار بار اپنے عزیزوں کو یاد کر کے آہیں بھرتا تھا، میں نے اس واقعہ پر پھر احتجاج کیا، کیونکہ اس کی زبانی معلوم ہوا کہ فوجی سپاہی جو بطور محافظ گاڑی کے ہمراہ تھے نہایت آرام سے کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، مجھے بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کرنل نے ان فوجیوں کے خلاف تحقیقات کے لیے رپورٹ کر دی ہے۔
ایک مسلمان لڑکی کی جرأت
ہمارا کیمپ ریلوے لائن کے ساتھ میلوں تک پھیلا ہوا تھا، ہندو پناہ گزینوں کی گاڑیاں ہمارے پاس سے گزر رہی تھیں، کبھی کبھی وہ شرارت بھی کرتے تھے۔ ایک روز سکھ پناہ گزینوں کی گاڑی گزر رہی تھی کہ چلتی ہوئی گاڑی میں سے ایک نوجوان لڑکی نے ہمارے کیمپ کے سامنے آکر چھلانگ لگا دی۔ خدا کی قدرت اس لڑکی کہیں خراش تک نہ آئی۔ یہ مسلمان لڑکی نہایت نیک اور شریف تھی۔ اس نے بتایا کہ سکھوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کر کے مجھے اغوا کر لیا، اور گاڑی میں سوار کر کے جبراً بنالہ کی طرف لے جا رہے تھے، میں نے دور سے دیکھا کہ مسلمانوں کا کیمپ ہے، اللہ کا نام لیا اور کود پڑی، میں خود بھی حیران ہوں کہ مجھے کس فرشتے نے سہارا دے کر زمین پر آرام سے کھڑا کر دیا۔
جب یہ لڑکی لاوارث عورتوں کے مکان میں داخل کی گئی تو اس نے سب سے پہلے یہ مطالبہ کیا کہ اسے قرآن پاک کی ضرورت ہے۔ وہ نیک لڑکی سارا دن قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی، کبھی کبھی روتی بھی تھی، پانچ وقت نماز ادا کرتی تھی، ہم نے اسے لاوارث عورتوں کے ہمراہ لاہور بھجوا دیا تھا، اب خدا جانے کہاں ہے۔
بھنگیوں کے گھر میں اسلام کی بیٹیاں
شہر لدھیانہ میں چند ہندو کانگرسی ایسے بھی تھے جن سے ہمارے دوستانہ تعلقات تھے، ان میں سے ایک دوست اہم معلومات بہم پہنچاتا رہا اور بعض اوقات ہمیں بروقت خبر دار کر کے ہمارے کیمپ کو سکھوں کی دستبر سے بچا لیا۔ ایک روز یہ مخلص دوست ہانپتا کانپتا آیا اور مجھے الگ بلا کر بتایا کہ آٹھ دس مسلمان عورتیں اور بچے بھنگیوں کے قبضہ میں ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مسلمان عورتیں اور بچے شہر کے بھنگیوں کے قبضے میں کیسے آگئے۔ تھوڑی دیرمیں قدرت نے خود امداد کی۔ ایک مسلمان عورت بچے کو گود میں اٹھائے ہوئے لوگوں سے پوچھنے لگی کہ مسلمانوں کا دفتر کہاں ہے؟ مجھے کسی ذمہ دار سے بہت جلد بات کرنا ہے، عورت مذکور کو میرے پاس پہنچا دیا گیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح دیہاتی مسلمانوں کا ایک خاندان بھنگیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک گاؤں سے سکھوں نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو لدھیانہ شہر کے سکھ محلہ میں پہنچایا۔ اس محلے کے سکھوں نے میلے کچیلے کپڑے والی مسلمان عورتوں کو دیکھا تو انھیں شک ہوا کہ یہ بھنگی ہیں۔ ایک عورت نے سکھوں کو اس قسم کے شک کا اظہار کرتے سنا تو اس نے اپنی دانست میں ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے سکھوں کو کہہ دیا کہ ہم بھنگی ہیں۔ سکھوں نے فوراً سڑک پر سے بھنگی کو بلایا اور عورتیں اور بچے اس کے حوالے کر دیے۔ راستہ میں جب وہ بھنگی ان مسلمان عورتوں اور بچوں کو لے جا رہا تھا تو اس عورت نے بھنگی سے پوچھا کہ اس شہر میں مسلمان آباد ہوں گے؟ بھنگی نے جواب دیا، اب کہاں وہ تو سب شہر کے باہر دریا کے کنارے کیمپ میں پڑے ہیں، شہر میں کوئی مسلمان نہیں رہا۔ مسلمان عورتوں کو اس کے حوالے کر کے یہ عورت اطلاع دینے نکلی اور کھیتوں میں سے ہوتی ہوئی دریا کے کنارے ہمارے کیمپ میں پہنچ گئی۔میں اس تمام واقعہ سے باخبر ہوا تو مجھے پریشانی نے گھیر لیا، کہ اب کیا بندوبست کروں، سورج غروب ہو چکا، ڈپٹی کمشنر کو اطلاع کروں یا پولیس کی امداد سے ملٹری کو بھجواؤں۔ اسی وقت ایک فوجی نائک سبحان خاں نامی میرے پاس سے گزرا، میں نے اسے آواز دی۔ یہ بہادر اور شریف نوجوان مسکراتا ہوا میرے قریب آیا، کہنے لگا، فرمایے کیا حکم ہے؟ میں نے اسے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سبحان خاں نے مجھے کہا کہ میں اپنے کیمپ کو چھوڑ کر دور چلا گیا اور کمپنی کمانڈر آگیا تو پھر کیا ہو گا؟ میں نے کہا، میں تمھارے بچاؤ کے لیے جھوٹ بولوں گا اور کہہ دوں گا کہ ابھی کیمپ کے اندر گشت کے لیے گیا ہے۔ سبحان خاں کی تسلی ہو گئی، مگر اب یہ مشکل تھی کہ ٹرک یا بڑی جیپ کار کیسے حاصل کی جائے اتفاق سے ایک فوجی کنوائے گزر رہا تھا اسے ٹھہرا لیا، اس کنوائے کے پہلے ٹرک میں فرنٹ سیٹ پر فرنیٹر فورس کے مسلمان کپتان موجود تھے، میں انھیں نہیں جانتا تھا، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مجھے جانتے تھے۔سبحان خاں نے سارا ماجراکہہ سنایا۔ کپتان نے کہا کہ ہم لوگ پہلے ہی بد نام ہیں، اگر وہاں ہنگامہ ہو گیا تو ہم سب دھر لیے جائیں گے۔ مگر تم ایسا کرو کہ تاج صاحب کی خواہش پوری ہو جائے اور مسلمان عورتیں کسی نہ کسی طرح بھنگیوں کے چنگل سے چھڑا لاؤ اور سنو یہ جو کیمپ انچارج ہے اسے معمولی کھدر کے کپڑوں میں دیکھ کر اس کی بات کو ٹال نہ دینا، ہم اسے جانتے ہیں، ہمارے دل میں اس کی بے حد عزت ہے۔
سبحان خاں اپنی ذات سے بہت بھلا نوجوان تھا، وہ کپتان کے کہنے سے میری اور زیادہ عزت کرنے لگا۔ میں نے اس کو کہا کہ بہت بڑی نیکی کا کام کرو گے، اگر رات ہو جانے سے پہلے ان مسلمان عورتوں کو وہاں سے نکال لاؤ ہمت کرو گے تو اللہ امداد کرے گا۔ سبحان خاں نے اس مسلمان عورت کو نشاندہی کے لیے ہمراہ لیا اور دو مسلح فوجی جوانوں کو احتیاطاً ساتھ لے لیا۔
میں دریا کے پل پر بیٹھ گیا، اور دعا مانگنے لگا۔ رات کا اندھیرا زیادہ گہرا ہونے لگا دو گھنٹے گزر گئے مگر سبحان خاں کا کچھ پتا نہ چلا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکن تک سنائی دے رہی تھی، درختوں کے پتے کھڑ کھڑاتے تو میں چونک جاتا۔ بار بار خیال آتا کہ اتنی دیر میں تو سبحان خاں چار دفعہ آجا سکتا تھا، فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہ تھا، اسی امید وبیم میں رات کے ۹ بج گئے۔تھوڑی دیر کمانڈر جو ہندو تھا جیپ کا ر پر گشت کرتا ہوا ادھر نکلا، اسے دیکھ کر میں گھبرا گیا، مگر بہت جلد خود کو سنبھال کر آگے بڑھا، مجھے دیکھتے ہی کمپنی کمانڈر نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور پوچھنے لگا آپ اس وقت ادھر کیسے آگئے؟میں نے شکوہ شکایت کے دفتر کھول دیے اور کہنا شروع کیا کہ آپ کے فوجی افسر کیمپ کی ٹھیک نگرانی نہیں گرتے، ابھی ابھی سبحان خاں نائک سے میری تو تو میں میں ہوئی، میں اسے کہتا تھا کہ سات میل لمبے کیمپ میں تم رات کو کبھی گشت کے لیے نہیں جاتے گرد ونواح سے سکھ آتے اور رات کے وقت مویشی ہانک کر لے جاتے ہیں، اگر گشت باقاعدہ ہوتی رہے تو ہمارا نقصان نہ ہو۔ کپتان صاحب آپ ہی غور فرمائیے کہ میلوں لمبے کیمپ میں آدھ گھنٹے میں گشت کیسے ہو سکتی ہے۔ آپ کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے سبحان خاں گشت کو گیا ہے، مجھے امید ہے وہ دس پندرہ منٹ میں واپس آجائے گا،کپتان کہنے لگا، نہیں تاج صاحب ایسا مت خیال کیجیے، سبحان خاں بڑا ایماندار اور جفاکش نوجوان ہے، وہ تین گھنٹے گشت کر کے واپس آجائے گامیں نے کہا کہ اب آپ بھی یہاں ہیں، میں بھی موجود ہوں، دیکھتے رہیے کہ کیا ہوتا ہے ۔کپتان کہنے لگا کہ میں تو زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا، مجھے تو واپس ہیڈ کوارٹر پہنچنا ہے، آپ دیکھتے رہیے ۔میں خدا سے یہی چاہتا تھا۔ کپتان نے مصافہ کیا اور جیپ کار میں بیٹھ کر چل دیا ، رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت!
دس بجے کے قریب سبحان خاں نے دور سے وسل کیا، میں نے بے تابی سے اٹھ کر سبحان خاں کو پکارا اور پوچھا خیریت ہے؟ اس نے فخریہ لہجہ میں کہاo-k(او۔کے) وہ ذرا قریب آیا تو معلوم ہوا کہ مسلمان خان دان اس کے ہمراہ تھا، وہ ہنستا ہوا میرے سامنے آیا، اور مجھ سے بغل گیر ہو گیا۔
یہ فوجی مسلمان کس قدر نیک جذبہ کے لوگ ہیں، ان کی طبیعتیں کتنی سادہ ہیں اور کس ایمانداری سے خدمت کرتے ہیں، میں نے انھیں ہمیشہ وفا دار اور ہمدرد پایا، مجھے فرنٹیر فورس کے افسروں اور جوانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور کبھی کبھی بلوچ رجمنٹ والوں سے بھی ملاقات ہوئی ہے، میرا تجربہ ہے کہ یہ سب لوگ صاف دل اور سادہ مزاج ہیں۔مسلمانوں کے ہمدرد اور بہت بہادر لوگ ہیں۔ سبحان خاں ‘‘جی، رینیڈر’’ رجمنٹ کا نائک تھا۔ اس رجمنٹ میں ہندو اور مسلمان ملے جلے تھے، اور یہ پہچاننا مشکل تھا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔آخری دنوں میں ہمارے کیمپ کے خاتمہ پر پاکستان آنے والے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہم پر جان چھڑکتے اور رات دن ہمارا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بشیر خان نام ایک سپاہی تھا با لکل نو عمرتھا۔ وہ ڈبل ڈیوٹی دیتا، اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد سیدھا میرے پاس پہنچتا تھا، راشن کی بوریاں اٹھواتا، خود راشن تقسیم کراتا، رات کو بارہ ایک بجے تک کام میں مصروف رہتا اور کبھی تھکنے کا نام نہ لیتا تھا، خدا جانے اب یہ لوگ کس چھاؤنی میں ہیں۔
ایک بہادر لڑکی
میں اور خواجہ محمد اسلم کیمپ میں بیٹھے ماسٹر فتح دین صاحب کی مرتب کردہ اغوا شدہ مسلمان لڑکیوں کی فہرست کا مطالعہ کر رہے تھے، دیکھنا یہ تھا کہ محمد شفیع جس نے دوروز پیشتر اپنی جوان ہمشیرہ کی گمشدگی کی اطلاع لکھوائی ہے، کس گاؤں اور کس تھانہ کے رہنے والے ہیں۔ خواجہ صاحب فرماتے تھے کہ محمدؐ شفیع کسی امیر گھرانے کا چشم وچراغ ہے، بڑا ہی خوبصورت فوجی نوجوان ہے۔ اگر اس کی ہمشیرہ قتل نہ کر دی گئی ہوتو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اسے سکھوں کے قبضہ سے رہائی دلائیں۔ فہرست میں ہمیں محمدؐ شفیع کا نام نظر نہ آیا، ہم مایوس ہو گئے، معلوم ہوا کہ رپورٹ درج کرائے بغیر یہ نوجوان لاہور چلا گیا، ہم خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔دوسرے دن خواجہ اسلم صاحب نے مجھے بتایا کہ محمدؐ شفیع لاہور سے واپس آگیا ہے، وہ اپنی بہن کے لیے سخت بے تاب ہے، اس کی امداد کیجیے۔ میں نے کہا اس نوجوان کو بلواؤ، ایک لاکھ نفوس کے کیمپ میں سے محمدؐ شفیع کو تلاش کرنا آسان کام نہ تھا۔ شام کے وقت ایک سکھ تھانے دار آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ آپ کے ہاں کوئی محمدؐ شفیع نام نوجوان ہے؟ میں سمجھا اس نوجوان پر کوئی آفت ڈھائی جائے گی، تھانے دار کا آنا خالی از علت نہیں۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ اتنے بڑے ہجوم میں خدا جانے کتنے سو آدمیوں کا نام محمدؐ شفیع ہے، اور پھر جس محمدؐ شفیع کی آپ کو تلاش ہے، وہ کون سا محمدؐ شفیع ہے؟ میں آپ کی کوئی امداد نہیں کر سکتا۔تھانیدار نے کہا میں خود چل پھر کر تلاش کر سکتا ہوں؟میں نے کہا کہ میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا، اول تو اس لیے کہ میرے کیمپ میں آپ کی جان کو خطرہ ہے، لوگ سکھ پولیس والوں سے جلے بھنے بیٹھے ہیں، آپ پر حملہ ہو گیا تو کون ذمہ دار ہے، علاوہ ازیں میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرے کیمپ میں پولیس افسر گھومیں پھریں، اور لوگ جو پہلے ہی سے تباہ حال ہیں آپ کو دیکھ کر گھبرائیں، پھر کبھی تشریف لائیے میں محمدؐ شفیع کا پتالگا رکھوں گا۔تھانے دار نے مجھ سے کہا محمدؐ شفیع کی ہمشیرہ ہمارے قبضہ میں ہے، وہ ہوتا تو میں اسے ہمراہ لے جا کر اس کی ہمشیرہ اس کے حوالے کر دیتا۔میں نے اپنا لہجہ بدل لیا، اور تھانیدار کو سردار صاحب کہنا شروع کیا، آہستہ آہستہ میں نے تھانے دار کو یقین دلایا کہ محمدؐ شفیع اگر لاہور بھی چلا گیا ہے تو اسے واپس بلانے کی کوشش کی جائے گی، آپ اس کی ہمشیرہ کو لے آئیے، تھانے دار چلا گیا۔
شام کے وقت محمدؐ شفیع کو خواجہ اسلم صاحب میرے پاس دفتر میں لے آئے، میں نے اسے پہلی بار دیکھا، تقریباً چوبیس پچیس سال کا مضبوط اور خوبصورت جوان تھا، جس کی آنکھوں سے شرافت ٹپکتی تھی۔میں نے اس سے دریافت کیا کہ تمھاری ہمشیرہ کس طرح تم سے جدا ہو گئی، اس نوجوان نے درد بھرے لہجہ میں سارا واقعہ کہہ سنایا، میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ ان شاء اللہ بہت جلد تمھاری بہن تمہارے پاس آجائے گی، دعا کرو خدا امداد کرے، اور دیکھو تم دفتر سے تین چار میل کے فاصلے پر ہو، ایسا کرو کہ ہمارے قریب ہی کی جگہ ٹھکانہ بنا لو، تاکہ وقت ضرورت تمھیں بلایا جا سکے۔تین دن بعد میں جرنیلی سڑک پر محمدؐ بشیر نام فوجی نوجوان سے بات کر رہا تھا کہ ایک مسلمان دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ایک سکھ تھانیدار ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کو لے کر آیا ہے، وہ آپ کو دریافت کر رہا ہے۔میں جلدی جلدی قدم اٹھا کر تھانیدار کی طرف لپکا اور خوشی خوشی تھانیدار سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ سردار صاحب آپ تشریف لے آئے، اس نے کہا، جی ہاں، لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے خدو خال سے پہچان لیا کہ یہ محمدؐ شفیع کی ہمشیرہ ہے، میں نے اس لڑکی سے کہا، بیٹی تم محمدؐ شفیع کی ہمشیرہ ہو؟بھائی کا نام سن کر اس بھولی بھالی لڑکی کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو آگئے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی، محمد شفیع کہاں ہے؟
‘‘ہمارے پاس موجود ہے، ابھی آجائے گا، آؤ بیٹی میرے ساتھ چلو۔’’ مگر وہ زخمی ہرنی کی طرح چاروں طرف دیکھ رہی تھی، اس کی اشکبار آنکھیں بھائی کو تلاش کر رہی تھیں، جس سے وہ بے انتہا محبت کرتی تھی۔ تھانے دار نے مجھ سے کہا کہ اگر محمد شفیع اب موجودنہیں تو میں اس لڑکی کو پھر لے آؤں گا۔ یہ وہاں بالکل محفوظ رہے گی، لڑکی خاموش کھڑی تھی۔ میں تصورات کی غمگین دنیا میں کھو گیا۔ میرے سامنے اسلام کی ہزاروں مظلوم بیٹیاں آموجود ہوئیں اور فریاد کرنے لگیں کہ ہمیں اکالی درندوں سے بچاؤ۔ہم سب چپ کھڑے تھے کہ بشیر (فوجی جوان) نے مجھے بازو سے پکڑا اور تھوڑے سے فاصلہ پر لے جا کر کہا، دیکھیے میں نے اپنی رائفل میں کارتوس چڑھا لیے ہیں اس تھانے دار سے کہیے کہ یا تو ہماری بہن کو چھوڑ جائے، ورنہ میں اسے ٹھنڈا کر دوں گا۔ نوجوان کی آنکھوں میں خون تھا۔میں نے بشیر کو ڈانٹا اور کہا کہ جاؤ اپنی ڈیوٹی دو، میں اس تھانے دار سے خود ہی نپٹ لوں گا، خبردار اگر تم نے دخل دیا تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔بشیر میری بہت عزت کرتا تھا، اکثر اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ میرے والد ہیں، وہ میرے ادنیٰ اشارے پر جان حاضر کرنے کو تیار رہتا تھا۔ میں نے بشیر کو وہیں چھوڑا اور تھانے دار کے پاس پہنچ کر آؤ دیکھا نہ تاؤ، جیب سے ایک سفید کاغذ نکالا اور اس پر رسید لکھ دی:۔‘‘ایک جوان لڑکی جو محمدؐ شفیع کی ہمشیرہ ہے تھانے دار صاحب سے وصول پائی، تھانے دار صاحب کی مہربانی اور حسن سلوک کا شکریہ۔’’ دستخط، تاج الدین انچارج مسلم ریلیف کیمپ لدھیانہ ۔یہ رسید میں نے تھانے دار کے ہاتھ میں دی اور لڑکی سے محبت بھرے لہجہ میں کہا، ‘‘آؤ بیٹی تمھیں محمدؐ شفیع سے ملاؤں۔’’ اور ساتھ ہی تھانے دار سے کہا کہ آئیے چائے کا وقت ہو گیا، ایک پیالی چائے پی جیے گا۔ تھانے دار ، لڑکی اور مسلمانوں کا ہجوم میرے ہمراہ ہو گیا۔لوگوں کو واپس کر کے میں لڑکی اور تھانے دار کو لیے آرہا تھا کہ سامنے سے محمدؐ شفیع آگیا ،مگر میرے ایک ہمراہی نے آگے بڑھ کر اسے دوسرے راستے پر ڈال دیا، ہم میں سے کسی اور نے محمدؐ شفیع کی صورت نہیں دیکھی۔ تھانے دار لڑکی کو میرے حوالے کرنے پر مجبور ہو گیا اور چلا گیا۔ محمدؐ شفیع دو گھنٹے تک گم رہا، میں نے اس لڑکی کو پاس کے زنانہ مکان میں بھیج دیا، مگر وہ بار بار کہلا کر بھیجتی کہ محمدؐ شفیع کو جلد بلائیے۔
بھائی اور بہن
بہت دیر بعد محمدؐ شفیع ہنستا ہوا میرے مکان میں داخل ہوا، میں نے اس سے کہا، بھئی تم عجیب آدمی ہو، ایک دم گم ہو گئے، ادھر بیٹھو تمھاری بہن کو بلاؤں، میں نے دروازہ پر جا کر آواز دی اور کہا کہ آؤ بیٹی تمھارا بھائی آگیا۔اف وہ دیوانی لڑکی بھائی کی محبت میں پاگل ہو رہی تھی، اسے کچھ ہو ش نہ رہا ہم سب صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ دوڑ کر آئی اور چیخ مار کر بھائی سے لپٹ گئی، زارو قطار رونے لگی۔ اس نظار سے کو دیکھ کر ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، میں نے ان دونوں کی چارپائی پر بٹھا دیا۔ وہ دونوں آنسوؤں کا مینہ برسا رہے تھے۔ ہم نے مکان خالی کر دیا اور بچھڑے ہوئے بھائی اور بہن کو جی بھر کے رونے اور باتیں کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ بہن کے بہانے محمدؐ شفیع کو کسی جھوٹے کیس میں گرفتار کرنا مقصود تھا اور پھر بہن کا حشر بھی خراب ہونے والا تھا، محمدؐ شفیع نے بتایا کہ جب سکھوں نے ان کے گاؤں پر ہلہ بولا تو اس نے انھیں رائفل سے کس طرح مار بھگایا۔ کئی بار آمنا سامنا بھی ہوا۔ محمدؐ شفیع کی بہن نے بھائی کے برابر کھڑے ہو کر ہاتھ بٹایا اور ہجوم پر اینٹوں کی بارش کرتی رہی، وہ مجھے اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھا کر جنگ کا سارا نقشہ بتاتی تھی۔ پولیس تلاش میں آئی، مگر ایک لاکھ انسانوں میں جو سات میل لمبے کیمپ میں آباد ہوں، ایک نوجوان کا تلاش کرنا کس قدر مشکل تھا۔ مجھے محمدؐ شفیع کی بے گناہی کا یقین تھا۔میں نے اسے نہایت احتیاط سے پاکستان بھجوا دیا۔ پہلے اس کی ہمشیرہ کو لاہور بھجوایا اور دو دن بعد اسے بھی بھیج دیا، دونوں بہن بھائی مجھے بھولے نہیں، جب انھیں پتہ چلا کہ میں دو ماہ بعد لاہور آگیا ہوں تو دونوں نے مجھے خیرت کا خط لکھا، لڑکی مجھے ابا کہہ کر پکارتی تھی، وہ خط میں بھی مجھے اسی خطاب سے یاد کرتی ہے۔ کتنی اچھی، کتنی نیک اور بہادر لڑکی ہے، خدا نے اس کی آبرو بچا لی۔ خدا ہماری ان مظلوم لڑکیوں کو جو ہزاروں کی تعداد میں اکالی سکھوں کے قبضہ میں ہیں جلد رہائی دلائے، آمین!
کس مپرسی اور مایوسی
مصیبت کے دن پہاڑ بن گئے، دیہاتی لوگ بہت زیادہ پریشان ہو گئے، ان کے ڈنگر ڈھور بھوکوں مرنے لگنے، چارے کا کوئی بندوبست نہ تھا، میرے ارد گرد ہر وقت شکایت کرنے والے دیہاتیوں کا ایک ہجوم رہتا۔ اس پر میں میجر شرما اور مسٹر سہگل ڈپٹی کمشنر سے الجھنے لگا، مگر اس الجھاؤ میں تلخی نہ تھی، وہ میری شکائتوں اور مطالبات پر کبھی وعدہ کرتے اور کبھی معذوری کا اظہار کر دیتے۔ اصل میں چارے کی سپلائی ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ مغربی پنجاب سے آئے ہوئے سکھ پناہ گزین مسلمانوں کے دیہات پر قبضہ کر چکے تھے۔ وہ اپنے ڈھورڈنگر کچھ تو فروخت کر آئے اور کچھ اپنے ہمراہ لے آئے۔ انھیں ان کے لیے چارہ درکار تھا۔ اس کے علاوہ ان کے دل میں انتقامی جذبہ تھا، سکھ پولیس انھیں مسلمانوں کے خلاف اکساتی رہتی تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے دیہاتی بھائیوں کی راہیں مسدود ہو گئیں۔وہ اپنے ڈنگر ڈھور دور دور دیہات اور کھیتوں میں لے جا کر چرا لایا کرتے تھے۔ اب اس سلسلہ میں رکاوٹیں پیداہو گیں، بلکہ خطر ناک حالات پیدا ہو گئے، جب بھی ہمارے دیہاتی بھائی ڈنگر ڈھور لے کر اپنے خالی کئے ہوئے دیہات کی طرف چارے کے لیے جاتے تو سکھوں سے تصادم ہو جاتا۔ چونکہ سکھ پولیس ہندوؤں اور سکھوں کی پشت پر تھی۔ اس لیے روزانہ ہمارے دو چار آدمی مارے جاتے اور سو پچاس ڈنگر ڈھور بھی سکھ ہانک کر لے جاتے۔میں نے اس صورت حل کو ڈپٹی کمشنر اور میجر شرما کے سامنے رکھا، انھوں نے میرے مطالبات پر ہمدردانہ غور کیا، اور فیصلہ ہوا کہ ملٹری کے مسلح آدمی ہمارے دیہاتیوں کے ہمراہ جایا کریں، اور تین گھنٹے میں جس قدر چارہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے، اکٹھا کر کے انھیں کیمپ میں واپس لے آیا کریں۔دو چار دن یہ سلسلہ جاری رہا، مگر کچھ ہمارے آدمیوں کی غلطی سے اور کچھ سکھ ایڈیشنل پولیس اور پناہ گزین سکھوں کی وجہ ایک روز جھگڑے نے خواہ مخواہ طول پکر لیا اور ہمارے ایک ہزار کے قریب ڈنگر گم ہو گئے، چار آدمی شہید ہو گئے۔ادھر خدا جانے مخالف فریق کا کوئی نقصان ہوا یا نہیں، نتیجہ کے طور پر ہمارا باہر آنا جانا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے شکوہ کیا اور کہا کہ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، ہم اپنے مویشیوں کو کیا کھلائیں اور انھیں کہاں لے جائیں،؟ وہ فرمانے لگے کہ تاج صاحب! بات یہ ہے کہ میں نو وار د ہوں، یہ آپ کے لوگ آپ کے بس کے ہیں اور نہ یہ لوگ میرے قابو میں ہیں، کوئی دوسری تجویز بتائیے میں نے کہا، ہمیں بھوسہ منگوا دیجیے، ہم دام ادا کر دیں گے، یہ عجیب بات ہے کہ گؤ ماتا کی پرستش کرنے والی قوم گؤ کے جائے کو بھوکوں مارنے پر تل گئی ہے۔دراصل سکھ اور ہندو ہمیں دق کر کے یہ چاہتے تھے کہ ہم اپنا مال سستے داموں ان کے ہاتھ بیچ دیں، چنانچہ دیہاتیوں نے مجبوراً اپنے مویشی اور دوسرا سامان اونے پونے ٹھکانے لگا دیا۔
مسلمانوں کا آخری مطالبہ
یکا یک حالات نے پلٹا کھایا، بات کچھ سے کچھ ہو گئی۔ نہ پاکستان گورنمنٹ پناہ گزینوں کو لے جانے کا بندوبست کررہی تھی، اور نہ مشرقی پنجاب کی حکومت انھیں بھیجنے کا کوئی انتظام کررہی تھی۔ مسلمان لاوارث ہو کر رہ گئے۔ کیمپ پر گہری اداسی چھا گئی، میرے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا۔ جدھر جاتامجھے قدم قدم پر مختلف سوالات کا جواب دینا پڑتا، یہاں تک کہ مجھے کھانے پینے کا سدھ بدھ نہ رہی، اس پریشانی سے میری صحت پر بہت برا اثر پڑا۔
درناک حادثہ
اس عالم میں میجر شرما آئے، اور وہ مجھ سے کہنے لگے کہ ہم نے اپنی میٹنگ میں طے کیا ہے کہ آپ کو بھوسہ خرید کر دیا جائے، میں نے کہا کہ ہم دام ادا کر دیں گے۔ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک شخص نے یہ وحشت ناک خبر سنائی کہ جیل سے آٹھ دس مسلمان قیدی رہا ہو کر کیمپ کی طرف جیل وارڈ رکے ہمراہ آرہے تھے، کہ راستہ میں سکھ بلوائیوں نے ان پر حملہ کر دیا، ایک مسلمان وہیں شہید ہو گیا باقی گھیرے میں ہیں، آپ ان کو بچائیے۔میں نے میجر شرما کی طرف دیکھا اور کہا، شرما صاحب اپنی موٹر میں فوراً موقع پر پہنچئے اور خدا کے لیے ہمارے آدمیوں کو بچائیے، جلدی کیجیے۔
میجر شرما خدا ان کا بھلا کرے، وہ فوراً موٹر کی طرف دوڑے اور موٹر کو تیزی سے موقع پر لے گئے، میں سڑک پر دست بدعا کھڑا رہا کہ خدا ہی ہمارے نہتے اور لاوارث بھائیوں کو رکھوالا ہے،پانچ منٹ کے بعد مجھے شرما صاحب کی موٹر تیزی سے کیمپ کی طرف آتی دکھائی دی، آنکھ کے جھپکنے میں میجر شرما ہمارے پاس تھے، مگر آہ میری آنکھوں نے یہ درد ناک نظارہ دیکھا کہ موٹر کی پچھلی سیٹ کے پاس جگراؤں کا احرار کارکن خوشی محمدؐ خون میں لت پت پڑا تھا، گردن کا ایک چوتھائی حصہ کٹا ہوا اور ایک بازو گہرے زخم کی وجہ سے لٹکا ہوا، زخموں میں سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے، جونہی مجروح خوشی محمد نے میری صورت دیکھی دونوں ہاتھ پھیلانے کی کوشش کی۔ غم ناک نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میں تو تمھیں ملنے کے لیے آرہا تھا مجھے راہ میں سکھوں نے گھیر لیا اور خون میں نہلادیا، میں نے کسی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا، میں تو اپنی قوم کی خدمت کر رہا تھا، مجھے محض اس جرم کی سزا دی گئی ہے۔شرما صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، میں نے ان سے کہا کہ اسے خدا کے لیے آپ بہت جلدی ڈاکٹر پولک کے پاس لے جائیے، اور میری طرف سے اس شریف عورت سے کہیے کہ اسے بچانے کی کوشش کرے، میں عمر بھی احسان مند رہوں گا۔میجر شرما نے مجروح کو اپنی موٹر میں ڈالا، اور بلا تاخیر ڈاکٹر کے پاس پہنچا دیا، ہمارا ایک آدمی زخمی اور ایک شہید ہو گیا، باقی آدمیوں کو شرما صاحب نے پولیس کی نگرانی میں مسلم کیمپ میں پہنچا دیا۔
مسلسل دوڑ دھوپ اور بے چینی کے باعث دو دن کے بعد مجھ پر بلڈ پریشر کا دورہ پڑا، ڈاکٹر پولک، مس مارٹین اور دوسری لیڈی ڈاکٹروں نے میری چارپائی کے گرد ڈیرے ڈال دیے، اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے قابل نہ رہا، کچھ دن بعد مجھے قدرے افاقہ ہوا، مگر کمزوری بدستور رہی۔
میجر شرما تشریف لائے اور کہنے لگے، آج تو چاہے کچھ بھی ہو آپ کو سڑک تک چلنا ہی پڑے گا، گورنرکی بیوی آرہی ہے، وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کی ملاقات ضرور ہو جائے، تاکہ قافلے بھیجنے کا کچھ بندوبست ہو سکے، وہ سرکاری طور پر آرہی ہے، شریف عورت ہے، شاید کام بن جائے۔ میں نے کہا، ڈاکٹر مجھے چلنے پھرنے سے منع کر گئی ہے، خفا نہ ہو جائے۔لیکن تھوڑی دیر کے بعد میں خود ہی راضی ہو گیا، گورنر کی بیوی آگئی، ڈپٹی کمشنر صاحب اور شرما صاحب نے تعارف کرایا، وہ مجھ سے کافی دیر تک باتیں کرتی رہی، وہ کہنے لگی کہ میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا کہ تکلیف اب ہم سے مانوس ہو چکی ہے، آپ ہماری یہی امداد فرمائیں کہ ہم کو یہاں سے فوراً روانہ فرمائیں، اس نے جواب میں کہا کہ اپنے وطن سے اتنی بیزاری؟ کیا یہ سب لوگ بھی یہی چاہتے ہیں؟میں نے کہا کہ اس سادہ لوح دیہاتیوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ انھیں گھروں سے کیوں نکالا گیا، انھیں کیوں لوٹ مار کا نشانہ بننا پڑا، یہ بے گناہوں کا قافلہ ہے، جو وطن سے بیزار ہو گیا، ان پر ترس نہیں آتا تو ڈنگر ڈھوروں پر ترس کھائیے، یہ سب بھوکوں مر رہے ہیں۔اس شریف عورت کے چہرے پر اداسی کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی، اس نے گردن اٹھائی اور کہا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر تمھارا قافلہ روانہ ہو جائے گا، اس کے لیے میں انتہائی کوشش کروں گی۔میں تھوڑی ہی دیر میں تھک گیا، شرما صاحب سے میں نے کہا کہ مجھے اب اجازت دیجیے، میں آرام کرنا چاہتا ہوں، میں ایک دوست کا سہارا لے کر اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑا، راستہ میں ایک جگہ سستانے کے لیے بیٹھ گیا، قدم قدم اپنی چارپائی تک پہنچا، دل کو امید بندھ گئی، میں نے تمام کیمپ میں اطلاع کرادی، لوگ اپنے وطن سے ہمیشہ کے لیے کوچ کی تیاری میں لگ گئے۔
قافلہ کی روانگی اوروطن کی محبت
اب ہمیں شہر سے کوئی دلچسپی نہ تھی، جس قدر جلد ہو سکے ہم اپنا وطن چھوڑنے کے لیے آمادہ ہو گئے، ہم نہیں جانتے تھے کہ پاکستان پہنچ جانے کے بعد بھی وطن ہمیں بار بار یاد آئے گا اور خون کے آنسو لائے گا۔ آپریشن بڑی تکلیف دہ چیز ہے، مگر جب مریض کو یقین ہو جائے کہ میرے دکھوں کا علاج ہی آپریشن ہے تو وہ کس خوشی سے خود کو نشتر کے حوالے کر دیتا ہے، یہی حال سب قافلہ والوں کا تھا۔ میں نے عورتوں کے کہتے سنا کہ گیارھویں والے پیر صاحب نے ہماری سن لی، خدا کا شکر ہے، اب ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ پھر میں نے انہی عورتوں کو چلتے وقت گاؤں کی طرف منہ کر کے ڈھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے بھی سنا۔
حب الوطن از ملک سلیمان خوشتر
خار وطن از سنبل وریحان خوشتر
یوسف کہ بملک مصر شاہی کرو
می گفت گدا تودن کنعان خوشتر
دیہات کی عورتیں بہت نیک بہت ہی بھولی بھالی اور صاف دل ہوتی ہیں۔ ایک جوان عورت ہر مرد کو بھائی سمجھتی ہے اور اپنے سے بڑوں کو والد سے کم درجہ نہیں دیتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک منہ پھٹ عورت ہجوم کو چیر کر میرے سامنے آجایا کرتی تھی، وہ مجھے بہت برا بھلا کہتی اور پھر بیٹھ کر رونے لگ جایا کرتی تھی۔ وہ کہا کرتی تھی کہ تم ہمیں بھیج سکتے ہو، قافلہ کو آج ہی چلا سکتے ہو، مگر تم نہیں چاہتے خدا جانے تم ایسا کیوں کرتے ہو، اگر تم قافلہ کو کوچ کا حکم دے دو تو پھر کون روک سکتا ہے، بڑے بڑے افسر تم سے ڈرتے ہیں۔لوگ اس عورت کو منع کرتے اور بعض گالیاں تک بک دیتے، مگر میں ہنسی خوشی سب کچھ سن لیتا تھا اور ہمیشہ لوگوں کو منع کرتا تھا کہ اسے تنگ نہ کرو، اور جو کچھ کہتی ہے کہنے دو۔ایک روز یہی عورت دفتر پہنچی، لوگوں نے راستہ چھوڑ دیا، میں نے اسے دیکھا تو ہنستے ہوئے کہا کہ بہن گالیاں دینے آئی ہو لاؤ پہلے گالیاں سن لیں پھر کام کریں گے۔ آج وہ خاموش تھی، آنکھوں میں آنسو تھے، چپ چاپ سامنے آ کر کھڑی ہو گئی، اور پھر تھوڑی دیر بعد یوں کہنے لگی، کہ دیکھ بابا ہم اب تنگ آگئے ہیں، ہمارے دو بیل بھی مر چکے ہیں، آج ہم کسی کی نہیں سنیں گے، اور ہمارا قافلہ اب رک نہیں سکتا۔میں نے جواب میں کہا کہ تم کو کون روکتا ہے، بڑی خوشی سے جاؤ، روز روز کا جھگڑا ختم ہو جائے، جب تم سڑک کے اس پار پہنچو گی تو سکھ پولیس اور ہندو فوجی تم کو گولی سے اڑا دیں گے۔عورت بولی، تم بھی تو ساتھ ہو گے، ہم تم کو آگے آگے رکھیں گے، تاکہ پہلے تم پر گولی چلے یا تم کو دیکھ کر گولی ہی نہ چلے، ہم تمھیں چھوڑ کر تھوڑی جائیں گے؟عورت کی ایسی باتیں سن کر لوگوں نے ہنسنا شروع کر دیا، مگر وہ عورت چپ چاپ چلی گئی، جس روز قافلہ روانہ ہونا تھا، اس رات ہمارا دل خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے لبریز تھا، سرشام مسٹر شرما تشریف لے آئے، اور کیمپ کا معائنہ کرتے رہے، لوگ اپنا سامان چھکڑوں پر لاد رہے تھے، چاروں طرف کھلبلی سی مچ رہی تھی، وہ میرے ہمراہ دفتر چلے آئے، اور ہم نے یہ پروگرام بنا لیا کہ رات کو لاؤڈ سپیکر سے مناسب ہدایات جاری کر دی جائیں ، چنانچہ بارہ بجے رات میجر شرما اپنی موٹر پر لاؤڈ سپیکر فٹ کرا کے لے آئے میں جاگ رہا تھا، جلدی جلدی قدم بڑھا کر سڑک پر پہنچ گیا، موٹر کو ستلج کی سڑک پر ڈال دیا، جب ہم ستلج کے کنارے پہنچے جہاں کیمپ کا آخری سرا تھا، ہم نے قافلہ والوں کو خطاب کرنا شروع کیا۔ میجر شرما آئی سی ایس بھی ہمارے ہمراہ تھے، ان کا نیا عہدہ اسسٹنٹ کمشنر تھا، میں نے ان کے حوالے سے لوگوں کو خطاب کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں خود شرما صاحب کے ہمراہ ہوں۔ رات کا سناٹا ٹوٹنے لگا، کچھ لوگ تو جاگ رہے تھے، کیونکہ انھیں علی الصبح وطن چھوڑ کر روانہ ہوتا تھا، کچھ میرے اعلان سے جاگ اٹھے، عورتیں بچے دوڑے دوڑے موٹر کی طرف آئے، بعض نے لاؤ ڈ سپیکر اس سے پہلے نہ دیکھا تھا، میرے دل میں غم کی گھٹائیں چھا رہی تھیں، اسی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سے جب میں نے اعلان کیا کہ صبح ہمارا وطن ہمارے لیے پردیس ہو جائے گا، اور ہم بادل ناخواستہ اسے خیر باد کہہ دیں گے، تو اکثر لوگ رونے لگے، مجبوری کا عالم تھا میں اس آہ و زاری کو روک نہ سکا۔غرضکہ ڈیڑھ دو بجے کے قریب ہم واپس آئے، صبح ساڑھے چار بجے قافلہ باقاعدہ صورت میں چلنے کے لیے تیار ہو گیا، فوجی دستے آگئے، افسر بھی موجود تھے، قافلہ چل پڑا۔ میں اپنے افسردہ خاطر ساتھیوں کو لے کر سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا، قافلہ چل رہا تھا علیک سلیک ہو رہی تھی، شام کے پانچ بجے ہم نے بقایا لوگوں کو روک لیا۔ پچیس تیس ہزار لوگ چھکڑوں سمیت روانہ ہو چکے تھے۔ دوسرے دن پھر بقایا قافلہ والوں کو روانہ ہونا تھا، رات کو پھر ہم نے دو بجے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان شروع کیا۔ آج زیادہ اداسی تھی، میدان کا کافی حصہ خالی ہو چکا تھا، باقی لوگ بھی چھکڑوں پر اسباب لاد کر لب سڑک قطار میں کھڑے تھے۔ تین بجے کے قریب میں اور میجر شرما موٹر میں واپس آئے علی الصبح پھر قافلہ چل پڑا، شام کے چار بجے قافلے کا آخری چھکڑا چل دیا، اس دن صبح آٹھ بجے ہمیں ایک سپیشل ٹرین بھی مل گئی۔ اس میں سات آٹھ ہزار پناہ گزینوں کو سوار کر دیا، ابھی دس ہزار کے قریب اور پناہ گزین باقی تھے، میں نے میدان کے لوگوں کو کہلا بھیجا، کہ وہ محلہ کے اندر اور محلہ کے قریب آجائیں اور جھونپڑیاں اس طرف اٹھا لائیں۔ (جاری ہے)