ترجمہ : ندیم سبحان
بچوں کی تجارت کا مذموم کاروبار۔خوفناک حقائق، حیرت ناک انکشافات
ماکارا سوئے(Makara Svay) نے مئی ۲۰۰۲ میں کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پنہ (Phnom Penh)کے ریلوے اسٹیشن کے عقب میں مال گاڑی کے ایک متروک ڈبے میں اپنے تیسرے بچے (لڑکی) کو جنم دیا۔ چونکہ اس کا شوہر اسے چھوڑ کر جا چکا تھا، اس لیے وہ دائی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ ۲۳ سالہ خوبصورت ماں نے زچگی کے لیے اپنے پڑوسیوں پر بھروسا کیا تھا۔ اور وہ زچگی کے دوران میں موت و زیست کی کش مکش سے بھی دوچار ہوئی تھی۔ ماکارا کہتی ہے اس کی نوزائیدہ بیٹی بوفا (Bopha)پیدائشی طور پر کمزور اور غذائی قلت کا شکار تھی۔ ماں اور بیٹی اس وقت بھی بیمار اور کمزور تھیں، جب ایک ماہ بعد ایک کمبوڈین عورت، جس کی عمر تیس اور چالیس کے درمیان تھی، ان کی رہائش گاہ (ریل کے ڈبے) میں داخل ہوئی، اور اس نے میڈم پرم کے نام سے اپنا تعارف کرایا۔ اس نے کہا، ‘‘تم بہت غریب ہو، تمھارے پاس اپنی بیٹی کو زندہ رکھنے کے لیے غذا نہیں ہے، اور ہو سکتا ہے کہ یہ مر جائے۔ اس لیے میں تمھاری بیٹی کو گود لوں گی۔ میں خود اس کی دیکھ بھال کروں گی۔’’
جب پرم نے سوئے سے وعدہ کیا کہ وہ مستقبل میں اپنی بیٹی سے مل سکتی ہے تو ان پڑھ اور محنت کش ماں اس کی پیشکش کو نہ ٹھکرا سکی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ اپنے گاؤں سے کام کی تلاش میں نوم پنہ آئی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد شوہر نے اسے چھوڑ دیا تھا، اور اسے اپنے دونوں بیٹوں میں سے ایک کو اس کے والد اور دوسرے بیٹے کو شہر سے بہت دور رہنے والے اس کے چچا کے حوالے کر نے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اب وہ بے گھر اور قلاش تھی۔ وہ کہتی ہے، ‘‘میں نے اپنے بچے پر ترس کھایا، اور اسے اس عورت کو دینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔’’ بچے کی حوالگی کی اس کارروائی کی تکمیل کے لیے پرم نے سوئے سے آفیشل دکھائی دینے والے ایک کاغذ پر انگوٹھا لگانے کے لیے کہا۔لکھنے اور پڑھنے سے محروم سوئے نے اس کی ہدایت کی تعمیل کی۔ اس کے عوض پرم نے اسے ۱۸، امریکی ڈالر ، ۱۵ ڈالر مالیت کا ۵۰ کلو گرام چاولوں کا تھیلا اور ایک فون نمبر دیا۔ ‘‘اگر تم اپنی بچی کو دیکھنا چاہو تو مجھے صرف فون کر دینا۔’’ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جب اگلے ماہ سوئے نے مذکورہ نمبر ملایا تو ایک کرخت مردانہ آواز سنائی دی۔‘‘ وہ بہت بدتمیز شخص تھا۔’’ اس نے بتایا۔ بعد ازاں ٹیلی فون لائن بے جان ہو گئی۔ خوف زدہ اور سہمی ہوئی سوئے نے پھر فون کرنے کی ہمت نہیں کی۔
اب وہ سوچتی ہے کہ کیا اس کی بچی کو دھوکے سے یتیم ظاہر کر کے بیرون ملک گود لیے جانے کی غرض سے فروخت کر دیا گیا ہے۔ اس کے پاس اس بات کا کھوج لگانے کے لیے کوئی راستہ اور وسائل نہیں ہیں، اور اس کے لیے اپنی بیٹی کو دوبارہ دیکھنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘میں اکیلی رہ گئی ہوں۔’’اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا، ‘‘اب میری زندگی میں کچھ باقی نہیں رہا، میں ایک خالی مکان کی مانند ہوں۔’’
اس امر کا قوی امکان ہے کہ کمبوڈیا میں ماکارا سوئے جیسی سیکڑوں غریب، بے بس اور فریب خوردہ مائیں لا علمی میں اپنے شیرخواروں کے ذریعے بچوں کی بین الاقوامی اور منافع بخش تجارت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بچوں کو گود لیے جانے کی آڑ میں ان کی شرمناک خرید و فروخت ایک عشرے سے جاری ہے، اور اس مکروہ تجارت کا حجم کروڑوں ڈالر پر پھیلا ہوا ہے۔ کمبوڈیا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۵ء سے اب تک دو ہزار شیر خوار بچوں کو گود لیا گیا ہے، مگر اس امر سے کوئی واقف نہیں کہ کتنے غیر ملکی جوڑوں نے بچوں کو حقیقتاً گود لیا ہے، اور کتنے بچوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں۔ بینکاک میں ولندیزی سفارت خانے کی ۲۰۰۳ء میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بچوں کی تجارت کے جو کیس سامنے آئے ہیں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق امریکیوں نے کم از کم آٹھ سو کمبوڈین بچوں کو اپنایا ہے۔ ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں، جنھیں خرید و فروخت کے مرحلے سے گزارا گیا۔ اس عمل کے دوران میں کچھ بچوں سے بہتر سلوک نہیں کیا گیا۔ امریکا کے امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ (ICE)کے اہل کاروں کے مطابق یتیم خانوں اور بچوں کی خفیہ پناہ گاہوں کی صورت حال ہولناک ہے۔ بچے بے لباس اور گندے رہتے ہیں۔ جھولے زنگ آلود، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں، اور ہر طرف انسانی فضلے کی بدبو پھیلی رہتی ہے۔ بچوں کی اس منظم تجارت کے کرتا دھرتا وہ دولت مند مغربی افراد ہیں ، جو معصوم ایشیائی بچوں کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ اس کھیل میں پرم کی قبیل کے بے ایمان ایجنٹ اور وہ یتیم خانے بھی شامل ہیں، جو قیمتاً بچے سپلائی کرتے ہیں۔ ان کے معاون وہ بدعنوان حکومتی اہلکار ہیں، جو رشوت کے عوض جعلی دستاویزات کی تصدیق کرتے ہیں۔ کمبوڈیا میں اکثر یتیم ظاہرکیے گئے بچوں کے والدین حیات ہیں، اور تقریباً ہر کوئی اچھی رقم کے عوض بچہ خرید سکتا ہے۔
اکثر مغربی جوڑے چھوٹے اور صحت مند بچے پسند کرتے ہیں۔ کچھ کمبوڈین آنے سے پہلے ہی اپنے لیے بچہ پسند کر لیتے ہیں۔ ولندیزی سفارتخانے کی رپورٹ کے مطابق کچھ یتیم خانوں نے متوقع والدین کو متاثر کرنے کے لیے بچوں کی تصویریں اور ان کی رپورٹیں انٹرنیٹ پر جاری کر دی ہیں۔ عام طور پر بچوں کے ویزے کی درخواستوں میں انھیں تنہا ، اور والدین نامعلوم ظاہر کیے جاتے ہیں۔ البتہ کچھ کیسوں میں صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ تقریباً تمام کیسوں میں بچوں کی جائے پیدائش اور خاندانی پس منظر سے متعلق غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
اکثر دیہات کے مکھیا (سردار) بھی صرف دس ڈالر کے عوض بخوشی جعلی صداقت نامے پر دستخط کر دیتے ہیں۔ اس منظم تجارت کی وجہ سے سیکڑوں بچے اپنی حقیقی شناخت سے محروم ہو چکے ہیں۔ حقیقی والدین اپنی اولاد تلاش نہیں کر سکتے، اور نہ ہی ان کے موجودہ حالات سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ ہزاروں وہ یتیم بچے، جو متوقع والدین کو متاثر نہیں کر پاتے، جن کی صحت خراب ہوتی ہے، یا جن کی عمر ‘‘فروخت کی عمر’’ سے زیادہ ہو جاتی ہے، وہ یتیم خانوں میں بدترین صورت حال سے دوچار رہتے ہیں۔
غیر ملکی جوڑوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بچوں کی مسلسل فراہمی کو ایجنٹوں کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے، جو دور دراز دیہات میں حاملہ خواتین پر نظر رکھتے ہیں، اور انھیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو کفالت میں دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں کھوک نیون کا تجربہ منفرد ہے۔ نومبر ۱۹۹۹ میں اس کی بیٹی نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ ایجنٹ کے ترغیب دینے پر وہ اپنے دو دن کے پوتے کو نوم پنہ کے مضافات میں واقع Women and Orphans Vocational Associationلے کر گئی۔ نیون کے مطابق وہاں کے عملے نے پہلے اس کے ایچ آئی وی ٹیسٹ پر اصرار کیا۔ ‘‘انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر اس کا خون صحیح ہو گا تو ہم اسے لیں گے، بصورت دیگر نہیں۔’’ جب بچے کا HIVٹیسٹ منفی آیا تو یتیم خانے نے ساٹھ (۶۰) امریکی ڈالر دیے، اور اس کے پوتے کی دیکھ بھال کرنے کا وعدہ کیا۔ ‘‘انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ بچوں کی نگہداشت کرتے ہیں، اور جب وہ کچھ بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ یہ بچے ان کے والدین کو واپس دے دیتے ہیں۔’’ تین ماہ بعد نیون کو علم ہوا کہ اس کے پوتے کو غیر ملکی گود لے کر بیرون ملک جا چکے تھے۔جب ‘‘ریڈرزڈائجسٹ’’ کے نمائندے نے یتیم خانے کے ڈائریکٹر چھم نیلی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے جواب دیا، ‘‘میں نے کسی قسم کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ یہ عورت مجھے کیوں الزام دے رہی ہے؟ یہ بہت پہلے کا واقعہ ہے، مجھے پریشان مت کیجیے۔’’
کچھ والدین یہ جانتے ہیں کہ کھوئے ہوئے بچے کو کیسے بازیاب کروایا جا سکتا ہے، اور جو یہ کوشش کرتے ہیں، وہ شاذونادر ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔نومبر ۲۰۰۱ میں ایک شادی شدہ بے گھر جوڑے نے انسانی حقوق کی تنظیم LICADHOسے اپنے ایک ماہ کے بیٹے کی بازیابی میں مدد کی درخواست کی۔ ماں نے بتایا کہ وہ اپنے بچے کو نوم پنہ میں ایک کلینک لے کر گئی تھی، جہاں عملے نے بچے کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کروانے کی ہدایت کی۔ ایڈز کے ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آنے کے بعد انھوں نے اسے ۸۵ ڈالر دیے ، اور بچے کو رضاکارانہ طور پر انھیں سونپنے کی دستاویز پر دستخط کرنے کی ترغیب دی۔ ان میں سے کسی نے بھی اس کے شوہر کی رضامندی جاننے کی کوشش نہیں کی، اور اب یہ جوڑا اپنے بچے کی واپسی چاہتا تھا۔
LICADHOکی تحقیق کے مطابق اس کلینک کا مالک ڈاکٹر کیوسان تھا، جو ہولی بے بی فاؤنڈیشن کا ڈائریکٹر تھا، اور اس کے فرانس میں بھی رابطے تھے۔ قصہ مختصر بچہ واپس کرنے سے صاف انکار کر دیا گیا۔LICADHOکے مطابق یتیم خانے کے کاغذات سے ظاہر ہوتا تھا کہ بچہ تنہا تھا، اور اس کے والدین ‘‘نامعلوم’’ تھے۔ کیوسان نے بتایا کہ یہ کیس اس کی یادداشت میں محفوظ نہیں ہے، اور نہ ہی کسی نے اس سے بچے کی واپسی کی بابت رابطہ کیا۔ والدین کو رقم دیے جانے سے متعلق استفسار پر اس نے جواب دیا کہ میں نے کوئی رقم ادا نہیں کی، میں جانتا ہوں کہ میرا عملہ انھیں کچھ رقم دیتا ہے، وہ بھی اس لیے کہ وہ ان غریب اور قلاش والدین پر رحم کھاتا ہے۔
وانگ لے، جو ہولی بے بی فاؤنڈیشن کا منتظم ہے، نے کہا کہ مجھے یاد ہے، ۲۰۰۱ء میں ایک کمبوڈیائی خاتون نے ، جو بچے کی ماں ہونے کی دعویدار تھی، بچہ یتیم خانے کے سپرد کیا تھا۔
‘‘ہولی بے بی نے اس سلسلے میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے تھے۔’’ اس نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا، ‘‘ہمارے ادارے کے کسی اہلکار نے بچے کے والدین سے ملاقات کی، اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی سوال کیا۔ ہم نے ایک دستاویز پر متعلقہ خاتون سے دستخط ضرور لیے تھے، لیکن ہمارے لیے بچے کے والدین کے بارے میں جاننا ناگزیرنہیں ہے۔’’
یقینی طور پر وہ بچہ اب اپنے نئے والدین کے ساتھ فرانس میں زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن اس کی شناخت اور اس سوال کا جواب کہ کیا وہ واقعی یتیم تھا؟ ایک راز ہی رہے گا۔
۹۰ کے عشرے کے آخر میں کمبوڈیا بچوں کے سہل اور فوری حصول کے ملک کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اور اس تجارت کا دائرہ کار تیزی سے پھیل رہا تھا۔ ۲۰۰۰ ء اور ۲۰۰۱ء میں امریکی سفارت خانے نے کمبوڈیائی لے پالک بچوں کے ۶۶۸ امیگرینٹ ویزے جاری کیے۔
کمبوڈیا کو بچوں کی تجارت کا مرکز بنانے والوں میں امریکا کی لارن گیلینڈو(Lauryn Galindo)بھی شامل ہے۔ یہ خاتون امریکا میں ویزوں کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کے جرم میں ۱۸ ماہ کی سزا کاٹ رہی ہے۔ اس کے مقدمے کے فیصلے کی قانونی دستاویز کے مطابق وہ ۱۹۹۰ء میں پہلی دفعہ کمبوڈیا گئی، اور ایک غیر سرکاری ادارے کے لیے بچوں کو گود لینے کے لیے نظام کو مستحکم کرنے میں مدد کی۔ ۱۹۹۷ء میں گیلینڈو نے اپنی بہن کے ساتھ مل کر ایک نجی ایجنسی ‘سیٹل انٹرنیشنل ایڈاپشن ان کارپوریشن’ (SIA)قائم کی۔ وہ کمبوڈیامیں بچوں کے ‘‘سہل حصول’’کو ممکن بناتی تھی، اور اس سلسلے میں کاغذات کی تیاری میں امریکی جوڑوں کی مدد کرتی تھی۔
SIAکاکاروبار بہت منافع بخش تھا۔ عدالتی دستاویز کے مطابق یہ ایجنسی اپنے ہر کلائنٹ سے ‘‘عطیات’’ اور انتظامی فیس کی مد میں ۱۱۵۰۰ ڈالر تک وصول کرتی تھی۔ رپورٹ میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق گیلینڈو نے کمبوڈیا میں رہتے ہوئے بچوں کے آٹھ سو کیسوں میں معاونت فراہم کی تھی۔ استغاثہ کے مطابق گیلینڈو نے ضرورت مندجوڑوں سے ۹۲لاکھ ڈالر حاصل کیے تھے، اور اس نے اس رقم کا کثیر حصہ شاہانہ طرز زندگی پر صرف کیا گیا تھا، جس میں ہوائی کے ساحل پر چودہ لاکھ ڈالر مالیت کا مکان بھی شامل تھا۔ کمبوڈیا میں قانونی طور پر بچوں کو گود لینے کے لیے سرکاری کارروائی کی کوئی فیس نہیں ہے۔ تاہم وکیل صفائی کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیلینڈونے بچوں کی دستاویزات کی تیاری کے لیے متعدد اہل کاروں کو رشوت دی تھی۔
بالآخر نومبر ۲۰۰۴ میں سیٹل کی عدالت نے گیلینڈو کو ویزہ فراڈ اور منی لانڈرنگ کا مجرم قراردیا اس پر بچوں کی تجارت میں ملوث ہونے کا الزام عاید نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ امریکا میں بچوں کو گود لینے کے مقاصد کی غرض سے انسانی تجارت کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
کمبوڈین بچوں کی تجارت کے مضبوط شواہد سامنے آنے کے بعد دسمبر ۲۰۰۱ میں امریکی حکومت نے کمبوڈین بچوں کو گود لیے جانے پر پابندی عائد کر دی، اور ۲۰۰۵ء تک کئی یورپی ممالک ، جن میں فرانس، برطانیہ اور نیدرلینڈ شامل ہیں، نے بھی امریکی اقدامات کی پیروی کی، لیکن ان ممالک کی جانب سے پابندی عاید کیے جانے کے باوجود یہ شرمناک تجارت ہنوز جاری ہے۔
LICADHOکے صدرKek Golabruکہتے ہیں، ‘‘کمبوڈین حکومت نے بچوں کی تجارت اور اس نظام کے خاتمے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ ناکافی ہیں، یہ کاروبار اسی انداز سے جاری ہے۔’’ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک نیا قانون بنا رہی ہے، لیکن اس قانون پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے سے صورتِ حال جوں کی توں موجود رہے گی۔اس مذموم کاروبار کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔