وہ اس جگہ بالکل نیا تھااور اپنے نئے گھر میں اسے آج پہلی رات سونا تھا۔ لکڑی کا کام اگرچہ مکمل ہوچکا تھا مگر اس نے اس خیال سے کاریگر کو روک لیا تھا کہ وہ پہلی ہی رات اکیلا نہیں سونا چاہتا تھا۔ اب جبکہ اسے سوئے ہوئے کافی وقت بیت چکا تھاتو۔۔۔ شوں، شوں ، شوں۔۔۔ کی تیز آواز نے اسے بیدا ر کر دیا۔لگتاتھا کہ کہیں قریب ہی سے تین گولیاں فائر ہوئی ہیں۔ کچھ دیر بعد ہی تقریباً دس فائراور ہوئے۔ اب کی بار کہیں دور سے بھی گولیاں چلا کر ان کا جواب دیا گیا۔ اس کے ساتھ سویا ہواکاریگر عطا محمد بھی بیدار ہوگیا تھا۔ وہ تو بستر میں دبکا رہا مگر عطا محمد نے ہمت کی اور چھت پر جا پہنچا تاکہ حالات کا اندازہ کر سکے ۔
عطا محمد واپس آکر بولا :صاحب جی!! یہ تو واقعی فائرنگ ہوئی ہے۔ باہر تو بارود کا بو پھیلا ہوا ہے۔
اوہ ، میرے خدایا ۔۔۔اس کے دل میں بے ترتیب اور عجیب عجیب سوال اٹھنے لگے ۔یہ کیا ہو سکتا ہے؟ پٹاخے...؟؟ گولیاں……؟؟…… پولیس، یا پولیس مقابلہ، نہیں ڈاکہ ؟ہاں ڈاکہ ہی ہو سکتاہے ۔اور پھر ڈاکو کا خیال آتے ہی اس کا دل بیٹھنے لگا۔؟؟
خود کو تسلی دینے کے لیے وہ الماری اور سیف کے تالے کو چیک کر نے لگا ۔اسی اثنا میں دوبارہ دونوں فائرنگ شروع ہوگئی اور وہ ایک بار پھر دبک گیا۔ساتھ ہی وہ خود کو کوسنے لگا کہ وہ اپنا ریوالور کیوں بھول آیا تھا۔ کسی چھوٹے سے بم کے چلنے کی آواز بھی آئی اور ساتھ ہی وہ سناٹا چھا گیا جو کہ راتوں کا خاصا ہُوا کرتا ہے۔
عطا محمد د.د.!! جی صاب!!! ٹائم کیا ہوا ہے؟ مجھے عینک نہیں مل رہی۔کہیں دیکھو تو۔۔۔
صاحَب،دو بج گئے ہیں۔اوہ ! یا اللہ خیر!!! اللہ لا الہ الّا ہو الحی القیوم……………… یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ لا الہ الّا ہو الحی القیوم………………وہ مسلسل آیت الکرسی کا ورد کیے جا رہا تھا۔یا اللہ میں اس علاقے میں نیا ہوں حفاظت کے بھی کوئی اسباب نہیں ۔ ڈاکو آجائیں تو مال کے ساتھ جان بھی لے لیتے ہیں، یا اللہ رحم فرمانا۔۔۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ،ابھی تو انہوں نے ایک د ن بھی اپنے مکان میں نہیں گزارا۔۔۔یا اللہ ،حفاظت فرمانا۔۔۔اور جتنی بھی آیات اسے یاد تھیں وہ سب دہرا رہا تھا مگر خوف تھا کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ۔۔۔۔کہیں دور سے گاڑی گزرنے کی آوازآئی !لگتا ہے پولیس آگئی ۔ اللہ کرے میرا اندازہ ٹھیک ہی ہو۔۔۔یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے پولیس کو بھیج دیا۔۔۔۔اللہ لا الہ الّا ہوا الحی القیوم………………وَہُوَ العلیَّ العظیم۔
اسے سخت پیاس لگ رہی تھی مگر اٹھنے کی اس میں ہمت نہ تھی،پانی کیسے پیتا! عطا محمد پھر سے گہری نیند سو چکا تھا۔ مگر اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔طرح طرح کے وسوسو ں اور اندیشوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔اب اس کے کانوں میں اپنے بیوی بچوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر ڈاکو اس کے گھر میں داخل ہوگئے تو وہ مرغیوں کے لیے بنائے دڑبے میں چھپ جائے گا۔ مگر نہیں!!وہاں تو نظر جاسکتی ہے۔ میز کے نیچے چھپ جائے گا۔ شاید نہیں کیونکہ ادھر بھی نظر آجاؤں گا۔ قالین اٹھا کر اس کے نیچے گھس جاؤں گا۔ اوہ ہو یہ تو کبوتر والی بات ہوگئی۔ تو پھر……تو پھر……ہاں روشندان چھپنے کی اچھی جگہ ہے۔ لیکن وہاں چڑھوں گا کیسے۔اس کے ساتھ ہی وہ پھر خود کو کوسنے لگاکہ کاش میں ریوالو رلے آتا۔ اسے صحن میں سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ۔۔۔اللہ لا الہ الّا ہوا الحی القیوم………………وہ اونچی آواز میں پڑھنے لگا مگر آواز گلے میں اٹک رہی تھی۔ اس نے عطا محمد کو جگانے کی کوشش مگر بے سود۔۔۔وہ ذہنی طورپر سوچ رہا تھا کہ اللہ کرے ڈاکو سب کچھ لے جائیں مگر میری جان بخشی کر جائیں ہاں ہاں میں سب کچھ دے دوں گا یا اللہ رحم فرما۔۔اچانک اسے محسو س ہوا کہ باہر گلی میں لگی سٹریٹ لائٹ بھی بجھ گئی ہے ۔اب وہ بار بار روشندان کی طرف دیکھ رہا تھااورکبھی الماری کی طرف۔۔۔۔۔ العلیَّ العظیم اللہ لا الہ الّا ہوا الحی القیوم……………… اسے اپنے صحن میں واضح قدموں کی آواز محسوس ہوئی ۔یا خدا۔۔۔اب کیاکروں۔۔۔میری لاج رکھ لے ۔۔. بس زندگی تو ہوگئی ختم۔ فون کروں؟؟ مگر کہاں سے؟؟؟ کنکشن تو ملا نہیں …… چار ماہ سے درخواست داخل کی ہوئی ہے۔گلی میں لگی سٹریٹ لائٹ جلنے بجھنے لگی ۔۔۔یہ کیا ہوا ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی ..اللہ اکبر ...اللہ اکبر...اللہ اکبر...اللہ اکبر۔ کی صدا بلند ہوئی ۔آج اسے یہ صدا بہت بھلی لگ رہی تھی جبکہ اس سے قبل وہ مولوی صاحب کوکوساکرتا تھا کہ سپیکر پر اذان کیوں دیتے ہیں ۔ خواہ مخواہ نیند میں خلل ڈال دیتے ہیں مگر آج یہ آواز اسے ایک بڑا سہار ا دے رہی تھی ۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ مولوی صاحب اذان لمبی کر دیں کیونکہ وہ محسوس کر رہا تھا کہ صحن میں قدموں کی آواز اذان کے ساتھ ہی دور ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اذان کا مطلب یہ تھاکہ چار بج چکے ہیں ۔ابھی تک کچھ نہیں ہوا تھا۔ اور اب وہ تھوڑا تھوڑا بہادر ہوگیا تھا۔ اسے خیال آیا بہت سے نمازی اب مسجد کی طرف جانا شروع ہو جائیں گے ۔ اس وقت اسے نمازی کتنے اچھے لگ رہے تھے ۔اب میں شور مچا کر نمازیوں کو بلا لوں گا۔۔۔اب تو یقینا ڈاکو بھاگ جائیں گے ۔اورپھر واقعی قدموں کی آوازکہیں دور گم ہو گئی ۔اس نے ہمت کر کے کھڑکی کھولی اور باہر جھانکا ۔ باہر کچھ نہ تھا۔۔۔اس نے ہمت کر کے عطا محمد کو جھنجوڑا اور اسے کہا اذان ہوگئی ہے اٹھو وضو کرو۔ ۔آج نماز مسجد میں ادا کریں گے ۔اس کا خیال تھا کہ مسجد میں سجد ہ شکر تو ادا ہو ہی جائے گا لیکن رات کی خبریں بھی تو مل جائیں گی کہ کس کے گھر ڈاکو آئے ۔۔۔اور کتنے آئے۔آخر وہ ہمت کرکے مسجد میں چلا گیا اور پھر اسے مسجد میں پتا چلا کہ رات گلی میں بارات آئی تھی اور وہ لوگ ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔
آج اس کے کرنے کے بہت سے کام تھے۔ کیونکہ و ہ سب آج اپنے نئے گھر میں منتقل ہورہے تھے اور اسی خوشی میں شام کوگلی میں چھوٹی سی تقریب کا بھی اہتمام کیاگیا تھا۔ صبح سے دوپہر، دوپہر سے شام، شام سے رات ہوگئی تھی۔ اس نے سب کام تقریباً نبٹا لیے تھے۔اب اس کے گھر والے اور دوست احباب پہنچا ہی چاہتے تھے۔وہ بہت خوش تھا۔
تقریب کو ختم ہوتے ہوتے رات کے دو بج گئے ۔اور جب وہ اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہو رہا تھا تو خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔اس کاجی چاہ رہا تھا کہ وہ اکیس توپوں کی سلامی دے۔ مگر توپ کے گولے داغنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔لیکن بندوق تو بہر حال اس کے بس میں تھی۔یہ الگ بات ہے کہ وہ بھی اس کے دوست کی تھی ۔بس پھر کیاتھااس نے آٹومیٹک گن کے اکیس راؤنڈ فائر کیے ۔اورٹھیک رات کے سوا دو بجے،وہ، خوشی سے مخمور، بیو ی بچوں کے سنگ گھر میں داخل ہو گیا۔