قیام پاکستان کے پس منظر میں ایک دل گداز آپ بیتی۔ چشم دید واقعات ۔ حقیقی تاریخ کا بیان
پیش نامہ
ایک بیوہ ماں جب اپنے اکلوتے جوان بیٹے کی لاش پر ماتم کرتی ہے تووہ یہ نہیں جانتی اور نہ جاننا چاہتی ہے کہ ادب کیا ہوتا ہے ، شاعری کسے کہتے ہیں اور خطابت کس فن کا نام ہے ؟ لیکن اس کے باوجود اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ ادب کی جان ہوتے ہیں ، شاعری کی روح ہوتے ہیں اور خطابت ان پر قربان ہوتی ہے ۔
یہی اور بالکل یہی کیفیت ان الفاظ کی ہے جن میں ماسٹر تاج الدین نے مشرقی پنجاب کی ہولناک تاریخ میں لدھیانہ اور امرت سر کے بازاروں ، سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے ہو کر پہلے اپنے صفحہ دماغ پر خود بخودابھرتے ہوئے محسوس کیا اور جو اب صفحہ کاغذ پر سیاہ روشنائی کی صورت میں آپ کے سامنے ہیں ۔
ماسٹر صاحب نے ان اوراق کو ‘‘آپ بیتی’’ کا نام دیا ہے لیکن حقیقت میں یہ ‘‘آپ بیتی’’ نہیں ، قاتل کے حملوں سے گھائل ہونے والی ایک ایسی سسکتی ہوئی روح کی بے ساختہ پکار ہے جس میں نہ کہی ہوئی باتیں ، کہی ہوئی باتوں سے زیادہ ہوتی ہیں ،یہ ‘‘آپ بیتی’’ نہیں ، ان لاکھوں بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کی زبان بے زبانی کی تڑپتی ہوئی فریاد ہے ، جو لدھیانہ اور امرتسر میں سسک سسک کر دم توڑ گئے ، بھرے گھروں سے نکالے گئے اور بیدردی سے لوٹے گئے ۔
ماسٹر تاج الدین کی یہ ‘‘آپ بیتی’’ ان واقعات کی تفصیل نہیں ہے جو خود ان کی ذات پر بیتے ، یعنی ان مظالم کی داستان نہیں ہے جو ان کی جان پر توڑے گئے ، بلکہ اپنے ان لاکھوں بھائیوں کی داستان مظلومی ہے جن کی خاطر ماسٹر صاحب اس وقت لدھیانہ اور امرتسر کے خون آلود گلی کوچوں میں گشت کرتے رہے جب تک کہ انہیں ایک ایک کر کے پاکستان نہ بھیج دیا۔ حالات کی یہ ستم ظریفی بھی کتنی عجیب ہے کہ ٹھیک اس وقت جب آگ اور خون کی ہولناک بارش سے بدحواس ہو کر ہر شخص پر نفسی نفسی کی کیفیت طاری تھی اور بڑے بڑے سورما دوسروں سے منہ موڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے ، امرتسر سے لیکر لدھیانہ تک صرف ماسٹر صاحب کی ذات وہ تنہا ذات تھی جو اپنی جان سے بے پروا ہو کر دیوانہ وار ادھر ادھر دوڑ رہی تھی ، اور پروانہ وار اپنے بھائیوں پر نثار ہو رہی تھی۔ جب گولیوں کی بوچھاڑ اور تلواروں کی جھنکار کی آواز سن کر بڑے بڑے مدعیان قیادت اپنی جان کو لیکر بھاگ کھڑے ہوئے تھے ، عین اس وقت ماسٹر صاحب اس ہنگامہ محشر سے دور بھاگنے کے بجائے اسی کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ بندوق کی گولیاں ان کے پاس سے گزر رہی تھیں ، اوپر سے اینٹوں کا مینہ برس رہا تھا اور لوگ چیخ رہے تھے ، ماسٹر جی ، ماسٹر جی ، بھاگو ، ورنہ جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، لیکن ماسٹر جی ایک ایسے دیوانے کی طرح جسے اپنی جان سے زیادہ اپنے عزیزوں اور بھائیوں کی جان پیاری ہوتی ہے ، بیچ محشر میں کھڑے دوسروں کی عافیت کا بندوبست کر رہے تھے ۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ ان کی جان بچ گئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اگست سے لے کر اکتوبر تک مشرقی پنجاب کے میدانوں میں ایک بار بھی اپنی جان بچانے کی پروا نہ کی ، اور اس وقت تک اس حشر آفریں سرزمین سے قدم نہ اٹھایا جب تک کہ ایک مسلمان بھی وہاں موجود رہا ۔
ایک چھریرے جسم کا پتلا دبلا انسان جس کی داڑھی کے سفید بال اس کی عمر اور ضعف کا پتا دیتے ہیں ، ایک ایسے محشر ستان میں یوں دیوانہ وار پھرے اور پھر جب خدا کی قدرت سے زندہ وسلامت لاہور پہنچ جائے ، تب بھی اس خدمت کا کوئی صلہ نہ مانگے ، نہ الاٹمنٹ کی درخواست، نہ نقصانات کے معاوضہ کا مطالبہ اور کرے تو یہ کرے کہ خاموشی کے ساتھ ایک گوشہ میں بیٹھ کر اپنے ان خونی مشاہدات کو دل کے آنسوؤں سے کاغذ پر رقم کرنے بیٹھ جائے ۔ اللہ اکبر! اگر یہ انسان ہے تو پھر فرشتہ کسے کہتے ہیں ؟
میں نہیں جانتا کہ میرے دل میں گداز ہے یا نہیں ، البتہ اتنا جانتا ہوں کہ کسی سخت سے سخت المناک سانحہ کے موقع پر بھی عموماً میرے آنسو مجھ سے دھوکا کرتے ہیں ، اور ایسا بہت کم ہوا ہے جب کسی حادثہ نے میرے دل کی کیفیت کو آنکھوں سے ظاہر کیا ہو ، لیکن ماسٹر صاحب کے یہ اوراق جن میں شاید رلانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے ، مجھے رلائے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں ، جس میں لکھنے والا اپنے تخیل کے زور سے المناک واقعات کو جمع کرتا ہے ، لیکن اس کے باوجود لاکھوں المناک افسانے ان اوراق کے آگے ہیچ ہیں ۔ ماسٹر جی نے عبارت آرائی یا انشا پردازی کی کوشش کہیں نہیں کی ، لیکن دل کے سچے جذبات کی سچی ترجمانی اور واقعات کی حقیقی تصویر کی حقیقی عکاسی نے ان کے الفاظ میں وہ بے ساختہ پن پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے ہزار عبارت آرائیوں اور لاکھ انشا پردازیوں کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔
آخر میں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ ماسٹر تاج الدین کا شمار ان بزرگوں میں ہے جو ہندو مسلم اتحاد کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے اور اسی بنا پر غیروں سے زیادہ اپنوں کے مطعون بنے رہے ، اس لیے آج ہندو سکھوں کی درندگی کی جو عینی شہادت ان کے قلم سے آپ کے سامنے ہے ، وہ ایک ایسی قیمتی دستاویز ہے جسے وقت کا مورخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا ۔
ان سطور کو ان اوراق یا ان اوراق کے مصنف کا تعارف نہ سمجھیے ، یہ صرف میرے جذبہ استعجاب کی ایک جھلک ہیں ، ورنہ اصل تعارف تو خود اصل اوراق ہیں ، آفتاب کا تعارف خود آفتاب ہی ہوا کرتا ہے ۔ابو سعید بزمی مدیرروزنامہ‘‘احسان’’لاہور
قسط ۔۲
میں نے جواب میں کہا کہ میں کوتوالی میں کھڑا ہوں اور سپرنٹنڈنٹ پولیس سے بات کر رہا ہوں۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس غصہ سے کانپ رہا تھا، وہ دفتر کے اندر چلا گیا، اور ڈپٹی کمشنر کو جو اندر بیٹھا ہوا تھا بلا لایا، کہنے لگا، ‘‘دیکھیے ماسٹر تاج کیا کہہ رہا ہے۔’’ میں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ مجھے اب گھر واپس نہ جانے دیں گے، کیوں نہ دل کا غبار نکال لوں۔
میں نے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے وہی جملے دہراتے ہوئے اتنا اضافہ اور کر دیا کہ ‘‘ڈپٹی کمشنر صاحب آپ بھی اس سازش میں شریک ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے آپ کی منشا کے مطابق ہو رہا ہے،’’ ڈپٹی کمشنر کو بھی غصہ آگیا، مگر خدا جانے وہ دونوں مجھ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے کیوں گھبراتے تھے، میں نے ذرا حوصلے سے کام لیتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ ‘‘آپ دونوں مجرم ہیں، میرے پاس شہادتیں بھی موجود ہیں اور کچھ تحریری ثبوت بھی،’’ جب میں نے یہ کہا کہ ‘‘گواہ ان تحریری شہادتوں سمیت دہلی جا چکے ہیں، مکمل کیس پنڈت جواہر لال کے پاس پہنچ گیا ہے۔’’ تو دونوں بزدل اور کمینہ افسر گھبرا گئے اور پینترا بدل کر بولے:‘‘اجی ماسٹر صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی اور کسی نے آپ کو بہکا دیا ہے، اندر بیٹھ کر بات کریں، شاید ہم آپ کی تسلی کر سکیں۔’’میں نے سمجھ لیا کہ تیر نشانہ پر بیٹھ چکا ہے، اندر بیٹھ کر دونوں افسروں نے مجھے بنانا شروع کیا، خود کو نہایت نیک اور مسلمانوں کے ہمدرد جتا نے لگے اور کہنے لگے:‘‘آپ بتائیں ہم کس طرح امن قائم کریں، آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں، ہم آپ کا مشورہ قبول کریں گے۔’’ موقع غنیمت جان کر میں نے ان سے کہا‘‘مجھے آپ پر اعتبار نہیں، اعتبار دلانے کے لیے آپ سب سے پہلے عبداللہ پور والوں کو نکال کر ہمارے پاس پہنچانے کا بندوبست کیجیے،’’ شام ہو چکی تھی، طے یہ ہوا کہ صبح عبداللہ پور کے تمام مسلمان حفاظت سے نکال لیے جائیں گے، دو گھنٹہ بعد مسلح گارڈ نے اس محلہ کا محاصرہ کر لیا، اور کسی سکھ کو ادھر جانے نہ دیا، تا آنکہ وہ سب لوگ اپنا مال واسباب اور ڈھورڈنگر تک لے آئے۔مجھے دوسرے روز کوتوالی سے ایک دوست نے اطلاع پہنچائی کہ اب اگر کوتوالی آؤ گے تو ڈپٹی کمشنر نے گرفتاری کا منصوبہ باندھ رکھا ہے، اور عجب نہیں کہ قتل کرا دیے جاؤ، مجھے اب کوتوالی میں کوئی کام بھی نہ تھا۔
دوسرے دن معلوم ہوا کہ سردار عبدالرب نشتر اور سردار بلدیو سنگھ تشریف لا رہے ہیں، اور تمام جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے، ہم نے سمجھا کہ اب حالات درست ہو جائیں گے، دونوں حضرات ذمہ دار حیثیت کے مالک ہیں ، ہم اپنادکھڑا روئیں گے تو کچھ انتظام ہو ہی جائے گا، ہمارا گمان تھا کہ شاید شہر آباد رہ سکے، اور مسلمان اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے، مگر تقدیر پس پردہ کھڑی ہنس رہی تھی۔ ہمیں بری طرح برباد ہو کر ظلم وستم کی ان ہولناکیوں سے دوچار ہونا تھا جو ہمارے لیے مقدر ہو چکی تھیں۔
مشترکہ میٹنگ
سردار عبدالرب نشتر اور سرداربلدیو سنگھ کی تشریف آوری پر ڈپٹی کمشنر کی یہ خواہش تھی کہ احرار کا کوئی فرد میٹنگ میں آنے نہ پائے۔ ڈپٹی کمشنر کا یہ خیال تھا کہ اکالی پارٹی اور سیوا سنگھ ایک طرف اور مسلم لیگ دوسری طرف ہو اور دونوں کی توتومیں میں ہوتی رہے، اور کام کی بات نہ ہو سکے، مگر صدر مسلم لیگ مسٹر ہلال احمد اور دیگر لیگی دوستوں نے تنہا ملنے سے انکار کر دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ماسٹر تاج الدین، مولانا حبیب الرحمن اور مفتی محمد نعیم کے بغیر ہم ملا قات نہ کریں گے۔ اب معاملہ کسی جماعت کا نہیں بلکہ تمام مسلمانان شہر کا ہے۔ غرض ڈپٹی کمشنر کے منشاء کے خلاف ہمیں مشترکہ میٹنگ میں بلا لیا گیا۔ گوپی چند پارٹی کے بعض کانگریسی نمائندے اور اکالی گروپ کے علاوہ سیوا سنگھ کے نمائندوں کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر مسٹر لوتھرا بذات خاص کھلم کھلا سرگوشیوں میں مصروف تھے ۔فسادیوں کے سرگردہ ہندو ڈپٹی کمشنر کے دائیں بائیں لیفٹنٹ کی حیثیت میں موجود تھے، خوب چخ چخ ہوئی۔
ایک کانگریسی دوست بولے کہ ماسٹر تاج اور مسلم لیگ میں فرق ہی کیا ہے، بلکہ یہ تو مسلم لیگ سے زیادہ خطرناک ہیں، ہم ان کی بات سننے کو تیار نہیں، سردار بلدیو سنگھ مجھے پہلے سے جانتے تھے انھوں نے مداخلت کی اور کہا کہ:‘‘ہم لڑانے نہیں آئے، ہم تو معاملہ کی نزاکت سمجھانے اور امن قائم کرانے کی خواہش لے کرآئے ہیں، اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو مشرق اور مغرب دونوں برباد ہو جائیں گے، آپ آپس میں صلح صفائی کر لیجیے۔’’
منگل سنگھ پارٹی سردار صاحب کے اس ارشاد پر چیں بجبیں ہوئی، کیونکہ الیکشن کے سلسلہ میں ان دونوں پارٹیوں میں کشمکش رہ چکی تھی۔
ایک ہی استدعا
مسلمانوں کی طرف سے صرف ایک ہی درخواست کی گئی کہ مسلمانوں کو شہر کے ایک حصہ میں جہاں وہ اس وقت سمٹ کر جمع ہو گئے ہیں آباد رہنے دیا جائے، اور اس حصہ پر مسلمان ملٹری کا پہرہ لگا دیا جائے۔ فوجی کرنل موجود تھا، سردار عبدالرب نشتر نے جوں توں کر کے یہ فیصلہ کرا ہی دیا، مگر ڈپٹی کمشنر برابر اڑنگا لگاتا رہا۔ ہم نے سردار صاحب کو علیحدہ لے جا کر صاف طور سے جتلا دیا کہ یہ ڈپٹی کمشنر آپ کے فیصلے کو عملی جامہ نہیں پہننے دے گا، اس لیے آپ خاص طور پر تاکید فرماتے جائیں، چنانچہ سخت تاکید کے بعد سردار عبدالرب نشتر جالندھر تشریف لے گئے۔
ہمارا اندیشہ درست نکلا، مسلمان ملٹری کو تعینات نہ کیا گیا، اور ہندو سکھ ملٹری نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، بلا وجہ مسلمانوں کو مار گرایا جاتا، اور انھیں راہ چلتے خوب تنگ کیا جاتا، آخر ایک روز ڈپٹی کمشنر نے اپنے اس اعلان سے خبث باطن کا مظاہرہ کر ہی ڈالا:‘‘دو گھنٹہ کے اندر تمام مسلمان اپنی تشریف کا ٹوکرا بڈھانالہ پر لے جائیں اور شہر خالی کر دیں ورنہ حکومت ان کے جان ومال کی ذمہ دار نہ ہو گی۔’’اس اعلان میں ڈپٹی کمشنر کے دلی جذبات منظر عام پر آگئے، مسلمانوں پر بے پناہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، پردے دار بیبیاں سروں پر گٹھڑیاں اٹھائے گرتی پڑتی ریلوے سٹیشن پر جاپہنچیں، اکثر لوگ خالی ہاتھ نکل پڑے، کروڑوں روپیوں کی جائداد، کروڑوں کا مال اور کروڑوں روپے نقد چھوڑ کر شہری آبادی نے سٹیشن کا رخ کیا اور ابھی وہاں تک پہنچنے نہ پائے تھے کہ سکھ بلوائیوں نے پولیس کی موجودگی میں حملہ کر دیا اور خستہ حال لوگ جو تھوڑا بہت سامان یا زر نقد لے کر جا رہے تھے انھیں لوٹ لیا گیا۔ جس وقت یہ تباہ حال مسلمان سٹیشن پر پہنچے تو معصوم بچوں اور مظلوم عورتوں کی چیخ وپکار سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ابھی ان ستم زدہ اشخاص کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا تھا کہ سیوا سنگھ کے کسی سورما نے مسلمان ہجوم پر بم پھینک دیا ، جس سے متعدد اشخاص زخمی ہوئے اور دو تین شہید ہو گئے، ہم نے فوراً موقع پر پہنچ کر ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی۔بلوچ ملٹری سٹیشن پر متعین تھی، اس کے چند جوان موقع واردات کی طرف لپکے، مگر ہندو اور سکھ ہجوم نے ملزم کو چھپا لیا، اور گرفتار نہ ہونے دیا۔
اس واقعہ سے بلوچی جوانوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا، وہ رائفلیں تان کر کھڑے ہو گئے، راستہ روک دیا، اور ہر ایک ہندو اور سکھ کو مسلمانوں کی طرف آنے کی ممانعت کر دی۔ ابھی دو گھنٹے نہ گزرے تھے کہ ڈپٹی کمشنر نے ایک اور حکم سنا دیا ، بقول اور چرکہ دیا جلا دنے جاتے جاتے!
وہ حکم یہ تھا‘‘ریلوے سٹیشن خالی کر دو، باہر کی سڑکیں بھی خالی کر دو، اور شہر کے اس پار جہاں محلہ چھاؤنی کا میدان ہے، (کھلے میدان میں) ڈیرہ جماؤ، یہاں رہنے کی اجازت نہیں، اگر یہاں ٹھہرو گے تو ہم تمھاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں۔’’
تھکے ماندے لوگ، بوڑھی عورتیں اور بچے سخت پریشان ہوئے، کہ تھوڑا بہت اسباب جو تانگے والوں کو چالیس چالیس روپے دے کر یہاں تک بمشکل لائے ہیں، اسے ایک میل کے فاصلہ پر کس طرح لے جائیں، سخت پریشانی کا عالم تھا، مگر حکم حاکم مرگ مفاجات، آخر میں نے مسلمانوں کو سمجھایا کہ یہاں ٹھہرنا اب خطرے سے خالی نہیں۔ حکام ہم کو تباہ وبرباد کرنے کی قسم کھا چکے ہیں، میں نے یہ کہہ کر اپنے بچوں کو ہمراہ لیا اور چل پڑا مجھے جاتے دیکھ کر بہت سے دوسرے لوگ بھی ہمراہ چل پڑے۔غرضکہ گرتے پڑتے دریا کے کنارے پہنچے تو مغرب کا وقت ہو چکا تھا، توحید کے پرستار محلہ کی مسجدوں میں جا پہنچے، اور معبود حقیقی کے سامنے سربسجود ہو گئے۔ محلہ چھاؤنی کے مسلمانوں نے صحیح معنوں میں انصار کی ڈیوٹی ادا کی۔ چودھری عبدالحق میونسپل کمشنر، اور ان کے معزز ساتھیوں نے جو کچھ میسر آیا پکا کر حاضر کر دیا، دو دن یہ مہمان نوازی جاری رہی، لوگوں نے چین کا سانس لیا۔ کچھ لوگ اپنے ہمراہ کھانے کا سامان بھی لے آئے۔ چند دن بھوک کا شکوہ نہ ہوا۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں نے جن میں میاں محمود علی عارف، بلال احمد صاحب، پروفیسر عباس، مسٹر ظہور احمد صاحب وکیل، اور دوسرے احباب تھے، آٹے دال کا بندوبست کیا، مگر مشکل یہ تھی ‘‘آٹا کہاں سے لایا جائے؟’’ بازار جانے کی اجازت نہ تھی، ادھر ادھر سے کچھ آٹا مہیا کیا گیا، اور کسی نہ کسی طرح گزارہ ہو تا رہا۔
مشکلات کے پہاڑ
اپنے شہر سے باہر ہم بے کس مسافروں کی طرح ڈیرے ڈالے پڑے تھے۔ دیکھتے دیکھتے ایک ایسا شہر آباد ہو گیا جس میں سربفلک اور خوشنما عمارتوں کی بجائے پھٹی پرانی چادروں اور کمبلوں سے بنائی ہوئی جھونپڑیاں تھیں، تاکہ تمازت آفتاب سے پناہ مل سکے، بڑے چھوٹے اور امیر وغریب کی تمیز اٹھ چکی تھی، اللہ کی بچھائی زمین پر آسمان کی نیلی چھت کے نیچے یہ بندگان خدا مل جل کر مصیبت کے دن گزارنے لگے۔
صبح سویرے ہمارے کیمپ کے نزدیک سپیشل ٹرین آکھڑی ہوئی۔ گھبرائے ہوئے مسلمان میدان حشر کا نمونہ پیش کر رہے تھے۔ نفسی نفسی کا عالم تھا، ماں کو بیٹی کا خیال نہ تھا، بھائی بہنوں کو نظر انداز کرنے لگے، لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے، پردے تک کی سدھ بدھ نہ تھی۔ ہم بہتیری کوشش کرتے اور سمجھاتے کہ صبر اور حوصلہ سے کام لو، سب ہی کو جانا ہے، آہستہ آہستہ سب پاکستان پہنچ جائیں گے۔ مگر کون سنتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دیہات کے لوگ اپنے اپنے دیہات میں موجود تھے۔ ابھی ان کے قدم اکھڑے نہ تھے، تمام مسلمان آبادی بیٹ کے علاقہ میں امیدو بیم میں زندگی گزار رہی تھی۔ یہ صرف لدھیانہ شہر کے باشندے تھے، جن کی تعداد کم وبیش ساٹھ ستر ہزار ہو گی۔ غرضکہ ریل گاڑیوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔
مسلم لیگ کے بعض مقامی لیڈروں نے مجھ سے کہا کہ ہمارا ارادہ لاہور جا کر وزراء کو متنبہ کرنے کا ہے۔ ہم انھیں ذمہ داریوں کا احساس دلائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے آپ کو ووٹ دیے۔ آپ ہمارے ہمائندے ہیں اس مصیبت میں ہمارا ہاتھ بٹایے، بات معقول تھی، میں نے بھی سر تسلیم خم کر دیا۔ کچھ دوست دوسرے دن روانہ ہو گئے، مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ لوگ بروقت امداد بھجوانے کا بندوبست کریں گے۔ ہماری مصیبتیں ہلکی ہو جائیں گی۔
یہ حقیقت ہے کہ ان مسلم لیگی دوستوں نے وزارت سے بہت کچھ کہا، مجھے ایک دوست نے بتایا، مظہر جمیل صاحب نے جو پہلے سے لاہور میں موجود تھے بڑی جرأت سے کام لیا اوروزارتی کوٹھیوں پر پہنچ کر احتجاج کیا اور ان کی کاریں بھی روک لیں، مگر وزرأ اس اچانک مصیبت سے سخت گھبراہٹ اور پریشانی میں تھے۔ ابھی قلمدان وزارت سنبھالنے نہ پائے تھے کہ مصیبتوں کے پہار ٹوٹ پڑے اب میرے پاس کیمپ میں پروفیسر غلام عباس تھے جو برابر ہاتھ بٹارہے تھے۔ چونکہ لاہور سے ہمیں کسی نے تسلی بخش جواب نہ بھیجا اور نہ ہمیں کوئی امداد ہی ملی، اس لیے میں نے ایک روز پروفیسر غلام عباس صاحب کو مجبور کیا اور کہا کہ آپ نے کیمپ کی ضروریات کو خود دیکھ لیا ہے اور آپ کو اچھا خاصا تجربہ بھی ہو چکا ہے، بہتر ہو گا آپ تشریف لے جائیں اور رہنما یان مسلم لیگ اور وزارت سے ہماری ہر ممکن امداد کی درخواست کریں پروفیسر صاحب کیمپ میں خدمت کرنا چاہتے تھے، میرے مجبور کرنے پر وہ لاہور تشریف لے گئے، اب میں تنہا رہ گیااور پچھتا رہا تھا کہ لاہور کے ذمہ دار حضرات نے دستگیری نہیں فرمائی، میں نے اپنے ساتھیوں کو کیوں جانے دیا؟بہر حال مجھے اس کیمپ میں سے کارکنوں کو تلاش کر کے ساتھ ملانا پڑا۔ راشن ختم ہو گیا، لوگ بھوک سے چلانے لگے۔ڈپٹی کمشنر خوش تھا، اس نے کبھی کیمپ میں آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بلکہ آنے جانے کی تمام راہیں بند کرادیں۔ گویا ہمارا ریلیف کیمپ ایک بڑا جیل خانہ تھا جس میں قیدیوں کو بھوکا مارا جائے۔ خدا بھلا کرے مسٹر شرما آئی سی ایس لینران آفسیر کا کہ وہ ہماری خیریت پوچھنے آئے، ہم نے پہلی ہی ملاقات میں دیکھ لیا کہ آدمی شریف ہے۔ انسانی ہمدردی موجود ہے۔ ہم نے اپنا تمام دکھ انھیں سنایا، وہ سب کچھ نوٹ کر کے لے گئے۔ اسی عرصہ میں دیہاتی مسلمان گروہ در گروہ آنے لگے، دس ہزار پانچ ہزار بیس ہزار، غرضکہ ہرروز آنے والوں کا ایک تانتا ہو گیا، مگر اس مصیبت میں ایک آسانی بھی تھی کہ دیہاتی مسلمان اپنے گڈوں پر کچھ رسد لاد کر لے آئے تھے۔ ان کے پاس سامان خورد نوش کے علاوہ کافی گندم بھی تھی۔ ان دیہاتی بھائیوں نے ہمارا ہاتھ بٹایا، بعض نے خدا واسطے اور بعض نے سستے مہنگے داموں غلہ دیا۔ مگر اتنے بڑے قافلہ میں ایک دفعہ بھوک کا سوال پیدا ہو اجائے پھر وہ سوال دبنے کی بجائے تیز ہو جایا کرتا ہے،مسٹر شرمانے ہمیں دس بوری آٹا لا کر دیا، ہمارے لیے یہی بہت کچھ تھا، بھوکوں کو کچھ سہارا ہو گیا، دو دن بعد پھر گیارہ بوری آٹا بھیج دیا، غرضکہ ہمارے آنسو پونچھنے لگے، تین دن بعد وہ بارہ بوری لے آئے، اب ہمیں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ہم سخت تقاضا کریں اور مسٹر شرما قائل ہو جائیں تو شاید آٹے کی مقدار بڑھ جائے۔ چنانچہ ہم نے مسٹر شرما کو منا لیا، وہ ڈپٹی کمشنر سے بھڑ گئے، ڈپٹی کمشنر کہتا تھا، مرنے دو کمبختوں کو بھوکا مرنے دو، مگر شرما صاحب کہتے تھے کہ آپ کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ پاکستان آپ سے مطالبہ کرے گا کہ ہمارے آدمیوں کو بھوکوں کیوں مارا۔ غرضکہ بہت سی تھوکا فضیحتی کے بعد ہمارے لیے روزانہ پچیس بوری آٹا کا بندوبست ہو گیا، مگر لاکھ کے قریب انسانوں میں ۲۵ بوری آٹا کیونکر تقسیم کیا جا سکتا۔ یہی آٹا ہمارے لیے مصیبت بن گیا، جو لوگ بھوکے رہ جاتے وہ ہمارے کارکنوں کو کوستے اور کہتے ظالمو! ہمارے حصہ کا آٹا کہاں ہے؟ تم ہم کو بھوکا مار رہے ہو، تقسیم کرنے والے کارکن افسردہ خاطر میرے پاس پہنچتے اور کہتے کہ ہماری توبہ، ہم اس کام سے باز آئے، میں انھیں تسلی دیتا اور کہتا کہ قومی خدمت میں یہی انعام ملا کرتا ہے۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے اس کے بندوں کی خدمت کرتے جاؤ وہ اجر دینے والا ہے، بہر حال یہ کھینچا تانی جاری رہی اور کسی نہ کسی طرح ہمارے کیمپ کے لوگ زندگی کے دن صبر وشکر سے گزارتے رہے،
طفل تسلی کا دور
میں کیمپ میں بیٹھا پناہ گزینوں کی داستان غم سن رہا تھا کہ ہمارا کارکن دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا، آپ نے ریڈیو سنا؟ میں نے کہا، بھائی یہاں ریڈیو کا کیا کام، وہ کہنے لگا ’ چھاؤنی محلہ میں ایک دوست کے مکان پر ریڈیو ہے، آج پاکستان ریڈیو نے یہ خبر نشر کی ہے کہ لدھیانہ کے لیے حکومت پاکستان نے مسٹر بشیر احمد کولیزان آفیسر مقرر کر دیا ہے۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا، اور میں نے سمجھا کہ اب ہمارے بھلے دن آگئے، ہمارا اپنا لیزان آفیسر ہو گا، اس کی جیپ کار ہو گی، فوجی ٹرک ہو گا، مسلمان فوجی ہوں گے، وغیر وغیرہ یقینا اب ہمیں کوئی ہندو فوجی یا ایڈیشنل پولیس کا سکھ نہ ستا سکے گا۔دل سے دعا نکلی، اللہ پاکستان گورنمنٹ کا بھلا کرے جس نے بیکس مسلمانوں کی فریاد سنی، اورا مداد بھیج دی۔ اب ہماری آنکھیں جرنیلی سڑک کا طواف کرنے لگیں کہ اب ہمارا لیزان آفیسر آتا ہے، ایک ، دودن ، چار دن، دس دن، پندرہ دن، غرضکہ انتظار کا زمانہ طویل ہوتا گیا۔ اتنا عرصہ تو کسی عاشق نے معشوق کے راستہ میں آنکھیں نہ بچھائی ہوں گی، جتنی ہم ریلیف کیمپ والوں نے اپنے لیزان آفیسر کی راہ تکی۔ کچھ دنوں بعد جب ہم مایوس ہو گئے تو لدھیانہ کے دو دوست لاہور سے تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ مسٹر بشیر صاحب لیزان آفیسر جالندھر آگئے ہیں۔ہم ان کے ہمراہ تھے، ایک دوست مسٹر اسلم نے کہا کہ میں ان کاپی اے ہوں۔ ہم ان سے بغل گیر ہوئے اور پوچھا کہ وہ کب آرہے ہیں ، فرمانے لگے بس زیادہ سے زیادہ پرسوں تشریف لے آئیں گے۔ بہت ہی شریف آدمی ہیں، بڑے ہمدرد انسان ہیں ہماری تسلی ہو گئی۔ اب ہماری جگہ انتظار کرنے کی ڈیوٹی مسٹر اسلم نے سنبھال لی ۔وہ صبح سویرے ہی جی ٹی روڈ پر جا بیٹھتے اور بڈھے نالے کی بے ربط موجوں کو گنتے گنتے تھک جاتے۔ شام ہوتی تو اداس اداس واپس آجاتے۔بے چارہ شریف نوجوان پریشان بھی ہوتا اور شرمندہ بھی، غرضکہ کافی دنوں انتظار کے بعد اسلم صاحب بھی ڈھونڈنے کے لیے جالندھر کے راستے لاہور روانہ ہو گئے۔
ایک ماہ بعد کیمپ کے وسطی علاقہ سے ایک پناہ گزین دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگاکہ مبارک ہو لیزان آفیسر مسٹر بشیر صاحب تشریف لے آئے ، وہ آپ کے پاس نہیں پہنچے؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ وہ دیہاتی کہنے لگا کہ ان کے پاس جیپ کار اور فوجی پہرہ دار بھی تھا۔ وہ سڑک کے کنارے کار روک کر ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگو! جس افسر کا تمھیں انتظار تھا وہ افسر میں ہوں، میں آگیا ہوں اور کیمپ کی طرف جا رہا ہوں۔
غرضکہ خداوند یسوع مسیح کے ارشاد کے مطابق جس طرح انھوں نے بائبل کے ایک باب میں فرمایا کہ اے لوگو جس کا تمھیں انتظار تھا وہ آگیا اور وہ میں ہوں۔ بشیر احمد صاحب نے سیدھے سیشن جج یا خدا جانے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کا رخ کیا اور وہیں سے لاہور تشریف لے گئے۔
یہ تھی طفل تسلی جو پاکستان ریڈیو نے نشر کی اور یہ تھے ہمارے لیزان آفیسر جن کے سپرد لدھیانہ کیمپ کی دیکھ بھال تھی، وقت تھا گزر گیا، اب شکوہ و شکایت کا موقع نہیں
سفینہ جبکہ کنارے پر آ لگا غالب
خدا سے کیا ستم و جور نا خدا کہیے
آفات ارضی وسماوی کا نزول
ہمارا شہر جسے ہم بہت ہی صاف ستھرا رکھنے کے عادی تھے، سکھوں اورپناہ گزین ہندوؤں کے ہجوم نے اس قدر گندہ کر دیا کہ سڑکوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگ گئے، تمام شہر متعفن ہو گیا، جدھر دیکھیے غلاظت کے ڈھیر نظر آتے ، نتیجہ کے طور شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا، روزانہ پچاسوں، انسان مرنے لگے۔ یہ وبا کسی نہ کسی طرح ہمارے کیمپ تک بھی پہنچ گئی، دو چا آدمی ہمارے ہاں بھی ہیضہ سے مرنے لگے۔ ڈاکٹر براؤن کے ہسپتال سے نرسیں اور لیڈی ڈاکٹر ز آگئیں۔ ڈاکٹر پولک اور ڈاکٹر مارٹین دونوں عورتیں یوروپین ہیں۔ وہ دن میں کئی بار ہمارے کیمپ کا معائنہ کرتیں، جب مرض پھیلنا شروع ہوا تو وہ میرے پاس آئیں۔ اور کہنے لگیں کہ ہم نے ہیضہ کے انجکشن منگوائے ہیں، آپ لوگوں کو آمادہ کیجیے کہ وہ انجکشن لگوائیں۔ میں ان کے ہمراہ ہو گیا، اور اپنے تمام ساتھیوں کو کیمپ میں دوڑا دیا کہ سب کو لائنوں میں کھڑا کر دو، اور زبردستی اور جبر کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو، کیونکہ انسانی جان بچانے کے لیے سختی بھی جائز ہے۔
غرضکہ ایک ہفتہ میں چالیس ہزار مسلمانوں کو انجکشن لگا دیا گیا۔ مرنے والوں کی تعداد کم ہونے لگی، یعنی دن میں دو چار اور کبھی کبھی ناغہ بھی ہونے لگا۔ ہمارا کیمپ بھی کسی قدر گندہ ہو گیا، لوگوں میں قوت مدافعت کم ہو گئی اور بے حوصلہ لوگ صفائی کی طرف سے منہ پھیرنے لگے۔ انگریز نرسوں نے انسانی خدمت کا بہت بلند معیار پیش کیا، ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ انسانی مداد کے لیے آسمان سے فرشتے اتر آئے ہیں۔گندے جسم کے لوگوں کو وہ اس محبت بھرے انداز میں اٹھاتی تھیں کہ منہ سے بے اختیار دعائیں نکلتیں۔ کاش یہ نیک عورتیں مسلمان ہوتیں یا مسلمان عورتیں ایسی خدمت گزار۔
ہیضہ کا زور کم ہوا تو آسمان پر بادل گھر آئے، کالی کالی گھٹاؤں کے ساتھ خنک ہوائیں چلنے لگیں، موسم بدل چکا تھا، گرمی کم ہو گئی، رات کو چادر اوڑھنے کی ضرورت محسوس ہوتی اور پچھلے پہر کمبل اوڑھنے کی، بادل گرجنا شروع ہوئے، ہمارے دل سہم گئے، ہمارے سامنے کیمپ کی بیکسی کا نقشہ تھا۔ ہم میں سے ا کثر سجدوں میں گر گئے اورگڑ گڑا کر دعائیں مانگنے لگے، کہ اے خدا ہم جنگل میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، ہمارے پاس کوئی سامان نہیں، بارش آگئی تو لاکھ کے قریب انسان کہاں پناہ ڈھونڈیں گے۔ تو ہی ہمارا ملجا وماویٰ ہے، ہوا کے تیز تیز جھونکے بادلوں کو اڑا کر لے گئے۔ ہمارے جان میں جان آتی، اللہ کا شکر ادا کیا، پھر بھی ہلکے ہلکے بادل ادھر ادھر اڑے پھرتے اور ہمیں ڈرا رہے تھے۔ لوگوں نے بادلوں کی بے رخی دیکھ کر خود کو سنبھالنا شروع کر دیا، ہم نے کچھ لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ نشیب کو چھوڑ دیں اور بلند سطح پر ڈیرہ جما لیں، مگر اس قدر بلندی کہاں تھی کہ سب سما سکیں۔
دو دن بعد پھر کالی گھٹائیں آگئیں، بادل گرجنے لگے، غریب مسلمانوں کے دل دہلنے لگے۔ بارش شروع ہو گئی اور چھاجوں مینہ برسنے لگا، کچھ لوگ جان بچانے کے لیے چھاؤنی محلہ کی طرف بھاگ پڑے۔ ان دنوں ہمارے کیمپ پر مسلمان ملٹری کا پہرہ تھا۔ ملٹری کا جمعدار آیا وہ مجھے کہنے لگا کہ میں چھاؤنی کے بند مکانوں کو کھلواتا ہوں اور اپنے فوجیوں کو بھیجتا ہوں۔ آپ عورتوں اور بچوں کو بھیجئے تاکہ انھیں مکانوں کے اندر پناہ دی جا سکے۔میں نے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور کیمپ کا رخ کیا ہم جس قدر زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو لا سکتے تھے لائے۔ پانی نے جل تھل کر دیا بھیگتے بھاگتے اور گرتے پڑتے لوگ کسی نہ کسی طرح محلہ میں داخل ہو گئے مگر یہ تھے کتنے؟ بہت ہی کم، باقی تمام نے چادر وں کے کمزور سائبانوں میں خود کو چھپانا چاہا، مگر ہواکے تیز اور تند جھونکوں اور بارش کی اندھا دھند یورش نے سب کچھ درہم برہم کر دیا۔ قیامت صغریٰ کا نمونہ تھا، نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔آسمان رات بھر برستا رہا، صبح ہوتے اور تیز ہو گیا۔ شام ہوئی رات آگئی لیکن بارش کو بند نہ ہونا تھا،نہ ہوئی۔ کوئی کوئی کچا مکان گرنے لگا، بعض پختہ مکانوں کی باری بھی آگئی، اس آفت میں کھانا پینا کیسا، تیسرے دن بارش تھی، باہر نکلے چاروں طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا، فوج کا بریگیڈ آگیا۔ یہ ایک شریف قسم کا انگریز افسر تھا، میری اس سے کچھ دن پہلے کی شناسائی تھی، اس نے کہا مسٹر تاج آؤ میرے ساتھ چلتے ہو۔ دیکھیں کیمپ کے اس سرے کا کیا حال ہے؟ وہاں دریائے ستلج قریب ہے، میں ان کی جیپ کار میں بیٹھ گیا، پانچ میل کے فاصلے پر پانی نے سڑک کا راستہ روک لیا تھا، مگر بریگیڈیر نے حوصلہ سے کام لیا اور کار کو پانی میں ڈال دیا، دو منٹ میں ہم پانی پار کر گئے، آگے جا کر دیکھا کچھ مویشی بہے جا رہے تھے اور کچھ عورتیں اور بچے پانی میں گھر ے ہوئے تھے، ہم نے انھیں کم پانی کی طرف آنے کا مشورہ دیا اور پھر انھیں سڑک کے راستے کیمپ کی طرف بھیج دیا، کچھ بکریاں بہہ گئیں، انسانی جانوں کا بھی کافی نقصان ہوا۔
بریگیڈیر نے مجھے پوچھا کہ کیا اب یہ پانی کم ہو جائے گا، مجھے دریائے ستلج کی طغیانی کا تجربہ تھا، میں نے اسے کہہ دیا آج پانی اسی قدر رہے گا مگر کل کے لیے مجھے اندیشہ ہے کیونکہ بارش کے دوسر ے روز ستلج میں ضرور طغیانی آتی ہے، اوپر سے پانی کا ریلا آئے گا اور کنارے اچھل پڑیں گے، ہم واپس ہوئے اور لوگوں سے کہہ دیا کہ فوراً جگہ چھور کر سڑک پر آ جاؤ، جس قدر گڈے بیل نکالے جا سکتے ہیں انھیں نکال لو اور قلعہ کی بلندیوں پر لے آؤ تاکہ آنے والے خطرے سے محفوظ ہو جاؤ۔میرا خیال درست ثابت ہوا ، دوسرے دن صبح سویرے لوگ بھاگ پڑے اور کیمپ میں پہنچ کر اطلاع دی کہ پانی کی دیواریں چلی آرہی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے ستلج کا پانی محلہ چھاؤنی کی دیواروں سے ٹکرانے لگا۔ شام تک یہی قیامت خیز منظر رہا، اندیشہ تھا کہ اگر پانی اور زیادہ چڑھ آیا توصرف کیمپ نہیں شہر کی بھی خیر نہیں۔ رات جاگ کرکاٹی، علی الصبح پانی کسی قدر کم ہوا۔ ڈپٹی کمشنر بدل چکا تھا اور اس کی جگہ ایک نہایت نیک اور شریف نوجوان مسٹر سہگل آگیا تھا۔ سپر نٹنڈنٹ پولیس بھی رفو چکر ہو گیا، اس کی جگہ بھی ہمارے ایک پرانے دوست سردار نریندر سنگھ آگئے تھے۔ یہ دونوں افسر جائے وقوع پر آگئے ہر ممکن سہولت تلاش کی گئی، مگر خدا کی طرف سے عذاب نازل ہو جائے تو بندے کیا کر سکتے ہیں۔ اب ہمیں یقین ہو گیا کہ ہمارا خدا ہم سے روٹھ چکا ہے، اسے منائے بغیر چھٹکارا نہیں۔
لاشوں کا شہر
مصیبتیں کبھی تنہا نہیں آتیں، ہیضہ سے کبھی چھٹکارا ہوا تو سیلاب اور بارش نے گھیر لیا، اس سے جان چھوٹی تو دوسری آفتوں نے ستم ڈھانے شروع کر دیے۔ ایک شام انگریز کرنل نے مجھے بلا بھیجا، وہ سڑک کے کنارے اپنی جیپ کار میں بیٹھا میرا انتطار کر رہا تھا، میں پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر حسب عادت مسکرایا اور کہنے لگا:۔‘‘کیمپ ایریا میں سخت بدبو پھیل رہی ہے، طغیانی کی وجہ سے جو ڈنگرڈھور مر گئے ان کی لاشیں سڑ رہی ہیں، اور جرنیلی سڑک پر سے گزرنا مشکل ہے، آئیے ان لاشوں کو اٹھوانے کا بندوبست کریں۔’’میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘بھنگیوں کا کام ہم سے نہ ہو سکے گا۔’’کرنل کہنے لگا کہ ‘‘ تم سب مرو گے، بیماری پھیل جائے گی، میں کچھ بھنگی بھیجتا ہوں کچھ اپنے آدمی لگاؤ اور کسی صورت ان لاشوں کو اٹھواؤ۔’’مختصر یہ کہ جوں توں کر کے ہم اس کام سے فارغ ہو گئے، مغرب کے بعد کرنل پھر آگیا۔ وہ پاکستان کے بارے میں مجھ سے تبادلۂ خیال کرنے لگا۔ شاید وہ ٹٹول رہا تھا کہ میں کیا ہوں، اس وقت تک میری طبیعت میں تذبذب تھا، میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ:‘‘آب ودانہ کی بات ہے، جہاں مقدر لے جائے، جانا پڑتا ہے، ابھی تو کیمپ کی ذمہ داری نے پریشان کر رکھا ہے۔’’کرنل نے براہ راست سوال کیا۔ ‘‘تمھارا کیا خیال ہے، پاکستان کی حکومت چل سکے گی؟’’
میں نے اس سوال کو کرنل کی طرف لوٹادیا اور کہا ‘‘آپ کا کیا خیال ہے؟’’وہ جواب دینے کے لیے مجبور ہو گیا، اور کہنے لگا کہ ‘‘مسلمانوں میں بڑے بڑے قابل لوگ ہیں، ان کا لیڈر نہایت تجربہ کار انسان ہے۔’’میں نے یہ کہتے ہوئے اس بحث کا کام تمام کیا کہ ‘‘پھر شک کی گنجائش ہی کہاں ہے؟’’کرنل چلا گیا، میں آج زیادہ تھکا ہوا تھا، عشاء کی نماز پڑھتے ہی سو گیا۔ طبیعت بلا وجہ اداس تھی، رات کو پریشان کن خواب دکھائی دیتے رہے، اور میں ہر ہر کروٹ پر جاگتا رہا۔ تھکن پھر سلا دیتی اور میں پھر جاگ اٹھتا، رات کے تین بجے جب نیند نے پورا غلبہ پا لیا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ مکان کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا جا رہا ہے اور کوئی کہہ رہا کہ فوجی افسر بلا رہا ہے جلدی آئیے!میں سمجھا یہ بھی خواب ہے، شام کو کرنل سے باتیں کرتا رہا، اب دماغ نے ان باتوں کو دہرانا شروع کیا ہے، کروٹ لے کر پھر سونے لگا کہ کسی زور سے مجھے پکارا اور کہا:۔‘‘کرنل صاحب خفا ہو رہے ہیں، وہ کہتے ہیں جلدی جگا لاؤ، ایک ضروری کام ہے۔’’میں اٹھا اور جلدی جلدی قدم اٹھاتا ہوا لب سڑک کرنل کے پاس پہنچ گیا، وہ خود تو جیپ کار میں سوار تھا مگر اس کے ہمراہ فوجی ٹرک بھی تھے، جن میں سپاہیوں کے علاوہ فوجی افسر بھی تھے، کرنل جیپ سے اتر آیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا:۔‘‘تاج! بڑی افسوسناک خبر لایا ہوں ، حوصلہ سے بات سنو۔’’میں نے کہا ‘‘فرمائیے کیا خبر ہے، میں سننے کے لیے تیار ہوں۔’’کرنل کہنے لگا ‘‘مسلمان پناہ گزینوں کی گاڑی کو لدھیانہ سے دس میل کے فاصلہ پر سکھ بلوائیوں نے روک کر مسلمانوں کو قتل عام کر دیا۔ چلو ریلوے سٹیشن پر گاڑی آگئی ہے لاشوں سے پلیٹ فارم بھرا پڑا ہے، آؤ میرے ساتھ چلو، اور سنو! میرا ارادہ ہے کہ ان لاشوں کو رات ہی میں دفنا دیا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو کیمپ کے مسلمانوں پر ایک ہراس چھا جائے گا، تمھارا کیا خیال ہے؟’’میں نے ایک منٹ تک سوچا، اس خبر سے دل کو سخت صدمہ پہنچا تھا، میں نے خود کو سنبھال لیا، اور ٹھنڈے دل سے سوچ کر بالآخر کرنل کی رائے سے اتفاق کیا اور پھر کرنل سے کہا:‘ٹھہرو میں اپنے ساتھیوں کو جگا لوں اور لاشیں اٹھوانے کا بندو بست کر لوں، میرے پاس ٹرک چھوڑ دو، ان فوجی افسروں سے کہہ دو کہ آدھ گھنٹہ میرا انتظار کریں، میں بندوبست کر کے آتا ہوں۔’’کرنل نے خود بھی ٹھہر جانا پسند کیا، میں نے سب سے پہلے خواجہ عبدالمجید کو جو میرے سمجھ دار اور بہادر ساتھی تھے، جگایا اور ان سے کہا۔ ‘‘قیامت ٹوٹ پڑی ہے، جلدی چلو۔’’آدھ گھنٹہ میں ہم نے سو کے قریب نوجوانوں کو جمع کر لیا، نصف کو ستلج کے کنارے کدالیں اور پھاوڑے دے کر قبر یں کھودنے کے لیے بھیج دیا اور نصف کو ٹرکوں میں سوار کر کے ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ کر دیا۔ کرنل نے مجھے اپنے ہمراہ بٹھا لیا، وہ شریف انگریز بار بار اظہار افسوس کر رہا تھا اور کہتا تھا ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں اسی وقت پتا چلتا ہے جب واقعہ ہو جاتا ہے۔
دردناک منظر
ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو چیخ وپکار کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہاں فرنٹیر فورس کے کچھ جوان اور ان کے افسر موجود تھے، مگر انھیں انگریز افسروں نے پلیٹ فارم پر جانے نہ دیا، شاید انھیں یہ خیال تھا کہ مسلمان فوجی بھڑک اٹھے تو آگ پر قابو پانا محال ہو جائے گا۔بہر حال ہم پلیٹ فارم کے ایک سرے پر پہنچے، پہرہ داروں نے ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی، میں نے اپنے ساتھیوں کو روک کہا۔‘‘دیکھو حوصلے سے کام لینا، نظارہ دردناک ہو گا، اپنے کلیجوں پر پتھر رکھ لو، رونے دھونے سے مرے ہوئے انسان واپس نہیں آجاتے، ہماری ڈیوٹی بہت سخت ہے، آؤ میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں، اور بسم اللہ میں خود کروں گا، شہیدوں کی لاشوں کی دفنانا اور کفنانا بہت بڑی نیکی ہے، ایسانہ ہو ہم حوصلہ ہار جائیں اور ان لاشوں کے بے حرمتی ہو،’’
ہم سب چارپائیاں لے کر آگے بڑھے، پورا پلیٹ فارم مسلمان شہدا کے خون سے رنگین تھا، تازہ واردات تھی، لاشوں میں سے خون بہہ رہا تھا، بوڑھے، عورتیں، معصوم چھوٹے چھوٹے بچے، لڑکیاں اور نوجوان چپ چاپ اندی نیند سو رہے تھے۔ ہم نے اپنے کرتوں کی باہیں چڑھالیں اور لاشوں کو اٹھا اٹھا کر چارپائیوں پر ڈالنا شروع کیا، جو ان عورتیں اپنے جوان شوہروں کی لاشوں سے لپٹ لپٹ کر آہ زاری کر رہی تھیں۔ دل کانپ کانپ جاتا تھا، کبھی کبھی پاؤں ڈگمگا جاتے ’ خود بھی سنبھلتا اور ساتھیوں کو بھی حوصلہ دلاتا، اور پھر ہم اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں مگن ہو جاتے۔
ناقابل برداشت نظارہ
لاشیں اٹھاتے اٹھاتے میں اور میرے ساتھی آگے بڑھے جا رہے تھے کہ ہمیں تین نوجوانون کی لاشیں ایک دوسرے کے پہلو پہ پڑی نظر آئیں، ان لاشوں کے سرہانے ایک ادھیڑ عمر کی عورت خاموش بیٹھی ہوئی تھی، نہ اس کی آنکھ میں آنسو تھے نہ وہ نالہ وشیون کرتی تھی۔ میں نے ان لاشوں کو بغور دیکھا، ایک بیس سال کا کڑیل جوان تھا، دوسرا سترہ اٹھارہ سال کا اور تیسرا کوئی چودہ پندرہ سال کا نوجوان۔ ان تینوں کی صورتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھیں۔ ان بھولی بھالی صورتوں کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ تین فرشتے بھٹک کر آسمان سے زمین پر اتر آئے ہیں اور کسی سنگدل گروہ نے انھیں ذبح کر دیاہے۔ میں دو تین منٹ کھڑا حیرانی سے ان لاشوں کا منہ تکتا رہا، ان لاشوں میں اس خاموش عورت کا نظارہ بہت جانکاہ تھا، جو سنگ مر مر کا بت بنی بیٹھی تھی۔ میں چونکا اور فوراً جذبات پر قابو پا کر ساتھیوں کو پکارا ‘‘آؤ اپنا فرض ادا کریں’’ یہ کہا اور ایک لاش کو اٹھایا، عورت نے ہماری طرف دیکھا اور انگلی اٹھاتے ہوئے کہا ‘‘ایک۔’’ میں سمجھا دیوانہ عورت ہے، لاش کو چارپائی پر ڈالا اور رضاکاروں سے کہا۔ ‘‘اٹھا کر لے چلو۔’’ پھر دوسری لاش کو اٹھایا عورت نے پھر ہماری طرف دیکھا اور دو انگلیاں اٹھا کر کہا ‘‘دو۔’’ بات سیدھی سی تھی، اس میں کوئی شاعری بھی نہ تھی، مگر لفظ ‘‘دو’’ سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے ہمارے دلوں پر دونالی بندوق سے فائر کر دیا ہے، ہمارے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے، پھر بھی ہم نے حوصلے سے کام لیا، اور کسی نہ کسی طرح لاش کو چارپائی پر لٹا دیا، پھر تیسری لاش کو اٹھایا، اس عورت نے پہلو بدل لیا اور کہا‘‘تین’’۔ ہمارے بازوؤں میں سکت نہ رہی، ہم نے لاش کو وہیں رکھ دیا اور عورت سے پوچھا، یہ تینوں کون تھے؟ کہنے لگی ‘‘میرے بیٹے!’’ یہ کہا اور آنکھیں بند کر لیں، وہ مظلوم عورت غم کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئی۔اس کے سر پر ہاتھ رکھا، اس نے آنکھیں کھول دیں۔ مذہبی نقطۂ نگاہ سے میں نے اسے سمجھانا شروع کیا، میرے اپنے دل پر بوجھ تھا، میں نے اس کے سامنے وعظ کہا، آہستہ آہستہ اس عورت کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے، میں نے اسے دنیا کی بے ثباتی کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ جو خدا ہمیں اولاد کی نعمت دیتا ہے اگر واپس بلا لے تویوں پاگل نہ ہو جانا چاہیے۔ اس کے کاموں میں کسی کا دخل نہیں،’’ عورت دھاڑیں مار مار کر رونے لگی اور جوان بیٹے کی لاش سے لپٹ گئی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پلیٹ فارم کے پتھر بھی پگھل رہے ہیں، اور درودیوار رو رہے ہیں، مجھے تسلی ہو گئی کہ آنسوؤں کے بہہ جانے سے دل کا غبار چھٹ جائے گا، ہم نے بڑی مشکل سے لاش کو اس عورت سے چھینا، گویا ہم ماں کو اس کی مامتا سے محروم کر رہے تھے۔
اس روز ہم نے دیکھا کہ دس دس دن کے بچے شہید کر دئیے گئے ہیں، یوں معلوم ہوتا تھا کہ گلاب کی پنکھڑیاں نوچ کر بکھیر دی گئی ہیں۔ ابھی سورج طلوع نہ ہوا تھا کہ ہم سب لاشیں ستلج کے کنارے لے گئے۔ پانچ گھنٹے کی محنت شاقہ کے بعد ہم اس نازک اور دلخراش فرض سے سبکدوش ہوئے۔ (جاری ہے)