گزشتہ دنوں ایک مسجد میں نماز عصر کا سلام پھیرنے کے بعد ایک نوجوان کسی سبب باہر جانے کے لئے کھڑا ہوا اور نماز پڑھنے والے نمازیوں کا خیال کئے بغیر پیچھے جانے لگا تو ایک نمازی نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘جانے کی اتنی جلدی ہوتی ہے تو پہلی صف میں نماز کیوں پڑھتے ہو ’’ مجھے یہ سرزنش درست محسوس نہیں ہوئی ۔ سلام پھیرتے ہی فرض نماز مکمل ہوجا تی ہے ا ور با جماعت نماز ادا کرنے والے کو اٹھنے اور باہر جانے کا پورا حق حا صل ہے۔ آج کل تقریباًہرمسجد میں ایسے بہت سے نمازی ہوتے ہیں جو جماعت میں لیٹ شریک ہوئے ہوتے ہیں اور وہ سلام کے بعد اپنی نماز پوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے مندرجہ بالا واقعہ پیش آیا اور اکثر اگلی صفوں کے نمازیوں کو یہ مرحلہ در پیش ہوتا ہے حج کے موقع پر بیت اللہ اور مسجد نبوی میں نمازیوں کے سامنے سے گزرنا بالکل معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔ اس سلسلے میں عام مساجد میں کیا معمول اختیا رکیا جائے کہ جانے والے بھی پریشان نہ ہوں اور نمازی بھی ، یہ آگاہی دینا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے ۔
مو جودہ حالات میں صفوں کے دونوں جانب راستہ رکھنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے جہاں نماز نہ ہو سکے ۔ جماعت کے ختم ہونے کے بعد درمیان میں بھی مختلف رنگ کی جائے نمازوں کے استعمال کے ذریعے سے پابندی لگائی جا سکتی ہے کہ وہاں سنتیں اور نوافل ادانہ کئے جائیں تاکہ فرض نماز یا نوافل کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر جانے والوں کو نمازیوں کے سا منے سے گزرنا نہ پڑے ۔بعض مسا جد میں صفوں کے دائیں بائیں یا کسی ایک طرف دروازے بھی ہوتے ہیں یہ بھی ایک اچھی سہولت ہے ۔ نیز بڑے ہالوں ’برآمدوں اور صحنوں میں سترے (آڑ) کا انتظام کیا جا سکتا ہے ۔پیچھے نوافل ادا کرنے والوں کو خود بھی ایسی جگہ کھڑے ہونا چائیے کہ آگے والوں کو دشواری کا سامنانہ کرنا پڑے ۔جمعہ کی نماز کے بعد بالخصوص بہت سے نمازی دعا کے بعد گھر جا کر سنتیں ادا کرنا چاہتے ہیں ۔مسجد میں ہی سنتیں ادا کرنے والوں کو نیت باندھنے سے پہلے اتنا توقف ضرور کرنا چائیے کہ باہر نکلنے والوں کو بالکل دشواری نہ ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ اول وقت پرتکبیر اولیٰ کے ساتھ اگلی صفوں میں نماز پڑھنے والے نماز کے بعد با آسانی باہر نکل سکیں ۔
اس معاملہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے عہد نبویؐ میں خوا تین بھی مسا جد میں نمازادا کرتی تھیں اور احادیث کے مطابق پہلے مردوں پھر بچوں اور اس کے بعد خواتین کی صفیں ہو تی تھیں۔ نماز کے بعد مرد حضرات اتنا توقف کرتے تھے کہ خواتین مسجد سے باہر چلی جا ئیں اور اس کے بعد وہ اٹھیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیر سے آنے کا کوئی رواج بلکہ تصور تک نہ تھا ۔تاخیر سے شریک ہونے والوں کے بارے میں مسائل فقہ کی کتابوں میں تو ملتے ہیں مگر احا دیث میں کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔دیر سے آنیوالے ذرا تصور کریں کہ اگر وہ عہد نبویؐ میں ہوتے تو جماعت میں کیسے شرکت کرتے !آئمہ کرام کو بھی چاہیے کہ وہ نمازیوں کو صف اول میں بیٹھنے اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز میں شرکت کرنے کے اجروثواب سے بار با ر آگاہ کریں ۔اگر سورۃ فاتحہ اور قرآن کے مضامین بار بار دہرائے جانا ضروری ہیں تو انسانی بھول اس کی بھی متقاضی ہے کہ نماز ’نمازباجماعت ’صف اول کی نماز ’ تکبیر اولیٰ کیساتھ نماز ’سکون واطمینان سے نماز اور نماز کے دیگر افعال کے اجرو ثواب سے آگاہ کیا جا تا رہے تاکہ دیر سے آنے کا رحجان اور رواج ختم ہو سکے اور ختم نہ ہو تو کم ہی ہو سکے ۔
مسجد میں ادائیگی نماز کے حوالے سے کچھ اور امور بھی قا بل توجہ ہیں
لاؤ ڈ سپیکر کا استعمال ایک زمانے میں ممنوع تھا ۔پہلے پہل عید ،بقر عید پر شروع ہوا پھر جمعہ اور اب تمام نمازوں میں استعمال ہوتا ہے حتی کہ چھوٹی چھوٹی مساجد میں بھی۔جہاں بغیرسپیکر کے پیش امام کی آواز تمام نمازیوں کو با آسانی پہنچ سکتی ہو وہاں سپیکر سے نہ صرف بجلی کا اسراف ہوتا ہے بلکہ کانوں پر گراں گزرتا ہے اورحسن قر آت تو اس سے متاثرہوتاہی ہے ۔کیا مساجد کی انتظامی کمیٹیاں اور آئمہ کرام یہ طے نہیں کر سکتے کہ لاؤڈ سپیکر کا استعمال صرف ضرورت کے موقع پر ہوگا؟اذان تو ضرور لاؤڈ سپیکر پر ہی ہو نی چائیے ۔ بعض مساجد میں اقامت کی آوازپوری مسجد اور وضو خانوں تک نہیں پہنچ پاتی اور امام کی تکبیر اولیٰ سے حاضرین مسجد کو جماعت کے کھڑے ہونے کا علم ہوتا ہے ۔اگر اقامت بھی لاؤڈسپیکر پر ہو تو وضو کرنے والا تیزی کر سکتا ہے ’دروازے تک پہنچنے ولا نمازی رفتار میں اضافہ کر سکتا ہے اور سنتیں اور نوافل ادا کرنے والا نمازی فرض میں زیادہ سے زیادہ شریک رہنے کیلئے اختصار کر سکتا ہے یہ دشوار کام بھی نہیں ہوگا کہ پہلے مکبّر اقامت مائیک پر کہے اورپھر اُسے قرآت کیلئے امام کے حوالے کر دے۔کچھ مساجد میں ایسا ہی ہو تا ہے۔
بعض مسا جد میں روایتاًیا پابندی سنت کی غرض سے اقامت کے بعد پیش امام صاحب اعلان کرتے ہیں کہ ‘‘ صفیں درست کر لیں ’’لیکن سنت پر مکمل عمل نہیں ہوتا کہ دیکھا جائے کہ پیچھے صفیں کس طرح بنی ہیں ۔چھوٹے بچے درمیان میں نہ ہو ں ’خلانہ ہو’ پہلی صف مکمل ہو کر دوسری بن رہی ہو ’امام کے پیچھے سے شروع ہو کر دونوں طرف یکساں بڑھ رہی ہو وغیرہ بالعموم مسجد کے دروازے اور وضو خانے کی جانب لوگ صف بڑھاتے ہیں اور دوسری جانب توازن برقرار نہیں رہتا ۔جن مساجد میں صفوں میں بیٹھے ہوئے نمازی اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے نہیں ہوتے بلکہ حی علی الصلوۃ یا قدقامت الصلوۃپر کھڑے ہوتے ہیں وہاں آئمہ کرام کو بالخصوص کچھ انتظار کرنا اور دیکھنا چائیے کہ صفیں درست ہو جائیں اور خلا نہ رہے ۔وقت کم رہ جانے کے سبب نماز جمعہ اور عام نمازوں میں بھی زیادہ نمازیوں کی موجودگی میں اس کا امکان زیادہ ہو تا ہے کہ صفیں درست نہ ہونے پائیں اورنماز شروع ہو جائے ۔صفوں میں خلارہ جانے کو حضور ﷺ نے نا پسند فرمایا ہے ۔
جماعت میں مقتدی کو امام کی مکمل پیروی کرنا ہوتی ہے اور وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو امام کرے مگر اس طرح کہ نہ امام سے پہلے نہ امام کے بعد ’ بعض لوگ قرأ ت ختم ہو تے ہی امام سے پہلے ہا تھ چھوڑ دیتے ہیں اور رکوع میں جانے لگتے ہیں ’اس طرح نماز ضائع ہو جا تی ہے ’حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص امام سے آگے نکل جائے گا قیامت میں اس کا سر گدھے کے سر کی طرح ہو گا ’مناسب ہوگا کہ جب امام تکبیر مکمل کر چکے تو مقتدی پیروی کیلئے اپنی جگہ سے ہلیں۔
نماز میں سر ڈھانپنا یقینا تہذیب اور ادب کا تقاضا ہے لیکن مردوں کے سر اور بال ستر میں شامل نہیں ۔ننگے سر بھی نماز ادا ہو جاتی ہے ۔بعض مساجد میں اس سلسلے میں شدت کا مظاہرہ کیا جا تا ہے۔ دوسرا کوئی شخص سر پر مسجد کی نا مناسب سی ٹوپی رکھ دیتا ہے ’ ٹوپی نہ پہننے پر برا بھلاکہا جاتا ہے حتیٰ کہ بعض مساجد سے تو باہر نکال دیا جاتا ہے ۔ بیت اللہ اور مسجد نبوی میں ایسی کوئی سختی نہیں ہے۔ آج کل مساجد میں ٹوپیاں رکھی جاتی ہیں ان کے استعمال سے تو شاید نماز مکرہ ہو جاتی ہو کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو لباس پہن کر آپ بازار جانے یا کسی مجلس میں شرکت سے شرمائیں اس لباس (جس میں ٹوپی بھی شامل ہے ) کو پہن کر نماز نہیں ہو تی ۔کوئی بھی شخص مسجد والی ٹوپی پہن کر شرفاء کی مجلس میں شرکت نہیں کر سکتا نہ کسی افسر اور حا کم کے سامنے جا سکتا ہے ’پھر سب سے بڑے حاکم اللہ تعالیٰ کے حضور’ مسجد جیسے مقدس مقام کے اندر تو یہ بڑی ہی نا مناسب اور گستا خی والی بات ہوگی کہ ایسی ٹوپی پہن کر نماز ادا کی جائے ۔
چار نما زوں کیلئے تو اذان کے بعد اقامت میں کم از کم ۱۵ منٹ کا وقفہ ہوتا ہے لیکن مغرب کی نماز میں ہمارے ہاں اکثر مساجد میں بالکل وقفہ نہیں ہو تا ۔ اذان کی پکا ر پر لبیک کہہ کر گھرسے نکلنے والے کو پوری نماز با جماعت ملنا بہت مشکل ہے۔ (بیت اللہ اور مسجد نبوی میں کم از کم ۲نفل کی ادائیگی کا وقفہ ہوتاہے )اس جلدی کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔رمضان المبارک میں ہر مسجد افطار کیلئے معقول وقفہ کرتی ہے۔ گویا اذان کے بعد فوری جماعت شرعاً لازمی اور ضروری نہیں ۔ کیا اس وقفے کو رواج دے کرہم بہت سے نمازیوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ شرکت کے اجرو ثواب کا مستحق نہیں بنا سکتے ؟بعض مسا جد میں تو اس حد تک جلدی کی جاتی ہے کہ نما ز شروع ہوجاتی ہے اور محلہ کی دوسری مساجد سے لاؤ ڈ سپیکر پر اذانوں کی آوازیں آتی رہتی ہیں جوقرآ ت سے ٹکرا تی ہیں ۔
ایک معاملہ مسجد کی گھڑیوں کا بھی ہے انہیں اصل وقت سے کم از کم ایک منٹ ضرور پیچھے ہونا چائیے ۔اس طرح زیادہ نمازیوں کو نما ز باجماعت ملے گی جبکہ گھڑی آگے ہونے( چند سیکنڈ ہی سہی ) سے نمازی تکبیر اولیٰ یا رکعت سے محروم ہو سکتاہے۔ایک منٹ کی تا خیر کی باعث خیر ہو گی ۔
جمعہ کے دن اکثر اردو تقریر کے بعد سنتوں کا وقفہ اور عربی خطبہ کیلئے اذان ہوتی ہے ۔ مقرر کو مقررہ وقت پر تقریر ضرور ختم کر دینا چائیے کیونکہ اس کے بعد سامعین کی توجہ تقریر سے ہٹ کر گھڑی اور نمازکی طرف ہو جاتی ہے اور نماز کے بعد ان کی دوسری مصروفیات ہوتی ہیں ۔
موبائل ٹیلی فو نوں کی گھنٹیوں کی آوازیں آج کل مساجد کا ایک مسئلہ ہے ۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی موبائل کوضرور بند کر دینا چائیے ۔ اس کی یا د دہانی بھی کرانی چائیے مگر پھر بھی بھول چوک ہو سکتی ہے ۔ حالت نمازمیں موبائل کو بند کرنے کے مسئلے کے بارے میں علما کو آگاہ کرنا چاہیے ۔ میرا خیال ہے نماز کے دوران ہی میں اسے بند کردینا چاہیے کیونکہ اس سے دوسرے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے لوگ سلا م پھیرتے ہی متعلقہ فرد کو گھورنا شروع کر دیتے ہیں۔اس میں صبر کا مظاہر ہ کرناچاہیے۔ کوئی نمازی جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا بلکہ خود اس کو بھی موبائل کی گھنٹی شرمند ہ کر دیتی ہے ۔
ایک اور معاملہ بیٹھ کر نماز ادا کرنے والوں کا ہے ۔ دوران نمازمیں کسی وجہ سے کھڑے ہونے والے نمازی کو بیٹھنے کی ضرورت لاحق ہو جائے تویہ تومجبوری کی بات ہے ورنہ جنہیں بیٹھنا ہو، انہیں چاہیے کہ وہ صف کے کونوں پر نماز ادا کریں۔
فجر اور عصر کی نمازوں میں سلام پھیرنے کے بعد پیش امام حضرات بالعموم دائیں جانب رخ کر کے اذکار ودعا کیلئے بیٹھ جاتے ہیں میری معلومات کے مطابق حضور ﷺ کبھی دائیں اور کبھی بائیں رخ سے مڑتے ہو ئے پشت قبلے کی طرف اور چہرہ تمام نمازیوں کی طرف کر کے بیٹھتے تھے۔ پہلے آکر صفوں میں بیٹھنے والے حضرات بالکل ساتھ مل کر نہیں بیٹھتے اور شاید ایسا ممکن بھی نہیں اور بعد میں آنے والے بالعموم درمیان میں گھس کر بیٹھنے کا عمل کرتے ہیں جس کو نبی کریمﷺ نے نا پسند فرمایا ہے۔ اسی طرح بیٹھے ہوئے نمازیوں کے کندھے کو پار کر کے آگے جانے کو بھی اچھا نہیں قراردیاگیا۔ دیر سے آکر اول صف میں شرکت کیلئے نامناسب کوشش باعث ثواب نہیں ہو سکتی مجلس اور مسجد کے آداب کا خیال رکھنا چائیے اگر دائیں بائیں کے نمازیوں کو بغیر حرکت پر مجبورکئے بیٹھا جا سکتا ہو تو ضرور درمیان میں بیٹھا جائے یا اگر خود اگلی صف کے نمازی جگہ بناکر بٹھانا چائیے ورنہ جماعت کے کھڑے ہونے کا انتظار کرنا چائیے۔
بچوں کی مسجد میں آمد اورنمازکی ادائیگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ تاخیر سے آ نے والے بڑوں کی وجہ سے پہلے بڑوں کی اور پھر بچوں کی صفیں تو بن ہی نہیں سکتیں ۔اکثر مساجد میں اجتہادکر لیا گیا ہے اور اب بچوں کودائیں با ئیں کھڑاکر نے کو کہا جا تا ہے۔ مسجد کا احترام اور صفائی اور طہارت کاعلم نہ رکھنے والے اس کے علاوہ رونے والے اور صفوں میں گھومنے والے بچوں کو بالکل مسجد میں نہیں لاناچاہیے۔سمجھدار بچوں کو بڑوں کے درمیان بھی گھڑا کیا جا سکتا ہے اس طرح باقی نمازیں ان کی شرارتوں سے بھی محفوظ ہو جائیں گے ۔بڑوں کا رویہ بچوں کے ساتھ ہمدردانہ ’مشفقانہ اور حوصلہ افزائی والا ہونا چاہیے تاکہ ان میں مسجد آنے اور نما زپڑھنے کا شوق بڑھے۔نماز پڑھتے ہوئے پکڑکر پیچھے کرنے ’ڈانٹنے یا اور کسی بھی طرح انہیں بزرگوں ’مسجدوں اور نماز سے متنفرّاور دور کرنے کا باعث نہیں بننا چائیے۔
سب سے آ خر میں ایک خواہش ہے کہ نمازوں میں حتیٰ الامکان تلاوت مسنونہ اورمسنون قیام اور رکوع وسجود کی پیروی کی کوشش کی جائے ۔قرآن کی کچھ آیات اور سورتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ ان کو مخصوص نمازوں میں یا خصوصی مواقع پر نسبتاً کثرت سے پڑھتے تھے ۔اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے کہ اس معاملہ میں رسول اللہﷺ کی پیروی کی جائے ۔
درج بالا امور کی جانب جب علماء کرام ’آئمہ کرام اور مسجد کی انتظامی کمیٹیاں نمازیوں کو بار بار توجہ نہ دلائیں گی اور عملی اقدامات نہ اٹھا ئیں گی اس وقت تک ان کا درست ہونا دشوار ہوگا ۔اس لیے اس بارے میں کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
یہ میرے مطالعہ ’ مشاہدے اور تجربے کے بعد ذاتی احساسات اور گزارشات ہیں۔ مکمل شرعی نقطۂ نظر علمائے کرام ہی بیان کر سکتے ہیں ۔بہت سی گزارشات معمولی اور غیر اہم محسوس ہو سکتی ہیں لیکن بہتر سے بہتر کااصول پیش نظر رہے توکوئی امر بھی غیر ضروری محسوس نہیں ہو گا۔