منتخب کالم
دہشت گردی براستہ مذہبی شدت پسندی
عطا ء الحق قاسمی
دہشت گردی ہمارے ہاں یونہی پروان نہیں چڑھی، ہم لوگوں نے خود ’’جہادی‘‘ گروپ تیار کئے، بعد میں جب یہ جن بوتل سے باہر آیا تو ہم نے ان میں سے کسی کو اچھے دہشت گرد اور کسی کو برے دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ ان کی ذہنی تربیت کے لئے وہ لاکھوں روایات کافی تھیں جن میں سے کچھ من گھڑت تھیں اور کچھ کمزور تھیں۔ امام بخاری اور کچھ دوسرے محدثین نے محنت شاقہ سے کام لیتے ہوئے بے شمار حدیثوں کو رد کیا جو حضور پاک سے منسوب کی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ابھی بے شمار مواد ہماری کتابوں میں موجود ہے جو ملک دشمن اور اسلام دشمن اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک علما کے کسی بورڈ نے ان روایات کی چھان بین کا اہم کام نہیں کیا جو حضور پاک سے منسوب کی گئیں، چنانچہ ہر فرقے کو اپنے مطلب کی ’’ضعیف روایات‘‘ مل جاتی ہیں، بلکہ اگر آج کوئی گروہ دس بیس مزید فرقے بھی بنانا چاہے تو اسے ان فرقوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے لئے پورا میٹریل کتابوں میں تیار پڑا ہے۔ واعظ اور ذاکر حضرات کی دکانداری انہی روایات کے بل بوتے پر چلتی ہے، وہ یہ روایات بے دریغ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اور نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے حیدری میں اس کی داد ان سامعین سے وصول پاتے ہیں، جن کے اپنے مقاصد کے لئے بھی یہ روایات نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مسلم امہ اس وقت انہی روایات میں جکڑے ہوئے ’’اسلام‘‘ کی پیروکار ہے، انہی روایات کی وجہ سے نہ صرف شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ فرقہ پرستی کا مرض بھی ہماری شریانوں میں لہو کی طرح پھیل رہا ہے اور دہشت گرد گروہ انہی روایات کی بنیاد پر جنت کے ٹکٹ کٹوا رہے ہیں ۔
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
اب میں ایک ’’حدیث‘‘ بیان کر رہا ہوں، جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور اگر آپ اسے سچ سمجھ بیٹھیں گے تو آپ کا ایمان ڈگمگا جائے گا اس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ بے بنیاد روایات کے علاوہ روایات میں تحریف کر کے بھی مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال فیس بک پر طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا وہ پیغام بھی ہے جس کا متن یہ ہے:طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کا کہنا ہے کہ مجاہدین کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ صرف بڑے بچوں کا قتال کریں۔ پشاور کی کارروائی سنت نبوی کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ نبی کریم نے بھی بنو قریظہ کے قتال کے وقت یہی شرط مبارک عائد کی تھی کہ صرف ان بچوں کو قتل کیا جائے جن کے زیر ناف بال دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں، بچوں اور عورتوں کا قتل عین رسول پاک کی تعلیم کے مطابق ہے، اعتراض کرنے والے صحیح بخاری جلد پانچ حدیث ایک سو اڑتالیس کا مطالعہ کریں‘‘ یہ ’’حدیث‘‘ جس طرح حوالوں کے ساتھ بیان کی گئی، میں ایک دفعہ تو لرز کر رہ گیا، پہلے میں نے سوچا کہ کسی عالم دین سے رجوع کرتا ہوں مگر پھر خیال آیا کہ وہ کہیں صحیح بخاری کا نام سنتے ہی تاویلات کے ساتھ اس کی تصدیق نہ کر دیں چنانچہ میں نے اپنے منجھلے بیٹے علی عثمان قاسمی کو فون کیا جس نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی سے RELIGION IN SOUTH ASIAکے موضوع پر ڈاکٹریٹ اور لندن یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہے، اس نے بتایا کہ یہ حدیث غلط ’’کوٹ‘‘ کی گئی ہے، اصل واقعہ یہ ہے کہ غزوہ خندق میں یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا کہ وہ کسی جنگ میں مشرکین کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن جب غزوہ خندق کے دوران ایک بھگدڑ سی مچی تو بنو قریظہ نے یہ سمجھ کر کہ مسلمان شکست کھا رہے ہیں، ان پر عقب سے حملہ کر دیا۔ جب غزوہ اپنے اختتام کو پہنچا تو بنو قریظہ کو معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا دینے کے لئے ان کے قبیلے کا محاصرہ کیا گیا جو 25دن جاری رہا، بالآخر بنو قریظہ نے خود کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا اور معاہدے کی خلاف ورزی پر سزا کے لئے اوس قبیلے کے سردار سعد بن معاذ کو ثالث مقرر کیا اور کہا کہ اس کا ہر فیصلہ ان کے لئے قابل قبول ہو گا۔ سعد بن معاذ نے یہودیوں کی مقدس کتاب تورات کے مطابق اپنا فیصلہ سنایا اور وہ یہ تھا کہ بنو قریظہ کے سارے مرد قتل کر دیئے جائیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے یہ اصل واقعہ تھا مگر اس میں تحریف کر کے پشاور کے سانحہ عظیم کا جواز پیش کیا گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے لوگ قیامت کے روز حضور پاک کا سامنا کیسے کریں گے، لیکن کیا انہیں اس کی پرواہ ہے بھی کہ نہیں۔ میرے خیال میں نہیں۔ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں لگتا۔ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے جو منبع ہیں ان میں سے کچھ بظاہر بالکل بے ضرر ہیں بلکہ اگر ان ذرائع کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ہمارا ملک جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ شرعی وضع قطع کے پیران عظام کے علاوہ ان دنوں لوگ پڑھے لکھے لوگ ماڈرن قسم کے مرشدوں کی طرف بھی کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ وہ ان کے پاس اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لئے جاتے ہیں اور وہ انہیں پڑھنے کے لئے کچھ وظائف بتا دیتے ہیں۔ اسی طرح خواتین بھی مختلف مقامات پر مذہبی مجلسیں منعقد کرتی ہیں۔ جہاں کوئی خاتون اسلام کے بارے میں گفتگو کرتی ہے مدرسوں کے علاوہ ہر گھر میں قاری صاحب بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھانے کے لئے آتے ہیں۔ ہماری نصاب کی کتابوں میں خواہ وہ سائنس ہی کی کتاب کیوں نہ ہو، مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے لیکن ان سب افعال کا نیٹ رزلٹ کیا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ان اچھے کاموں کی بدولت اچھا ہوتا جا رہا ہے، اس کا باطن روشن ہو رہا ہے وہ نفرت، کدورت، حسد، غیبت، ملاوٹ، کرپشن، اسمگلنگ، فرقہ پرستی دہشت گردی، قتل و غارت گری اور اس طرح کی دوسری لعنتوں سے پاک ہو گیا ہے یا کم از کم اس میں کچھ کمی آئی ہے؟ آپ اپنے اردگرد اس سوال کا جواب تلاش کریں تو پتہ چلے گا کہ زیادہ سے زیادہ صرف ظاہر بدلا ہے، باطن کی کثافت وہیں کی وہیں ہے۔
کیا کریں تبصرہ کہ تاب نہیں
دن بھی تاریک ہو گیا صاحب
ہم کہاں سے کہاں تک آ پہنچے
دین تضحیک ہو گیا صاحب!
اور اب آخر میں میرا سوال اس کمیٹی سے ہے جو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تشکیل دی گئی ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس فساد کی جڑوں تک پہنچ بھی سکے گی کہ نہیں کہ۔اس میں دو چار سخت مقامات بھی آتے ہیں!***