‘‘اسد.....اسد۔۔۔۔اسد۔۔۔۔’’ ‘‘میرے بچے،میری جان!ڈیک کی آواز ذرا کم کردو ، دیکھو مَیں ابھی کالج سے تھکی ہاری آئی ہُوں۔’’ ‘‘ماما! آپ نے بھی اب اُس وقت آنا شروع کر دیا ہے جو میرے آنے کا ٹائم ہوتا ہے۔ پلیز آپ پہلے کی طرح شام میں آیا کریں ، اس طرح سے آپ کو تنخواہ بھی زیادہ ملے گی اور میں سکون سے سونگز بھی سن لیا کروں گا۔’’
یہ سن کر میں‘چیختی خاموشی’ کے ساتھ چلی آئی۔بیڈپر گرتے ہی مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں جیسے بیڈ پر نہیں بلکہ سڑک پر گر پڑی ہوں۔
ا ور پھر مجھے وہ دن شدت سے یاد آیا کہ جب میں اسد کو پہلے دن سکول چھوڑ کے آئی تھی۔ اتنی بے چینی تھی کہ کچھ پڑھابھی نہیں پارہی تھی ۔میں بار بار گھڑی دیکھتی اور بار بار ارادہ کرتی کہ ابھی کالج سے چھٹی کروں اور ابھی اسد کے سکول کی طرف نکل چلوں۔ میرے بچے کا سکول میں پہلا دن ہے ،نہ جانے وہ کتنا پریشان ہو گا۔آخر مجھ سے نہ رہا گیا اورمیں چھٹی سے ایک گھنٹہ قبل ہی اس کے سکول کی طرف چل پڑی تھی۔اس خدشے سے کہ کہیں مجھے دیر نہ ہوجائے ، میں نے رکشہ لے لیاتھا حالانکہ سکول کا پیدل راستہ بھی بیس منٹ سے زائد نہ تھا۔ یہ خیال مجھے اند رسے کاٹ رہا تھا کہ میرا بچہ مجھے یاد کر رہا ہوگا۔ وہ بار بار اپنی کلاس کے دروازے کی طرف دیکھتاہوگا کہ ابھی ماما آئیں گی اور مجھے نجات دلائیں گی۔جذبات کے اسی مدوجزر میں رکشے والے کو تیز چلانے کو کہتی رہی مگر یہ کیا ! تیزی میں رکشا الٹ گیاتھا۔ میں الٹے ہوئے رکشے سے بھی اپنی دھن میں تیزی سے نکلی اور یہ کہتے ہوئے کہ ‘‘ میرا بچہ، اس کی چھٹی کا وقت ہورہا ہے۔’’ تیزی سے سکول کی طرف چلنے لگی تھی۔مگر اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہوا کہ چلنے میں میرے بازو میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ دیکھا تو دائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور وہ گوشت کے چند ریشوں کے سہارے کہنی سے لٹک رہا تھا۔ خون بھی جاری تھا۔نہ جانے اس دن مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی کہ میں اسی حال میں بازو کو دوسرے ہاتھ سے سہارا دے کرچلتی رہی۔سوچا کہ ہسپتال بعد میں جاؤں گی پہلے اسد کو لے لیتی ہوں۔ لوگ مجھے آوازیں دے رہے تھے کہ بی بی ! کدھر جارہی ہو، اسپتال دوسری طرف ہے۔ لیکن جب میں نہ رکی تو لوگوں نے قریب آکربتایالیکن میں نے پھروہی کہا ‘‘میرے بچے کو سکول سے چھٹی ہونے والی ہے اور مجھے اسے لینا ہے۔ پہلے اسے لے لوں پھر اسپتال بھی چلی جاؤں گی۔ وہ بیچارہ پریشان ہوتا ہوگا’’۔مگر یہ کہتے ہوئے میں تکلیف کی شدت سے سڑک پر گر پڑی تھی۔۔۔۔۔ ۔
اسد کے ساتھ میرے اس مکالمے کو کئی دن بیت چکے ہیں مگر میں اب بھی اپنے بازو پر لگے ٹانکوں کو گھورتے ہوئے یہ سوچتی ہوں کہ اس دن اسد کی بات سن کر میں جب بیڈ پر گری تھی تو مجھے یہ کیوں محسوس ہوا تھا کہ میں جیسے بیڈ پر نہیں بلکہ سڑک پر گر پڑی ہوں۔