کسی اور حلقے میں یہ احساس نمایاں ہو یا نہ ہو ، دینی اور علمی حلقوں میں قحط الرجال کا احساس روز بروز بڑھ رہا ہے ، اور یہ احساس دل کو اداس اور روح کو پژمردہ کردینے والا ہے ۔ یہی وہ دو حلقے ہیں جن سے انسانیت کا مقدر وابستہ ہے ، اور یہی دو حلقے معاشرے کو وقار ، متانت ، روشنی ، بصیرت اور بلند فکری عطا کرتے ہیں ۔ خدانخواستہ یہ محفل اجڑ گئی تو پوری سوسائٹی ویران ہو جائے گی ۔ پہلے اندھیرا کیا کم ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی چراغ بجھتا چلا جا رہا ہے اور تاریکی بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے ۔
اکیسویں صدی کا پہلا سورج بڑی تمناؤں اور آرزوؤں کے جلو میں طلوع ہوا اور بہت سی دعاؤں کے ساتھ ابھرا لیکن عالم اسلام بالعموم اور برصغیر پاک وہند بالخصوص نئی صدی کے پہلے ہی دن ایک بہت بڑے حادثے سے دوچار ہوئے ۔ دین کے خادموں ، علم کے پیاسوں ، ادب کے نیاز مندوں ، لفظ وحروف کے قدر دانوں اور قدیم وجدید کے رمز شناسوں کو اس خبر وحشت اثر نے مرجھا اور رلا دیا کہ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ دار فانی سے عالم باقی کو روانہ ہو گئے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ جو دینی وعلمی حلقوں میں ‘‘علی میاں ’’ کے نام سے معروف تھے ، صرف ہندستان کے نہیں پورے عالم اسلام کے دینی وعلمی مکتب کے نہایت محترم اور ممتاز فرد تھے ۔بزم علم ان کے دم سے آباد تھی اور آبروئے دین ان کے وجود سے قائم تھی ۔ اب دنیا ایک سید زادے ، نجیب الطرفین ،شریف الطبع ، معتدل مزاج ، مہذب شخص ، روشن خیال عالم ، صاحب اسلوب مصنف ، عربوں سے بڑھ کر عرب شناس ، مرید اقبالؒ اور مسلمانان ہند کے مربی وہمدرد کی جدائی پر برسوں تک آنسو بہاتی اور ایک ایسے نادرۂ روزگار شخص کی مدتوں تک راہ دیکھتی رہے گی ۔ موت برحق ہے اور وہ بے وقت نہیں آتی اور ایک مسلمان کو شکایت کرنے کا استحقاق بھی نہیں کہ مولا کی رضا ہر چیز سے اولی ہے ، مگر موت کے ‘‘حسن انتخاب’’ کی ‘‘داد’’ دین پڑتی ہے کہ وہ گلشن ہستی سے چن کر ایسی پھول توڑتی ہے جو پورے چمن کی رونق ہوتا ہے ۔ بزم دنیا کا ایسا چراغ بجھاتی ہے جس کی روشنی سے وہ قائم ہوتی ہے ۔ محفل انسانیت کا وہ فرد اچک لیتی ہے جس سے انسان کا بھرم باقی ہوتا ہے ۔ مجلس عمل کے اس شخص پر جھپٹا مارتی ہے جو صدر نشین ہوتا ہے ۔ کہکشاں کے اس ستارے کو توڑتی ہے جو سب سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔ قوس قزح کی وہ دھاری مٹاتی ہے جس کا رنگ سب سے زیادہ جاذب نظر ہوتا ہے ۔ خاندان کے اس فرد پر طاری ہوتی ہے جو پورے قبیلے کی آبرو ہوتا ہے اور دھرتی کو اس سے محروم کرتی ہے جو زمین کا نمک ہوتا ہے ۔ کتنے لاکھ انسان ہیں جن کو خود اپنا مصرف معلوم نہیں ، جن کا وجود بس ایک لاشہ ہے ، جن کے پیکر چونا کی ہوئی قبر کے برابر ہیں ، جن کی سانس کسی پھانس سے کم نہیں ، جن کا ہونا نہ ہونے سے بڑا عیب ہے ، جن کو جن کر مائیں پچھتائیں ، جو شب زاد ہیں اور عمر بھر شب پرست رہے ، ایسے لوگ رہ جائیں یہ بڑا حادثہ ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ چلے جائیں جن کی زندگی حاصل بندگی ہو ، جن کا وجود آیہ الہی ہو ، جن کے پیکر نازش بشر ہوں ، جن کی سانس علم وفکر کی آس ہو ، جن کا ہونا غنیمت اور چلے جانا قیامت ہو ، جن کو جنم دے کرمائیں امر ہو جائیں ، جو زادگان آفتاب ہوں اورمنزل نور کے مسافر ہوں ۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
مولانا علی میاں ؒ 1914 میں پیدا ہوئے ، رائے بریلی ان کا مولد ہے اور سید احمد شہید ان کے جد امجد ، آپ کے والد گرامی سید عبد الحئی ؒ بذات خود ایک عالم اورمصنف تھے۔ آٹھ جلدوں میں ان کی کتاب ‘‘نزہتہ الخواطر’’ آج بھی ان کے لیے سند علم واحترام ہے ۔ علی میاں ؒ کو نسبت بھی اچھی ملی ، خانوادہ بھی خوب نصیب ہوا ، ماحول بھی پاکیزہ میسر ہوا ۔ اساتذہ بھی کمال کے تھے ، مربی ومرشد بھی شاہ عبدالقادر رائے پوری ؒ جیسے تھے ، اور قسمت بھی شاندار پائی ۔ کم عمری میں وہ بڑوں کے درمیان بیٹھنے کے قابل ہو گئے، لکھنے پڑھنے کا شوق روز اول سے تھا ۔ ان کے والد گرامی کی ایک کتاب ‘‘گل رعنا’’ علمی وادبی حلقوں میں بہت معروف اور محبوب رہی ۔ علی میاں ؒ کی پہلی پہچان صاحب ‘‘گل رعنا’’ کے فرزند کی تھی ، مگر وقت آنے پر وہ خود ایسے ‘‘گل رعنا’’ بنے کہ اس خوشبو سے عرب اور عجم مہک اٹھے ۔ پندرہ سولہ سال کی عمر کیا عمر ہوتی ہے لیکن وہ اس عمر میں علامہ اقبالؒ سے ملے ، نازش ادب حافظ محمود شیرانی سے ہمکلام ہوئے ، علامہ تاجور نجیب آبادی سے ملاقات کی ، خواجہ دل محمد کی صحبت میں بیٹھے ، مصور مشرق عبدالرحمان چغتائی سے نشست کی ، مصنف شاہ نامہ اسلام حفیظ جالندھری کے کھانے میں شرکت کی اور پروفیسر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع سے تبادلہ خیال کیا اور اپنی ابتدائی عربی نویسی سے انہیں متاثر کیا ۔ جس غنچے کی یہ اٹھان ہو وہ پھول بن کر پورے چمن کا مان کیوں نہیں بڑھائے گا ؟
مولانا علی میاں ؒ کو قدرت نے اخاذ ذہن ، روشن دماغ ، بلند فکر ، محنتی طبیعت ، دور رس نگاہ ، مومن دل ، مصفا روح ، رواں قلم اور شگفتہ اسلوب تحریر سے نوازا تھا ۔ انہوں نے اللہ کی دی ہوئی ہر ذہنی فکر ، دماغی وقلبی اور روحانی وعلمی نعمت کا شکر اس طرح ادا کیا کہ اپنے ذہن کو ژولیدہ نہیں ہونے دیا ، دماغ کو زنگ نہیں لگنے دیا ، فکر کو پست نہیں ہونے دیا ، روح کو تاریک نہیں ہونے دیا ، قلم کو رکنے نہیں دیا اور اسلوب تحریر کو بوجھل نہیں بننے دیا تاکہ قیامت کے دن کوئی تشنہ جواب سوال ان کی فرد عمل میں باقی نہ رہے ۔ کیونکہ ان سب نعمتوں کے بارے میں خدا روز محشر سوال کرے گا کہ یہ صلاحیتیں کہاں کہاں کھپائیں اور یہ نعمتیں کیسے کیسے خرچ کیں ؟
عرب وعجم کا شاید ہی کوئی ادارہ اور فورم ہو جہاں علی میاں ؒ کو پہنچنے ، بات کرنے اور اسلام کا پیغام عام کرنے کا موقع نہ ملا ہو ۔وہ چونکہ ایک انقلابی اور جہادی پس منظر کے حامل خانوادے کے فرد تھے ، اس لیے ان کا علم خشک الفاظ وتراکیب کا مجموعہ نہ تھا بلکہ ایک زندہ وتوانا جذبہ بن گیاتھا جسے وہ شرق وغرب میں بانٹتے پھرتے تھے ۔ وہ اوائل میں اسی جذبے کی تسکین کے لیے اپنا سارا پندار علم اور اثاثہ شہرت تیاگ کر مولانا مودودیؒ سے آملے ۔ جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن بنے اور احیا وغلبہ اسلام کی اس تحریک میں بلا تکلف شامل ہو گئے مگر بوجوہ وہ زیادہ دیر تک اس میں نہ رہ سکے لیکن عمر بھر مولانا مودودی سے محبت، احترام اور اخوت کا رشتہ قائم رکھا۔ ‘‘قرآن کی چار بنیاد ی اصطلاحیں ’’ (جو مولانا مودودیؒ کی مشہور تخلیقی تصنیف ہے ) مولانا علی میاں ؒ کو اس تعبیر سے اتفاق نہ تھا ۔ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے عہد جدید میں اسلام کی نئی تشریح وتفہیم کے حوالے سے ایک کتاب لکھی مگر چھاپنے سے پہلے مولانا مودودیؒ سے ملے اور انہیں مسودہ دیا ، تاکہ یہ اختلاف رائے باہر آنے سے پہلے گھر میں ہی ختم ہو جائے لیکن جب مولانا مودودیؒ نے ان سے کہا کہ آپ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے میں آزاد ہیں اور اس کتاب میں آپ کی متانت ، سنجیدگی اور دلسوزی کسی طور پر مجروح نہیں ہوتی نظر آرہی اس لیے آپ اسے شائع کر سکتے ہیں ، تب وہ کتاب شائع ہوئی ۔ جانبین کے جذبہ حق پرستی اور عالمانہ وقار کی داد دینی چاہیے ورنہ علمی ودینی حلقوں میں یہ سلامتی فکر ، اور توازن طبیعت کہاں ؟
باوجود یکہ وہ اقامت دین کے اس فلسفے سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے تھے جو عہد جدید میں مولانا مودودیؒ نے بڑ ے مدلل اور پرکشش انداز میں پیش کیا تاہم وہ آخر دم تک ‘‘مکتبی ملا’’ کے بجائے ‘‘تحریکی رہنما’’ کے طور پر سرگرم عمل رہے ۔ ان کی شہرہ آفاق اور ان کے لیے بے حد باعث فخر کتاب ‘‘انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر’’ پر ڈاکٹر طہٰ حسین نے بڑے چاؤ سے مقدمہ لکھا ( ڈاکٹر طہٰ حسین مصر کے جدید تمدن اور فکری ارتقا کے بڑ ے نامور نمائندہ اور معتبر شارح ہیں) مگر مولانا علی میاں ؒ نے سید قطب شہیدؒ سے دوبارہ اس کا پیش لفظ لکھوایا ۔ کہتے تھے کہ اس کتاب کے مضمون سے ڈاکٹر طہٰ حسین کو نہیں سید قطب شہیدؒ جیسی عمل پرور ، انقلاب انگیز اور تحریکی شخصیت کو زیادہ مناسبت حاصل ہے ۔ مولانا کی تحریریں ہمیشہ اخوان رہنماؤں کے حوالوں اور اقتباسات سے مزین رہیں ۔ہم لوگ اپنے ممدوحین اور بزرگوں کو القاب دینے میں بڑ ے فراخ واقع ہوئے ہیں ۔ ہمارے ہاں ہر دوسرا شخص غوث زماں ‘‘قطب دوراں ، شیخ المشائخ ، علامتہ الدہر، مفکر اسلام ، نابغہ عصر ، عالم بے بدل ، محقق العصر اور شیخ العرب وعجم ’’ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم بہت ہی کنجوسی سے بھی کام لیں تو یہ کہنا پھر بھی ہماری مجبوری ہے کہ مولانا علی میاں ؒ قدیم وجدید کے نمائندے ، عصری تقاضوں سے آگاہ عالم دین ، عربی کے مایہ ناز انشا پرداز ، زندہ وبیدار ضمیر اور دعوت دین کی حکمتوں کے شارح اورنقیب تھے ۔ ان کا اوڑھنا بچھونا لفظ وحرف تھا ۔ عمر بھر دعوت وتبلیغ اور تصنیف وتالیف اور تنظیم وتدریس میں مشغول رہے ۔ انہیں علم ، سیاست ، تاریخ اور سماج کے بڑے لوگوں سے قرب حاصل رہا اور انہوں نے بڑا فیض حاصل کیا ۔ انہیں اعلی علمی ودینی خدمات پر ‘‘شاہ فیصل ایوارڈ’’ ملا ، وہ ندوۃ العلما جیسے وقیع اور معزز ادارے کے ڈائریکٹر تھے ۔ رابطہ عالم اسلامی کے اساسی رکن اور عرب وعجم کی بے شمار یونیورسٹیوں کے وزیٹنگ پروفیسرتھے ۔ بہت سے ملوک ، شیوخ اور صدور سے ان کے ذاتی روابط تھے ۔ ان کی کتابیں دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوئیں ۔ ممالک عرب کے بہت سے ریڈیو اور ٹی وی چینل ان کے خطاب اور دروس کے لیے وقف رہے ، مگر بایں ہمہ ان کا چہرہ بشرہ ایک درویش کا ، ان کا لباس ایک فقیر کا اور ان کی بود و باش ایک اوسط درجے کے شرفا جیسی تھی ۔ ان کا نام بھی بہت بڑا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے کا م بھی بہت زیادہ کیا ، انہوں نے سات جلدوں میں ‘‘تاریخ دعوت وعزیمت ’’ لکھی اور تیرہ سو سالہ اسلامی تاریخ کے نقوش اس طرح روشن کیے کہ ساری گرد صاف ہو گئی ، حضرت حسن بصریؒ سے لیکر شیخ عبدالقادرؒ ، مولانا رومؒ سے لیکر امام ابن تیمیہؒ ، خواجہ معین الدین چشتی ؒ سے لیکر مجدد الف ثانی ؒ اور امام غزالی ؒ سے لیکر شاہ ولی اللہ ؒ تک کی خدمات کو بڑے خوبصورت اور جاندار اسلوب میں پیش کیا ۔ ‘‘اسلامیت اور مغربیت میں کشمکش’’ ان کی بہت اعلی پیش کش ہے ۔ سیرت اقدس پر ایک کتا ب‘‘نبی رحمت ؐ ’’ کے عنوان سے لکھی ۔ اسلام کے چار بنیادی ارکان پر ‘‘ارکان اربعہ ’’ تحریر کی۔ رد قادیانیت میں ان کی ایک کتاب موجود ہے ۔ اقبال کو عالم عرب میں متعارف کرانے والے وہ پہلے شخص تھے اور ‘‘نقوش اقبال’’ قلمبند کی جو عربی زبان میں ‘‘روائع اقبال’’ کے نام سے شائع ہوئی ۔ چار جلدوں میں ان کی آپ بیتی ‘‘کاروان زندگی’’ کے عنوان سے سامنے آئی ۔ ‘‘منصب نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین’’ ان کی بہت ہی روح پرور تصنیف ہے۔ عرب وعجم ، یورپ اور امریکہ کے سفر نامے الگ الگ کتابوں کی شکل میں کئی بار شائع ہو چکے ہیں ۔ ‘‘کاروان مدینہ’’ ان کے سیرت کے موضوع پر ایمان افروز لیکچرز کا مجموعہ ہے ، سید احمد شہیدؒ کی سیرت ان کی اولین تصنیفات میں شمار ہوتی ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ ان کی تصنیفات 60 سے اوپر ہونگی اور بہت ہی عمدہ اور علم افروز ۔ علی میاں ؒ کی جملہ تصانیف کے مختلف زبانوں میں درجن بھر ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ‘‘انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر’’ ان کی شاہکار اور لافانی کتاب ہے ، اس کے تو عربی اور اردو میں 50 کے قریب ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مولانا ؒ کیا گئے ہیں ، محفل سخن سونی کر گئے ہیں ، چراغ علم مدھم کر گئے ہیں ، یقین ووجدان کا بازار بند کر گئے ہیں اور اخلاص وشرافت کی دکان بڑھا گئے ہیں ۔
کچھ ایسے بھی اس بزم سے اٹھ جائیں گے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے